Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Aurat March

    Aurat March

    گلیلیوگلیلی(Galileo Galilei)پانچ صدیاں پہلے کا ایک زرخیزترین انسان تھا۔ انسانی ذہن، فلسفہ، فزکس، فلکیات کاایک ایساتن آورشخص جس نے پوری دنیاکوہرلحاظ سے متاثرکیا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ گلیلیوسے پہلے اسپین میں مسلمانوں نے حددرجہ جدید تحقیقات کیں اورکرہِ ارض کوتبدیل کرکے رکھ دیا۔

    مگر عجیب بات یہ بھی ہے کہ اسپین میں جدیدخیالات کی بنیاد پراکثریت مسلمان فلسفیوں کوریاستی جبرکاسامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے آج کی دنیامیں اُجاگر کرنا ضروری ہے۔ مگراس پرکوئی خاص بحث نہیں ہوتی۔ یعنی سات سوسال پہلے مسلمان معاشرے جدت پسند، متوازن اورکافی حد تک انسان دوست تھے۔

    مگر اس کے بالکل متضاد پورایورپ ظلم کی حدتک نئے خیالات کا جانی دشمن تھا۔ پوپ یورپ کی اخلاقیات، اقتدار، ریاستوں کے حالات کاضامن سمجھاجاتاتھا۔ عہدہ اس درجہ طاقتورتھا کہ یورپ کی تمام ریاستیں اس کے سامنے سرنگوں تھیں۔ کوئی بادشاہ بھی پوپ کی حکم عدولی کاسوچ بھی نہیں سکتاتھا۔ ہاں، پوپ کے پاس انسان کوجنت اوردوزخ میں بھجوانے کا اختیاربھی تھا۔ یعنی دنیابھی اس کے ہاتھ میں تھی اورمرنے کے بعدکی زندگی بھی پوپ کی مرہونِ منت تھی۔

    گلیلیونے یہ جرات دکھائی کہ مشاہدہ اورتحقیق کی بنیاد پر نئی تھیوریاں پیش کرنی شروع کردیں۔ گلیلیویورپ میں پہلاشخص تھاجس نے کہاکہ دنیا، کائنات کامرکزنہیں ہے۔ سورج اس کے اردگرد نہیں گھومتا۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ کرہِ اَرض ساکت نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک خاص رفتار سے گھومتی ہے۔ یہ جدید خیالات چرچ کے لیے ناقابل قبول تھے۔

    چنانچہ اس شخص پرپوراریاستی جبربھڑیے کی طرح پَل پڑا۔ 1611میں پوپ نے گلیلیوپرپابندی لگا دی کہ وہ کسی جگہ پربھی اپنے خیالات کاپرچارنہیں کر سکتا۔ ساتھ ساتھ اس کے لکھنے پربھی تشددآمیزپابندی لگ گئی۔ مگر اس پربھی پوپ کوچین نہ آیا۔ 1632میں پوپ کے حکم پرگلیلیوکوگھرمیں تاحیات نظربند کر دیا گیا۔ گلیلیومرتے دم تک اپنے گھرمیں مقیدرہا۔ جو تقریباً ایک دہائی پر مشتمل تھا۔ مگراس کی جدت پسندی اورنئے خیالات مرتے دم تک قائم رہے۔ اورآج بھی قائم ہیں۔

    آپ کے ذہن میں سوال ہوگاکہ میں آج، تقریباً پانچ سوبرس پہلے کے ترقی پسندانسان کاذکرکیوں کررہا ہوں۔ اس کی قیداوراس پرچلائے جانے والے مقدمے سے بھلاہمارے ملک کاکیاتعلق۔ اگرعامیانہ طریقے سے دیکھاجائے توواقعی کوئی تعلق نہیں۔ مگر گہرے تجزیے سے اندازہ ہوتاہے کہ ہمارے ملک میں نئی بات کہنا اتنا ہی مشکل ہے جتناپانچ صدیاں پہلے یورپ میں تھا۔ آج ملک خدادادپاکستان میں کوئی جدید تجزیہ، حرکت اور کلیے کو پیش کرنااتناہی ناممکن ہے، جتنا گلیلیو کے لیے چند سو سال پہلے تھا۔

    ذہنی طور پر اتنا غلامانہ شخصیت بنا دیا گیا ہے کہ ہم ہر جدید عنصرکو معاشرے، روایات اور اخلاقیات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ علم ہے کہ میری تحریرپربھی بھرپور تنقید کی جائے گی۔ تمام گزارشات حالیہ ہونے والے "عورت مارچ" کے حوالے سے کررہا ہوں۔ گزشتہ پانچ دہائیوں میں دیکھیں تودنیاحددرجہ تبدیل ہوئی ہے۔ نظریات، حکومتی معاملات، سماجی تعلقات اورانسانی ذہن ایک سواسی ڈگری کے حوالے سے انقلابی طورپر غیر منجمد ہوئے ہیں۔ عورتوں کے حقوق، ان کے معاملات اسی مہذب تبدیلی کاایک اہم ترین حصہ ہے۔ مگر برصغیر خصوصاً ہمارے ملک میں خواتین کے جائزحقوق کے حوالے سے تحریک یاتبدیلی کی بات کرناشجرِممنوعہ گردانا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ حددرجہ پڑھے لکھے لوگوں کابھی خواتین کے متعلق عملی رویہ کوئی خاص بہتر نہیں ہے۔

    پاکستان میں عورت مارچ کا آغاز 2018میں ہواتھا۔ کراچی سے شروع ہونے والی یہ تحریک نسواں پورے ملک میں مقبول ہوئی۔ مختلف غیرسیاسی خواتین کے پلیٹ فارم اس تحریک کاحصہ بنتے چلے گئے۔ جن میں وومن ایکشن فورم، وومن ڈیمو کریٹک فرنٹ اورمتعددتنظیمیں شامل تھیں۔ قابل ذکر نکتہ یہ بھی ہے کہ جیسے ہی یہ تحریک شروع ہوئی۔ مختلف حلقوں سے اس کی شدیدمخالفت بھی دیکھنے میں آئی۔ ہمارے چندسکہ بند دانشوروں نے عورت تحریک کو غیر اخلاقی قرار دیدیا۔ یہ تفریق بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اس بار یعنی 2021 میں چنددن پہلے عورت مارچ کاباقاعدہ ایجنڈاجاری کیا گیا۔

    اوراس کے بعدپورے ملک میں اس کی گونج سنائی دی۔ اس میں پندرہ نکات تھے۔ بارہ نکات توصوبائی حکومتوں سے تعلق رکھتے تھے اورتین کا تعلق مرکزی حکومت سے تھا۔ صوبائی حکومتوں سے خواتین، چھوٹے بچوں کے لیے سہولتیں مانگنے کا ذکر تھا۔ عورتوں کے قتلِ عام کوروکنے کی استدعاتھی۔ بالکل اسی طرح خواجہ سراؤں کے حقوق کی بات بھی شامل تھی۔ یہاں تک توبات درست نظرآتی ہے۔ مگرگمشدہ لوگوں کی بازیابی اور تجاوزات کوختم کرنے کے متعلق تجاویز، کم ازکم اس مارچ کے مقاصدسے بالکل مختلف بلکہ متضاد تھیں۔

    بہرحال یہ عورت مارچ کے منتظمین پر منحصرہے کہ وہ کن نکات پر حکومت سے تعاون مانگ رہی ہیں۔ مگراس مارچ کو سیاست سے مبرا رکھناہی اصل کامیابی ہے۔ حقیقت میں برصغیرمیں مسلمان خواتین کے حقوق کے متعلق اولین کام سر سید احمدنے کیاتھا۔ علی گڑھ کالج میں جو سرسیدکے بعد یونیورسٹی بن چکاتھا، محترم سرسید صاحب نے مسلمان بچیوں کے لیے تعلیم کے دروازے مکمل طورپر کھول دیے تھے۔ لڑکیوں کے لیے علیحدہ ہوسٹلز موجود تھے۔ شائد آپکویہ سنکرتعجب ہوگاکہ لڑکیوں کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلوں میں حصہ لینابھی لازمی تھا۔

    جناب، آج سے تقریباًایک صدی پہلے مسلمان، بچیاں، علی گڑھ یونیورسٹی میں ٹینس، ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن اوردیگر کھیلوں میں بھرپورحصہ لیتی تھیں۔ طالبعلم کی حیثیت سے غیر متعصب تحقیق کی ہے۔ سرسیدنے پڑھی لکھی خواتین کی وہ کھیپ تیارکی جس نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیااورایک مشکل ترین کام میں قائداعظم کی مددکی۔ علی گڑھ سے ہی تعلیم یافتہ لڑکیوں نے مسلمانوں میں حیرت انگیزتبدیلی کاڈول ڈالا۔ علی گڑھ کو چھوڑیے۔ صرف مسلمان خواتین پر مرکوز رہیے۔

    کیامحترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنالیاقت علی خان، بیگم سلمہ تصدق، بیگم جہاں آراشا ہنواز، لیڈی عبداللہ ہارون اور شائستہ اکرام اللہ کے بغیرہماری تحریک آزادی کامیاب ہوسکتی تھی۔ نہیں، جناب ہرگز نہیں۔ کیا پنجاب کی یونینسٹ پارٹی اورکے پی کی کانگریس حکومت کے خلاف خواتین نے سیاسی جدوجہدنہیں کی تھی۔ آپ حیران ہوجائینگے کہ ہزاروں خواتین نے محلوں، گلیوں کی سطح پرجاکرپاکستان کے حق میں جاندارتحریک چلائی تھی۔

    قائداعظم نے خواتین کے متعلق کیا فرمایا تھا۔ غور سے سنیے۔ اٹھائیس جون، 1948کوفرمایاتھا۔"قوم کی تشکیل میں خواتین کااَزحداہم کردارہے۔ دنیاکی کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی، جب تک کہ اس معاشرے کی خواتین شانہ بہ شانہ مردوں کے ساتھ کھڑی نہ ہوں۔ ہمیں عورتوں کوزندگی کے ہرشعبے میں شامل کرناچاہیے۔

    عورتوں نے آپکی نئی نسل کی مثبت خطوط پرکردارسازی کرنی ہے۔ اپنے اس مضبوط اثاثہ کوضایع مت کیجیے"۔ یہ قائدکے الفاظ ہیں اورانھوں نے عملی طورپرخواتین کوہرشعبہ میں کام کرنے کے عزم کی عملی تصویربھی پیش کی۔ محترمہ فاطمہ جناح نے جس طرح ساتھ کھڑے ہوکرقائدکاخیال رکھا، ہر مقام، ہر جلسہ میں ان کے ساتھ تشریف لے گئیں، کیاآج کوئی بھی محترمہ فاطمہ جناح کے شاندار کردارکوسراہے بغیررہ سکتا ہے۔ کم ازکم کوئی ذی شعورتونہیں کرسکتا۔ باقی ہمارے ملک میں ہرنکتہ کومتنازعہ بنایاجاتاہے اوراس کام میں ہم ماہر ہیں۔ عورت مارچ بھی اسی ستم کاشکارہوئی ہے۔

    خواتین اپنے حقوق کے لیے جدوجہدنہ کریں، تو اور کیا کریں۔ معاشرے پرنظرڈالیے۔ یہ درست ہے کہ خواتین اپنے حقوق کے حوالے سے قدرے بہتری کی طرف جارہی ہیں۔ مگرآج بھی خواتین کو وہ مکمل حقوق نہیں دیے جاتے، جو ان کا دستوری، قانونی اوراخلاقی حق ہے۔

    بچیوں کی تعلیم پراتنے وسائل خرچ نہیں کیے جاتے، جتنا لڑکوں پرروا رکھے جاتے ہیں۔ وراثتی جائیدادمیں بھی خواتین کو اکثران کے جائزحق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں مصائب ہیں جو عورتوں کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اس عدم توازن اور عدم تحفظ کوختم کرنا ضروری ہے۔ اور عورت مارچ صرف اس کی ایک شکل ہے۔ عورتوں کے حق میں اس تحریک کواتنی ہی قدامت پسندی کا سامناہے جتناآج سے پانچ سوسال پہلے گلیلیوجیسے عظیم انسان کوہوا تھا۔ ویسے بھی جدت پسندی کو ہمیشہ ظلم اورتنقیدسے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگریہ ہمیشہ ناکام ہوتی ہے!