میڈیکل لیبارٹری سے چنداہم ٹیسٹ کرانے تھے۔ صبح سات بجے کا وقت تھا، سٹرکوں پر کوئی رش، ہنگامہ یا شور نہیں تھا۔ بعض ٹیکنیکل وجوہات کی بدولت، پچیس منٹ کا انتظار تھا۔ لیب کے باہر، سرمئی یونیفارم پہنے ایک نوجوان فرش کی صفائی میں مصروف تھا۔ وہ بڑی جانفشانی اور خاموشی سے اپنے کام میں مصروف تھا۔
پتہ نہیں ذہن میں کیا ہوا، کہ اس نوجوان کو بلا یا اور اس سے گفتگو شروع کردی۔ اسے قطعاً توقع نہیں تھی کہ میں انتہائی احترام سے اس کی زندگی کے بارے میں گفتگو کروں گا۔ وجہ یہ کہ ہمارے ملک میں احترام صرف طاقتور انسان کا کیا جاتا ہے۔ ویسے یہ احترام نہیں ہوتا بلکہ طاقتورکا خوف ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں تہذیب نام کی ویسے ہی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے، نوے فیصد پاکستانی ایک دوسرے سے شائستگی کے دائرے میں رہ کر گفتگو نہیں کر سکتے۔ پچانوے فیصد مردوں کو خواتین سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے۔ بہر حال بات اس سوئپر کی ہو رہی تھی۔ پوچھا کہ بیٹا زندگی کیسی گزر رہی ہے۔ زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے۔ میرے لیے یہ جواب اس لیے بھی عجیب تھا کہ امیر ترین لوگ بھی ہر وقت کڑھتے رہتے ہیں۔
ان کی زندگی میں سکون اور اطمینان تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ آپ کا نام کیا ہے۔ میرا نام افضل ہے، چار سال سے لیبارٹری میں بطور سوئپرکام کر رہا ہوں۔ پوچھا کہ کام کرنے کے اوقات کیا ہیں۔ صبح ساڑھے چھ بجے آتا ہوں اور دوپہر ایک بجے تک کام کرتا ہوں۔ پھر دوبارہ شام کو پانچ بجے آنا ہوتا ہے اور نو بجے رات تک کام کرتا ہوں۔ ویسے کسی سے اس کی تنخواہ نہیں پوچھنی چاہیے۔ مگر شدید مہنگائی کی بدولت ذہن میں سوال تھا کہ یہ نوجوان گزارہ کیسے کر رہا ہے۔ افصل کا جواب تھا کہ اٹھارہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ہے۔
صرف اٹھارہ ہزار، اتنی قلیل رقم میں پورا مہینہ کیسے گزرتا ہے۔ افضل کے چہرے پر سکون ہی سکون تھا۔ اوپر والے کا بہت زیادہ کرم ہے، احسان ہے۔ دوپہر کو لیبارٹری سے فارغ ہو کرایک گھر کا فرش اور گلیاں دھوتا ہوں۔ وہاں سے دس ہزار روپے ہر ماہ مل جاتے ہیں۔ یہ اٹھائیس ہزار روپے بن جاتے ہیں۔ جو میرے لیے کافی ہے۔ مجھے حیرانی ہونے لگی، صرف اٹھائیس ہزار روپے میں تیس دن کیسے گزر جاتے ہیں؟ نوجوان بتانے لگا، جس دن تنخواہ ملتی ہے۔ بیس کلو آٹا اور ایک کلو گھی خریدتا ہوں، گھی کی مزید ضرورت پڑے تو دوبارہ ایک کلو خرید لیتا ہوں۔ سبزی روزانہ خریدتا ہوں۔ میں، بیوی اور ایک بیٹا، تین افراد ہیں، گھر کرائے کا ہے۔
پہلے کرایہ آٹھ ہزار تھا، اب مالک نے دس ہزار کر دیا ہے۔ مالک بھی تو مجبور ہے۔ اس مہنگائی میں اس نے بھی گزارہ کرنا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ افضل نے کرایہ بڑھانے پر مالک مکان کی کوئی بدتعریفی نہیں کی۔
اس سوال پر کہ افضل صاحب، آپ سائیکل پر آتے جاتے ہیں۔ جواب میں نوجوان نے حد درجہ شاہانہ انداز سے بتایا کہ نہیں۔ میرے پاس موٹر سائیکل ہے۔ دو دن بعد چار سو یا پانچ سو کا پٹرول ڈلواتا ہوں۔ آرام سے گھر اور دوسری ڈیوٹی پر پہنچ جاتا ہوں۔
جس شانِ خسراوانہ سے افضل نے مجھے موٹر سائیکل دکھائی، وہ بہت کم دیکھنے میں ملی ہے۔ میرے ایک ارب پتی دوست نے سولہ کروڑ روپے کی بینٹلے کار خریدی تو جس شان و ادا سے مجھے دکھائی، وہ شان اور ادا، سوئپر افضل سے قدرے کم تھی۔ سوال کیاکہ مہینے میں چھ ہزار کا پٹرول خرچ ہوتا ہے، دس ہزار مکان کے کرایہ میں نکل جاتا ہے، یہ سولہ ہزار کا سیدھا سیدھا خرچہ ہے۔ باقی تو صرف بارہ ہزار بچتے ہیں۔
اس میں تیس دن گزارنے کیسے ممکن ہیں۔ افضل نے بتایا کہ مجھے لیب میں آنے جانے والے لوگ ٹپ دیتے ہیں۔ کسی کی گاڑی کا دروازہ کھول دیتا ہوں۔ کسی کو سلام کرتا ہوں۔ سو دو سو تو مل ہی جاتے ہیں۔ کئی ایسے دریا دل لوگ بھی ہیں جو پانچ سو روپیہ بھی بطور بخشیش دے ڈالتے ہیں۔ موٹر سائیکل کا پٹرول اور روز کی سبزی، اسی رقم سے باآسانی پوری ہو جاتی ہے۔ مہینے میں کتنی بار گوشت کھاتے ہیں۔
سوال کا جواب افضل نے ہنس کر دیا۔ ہ جناب جس دن تنخواہ ملتی ہے۔ صرف اس دن، مرغی کا گوشت گھر لے جاتا ہوں۔ نوجوان کی آواز میں کوئی شکوہ یا حسرت نہیں تھی۔ سوچ سمجھ کر پوچھا کہ افضل صاحب! بیٹے کو آپ کیا بنائیں گے۔ شاید یہ سوال نوجوان کے لیے غیر متوقع تھا۔ تیس سیکنڈ کے وفقہ کے بعد جواب دیا۔
اسے فوجی بناؤں گا۔ کیونکہ فوجی ملک کی حفاظت کرتا ہے اور یہ سب سے مقدس کام ہے۔ میرے لیے یہ جواب کافی حیران کن تھا۔ کیونکہ عوام اور فوج کے درمیان جو خلیج پیدا کر دی گئی ہے۔
اس میں متعدد افراد کا شاید یہ جواب نہ ہوتا۔ مگر افضل کا جواب سنجیدہ اور درست ہے، فوج کا سپاہی ملک کی شان ہوتا ہے۔ جس طرح لیبارٹری کا ڈاکٹر لوگو ں کی صحت کا خیال رکھتا ہے، بالکل اسی طرح، فوجی اپنے وطن کی سرحدو ں کا خیال رکھتا ہے۔
بیس پچیس منٹ بعد، جب میں اپنے میڈیکل ٹیسٹ کرا کر گھر واپس جا رہا تھا، ذہن میں بہت سے سوالات اٹھ رہے تھے۔ افضل سارا دن محنت مزدوری کرتا ہے، فرش صاف کرتا ہے، کچرہ اٹھاتا ہے۔ کھڑکیوں، دروازوں کے شیشے صاف کرتا ہے، گھرکی گلیاں دھوتا ہے، اس کی مجموعی آمدنی اٹھائیس ہزار روپیہ ماہانہ ہے۔
بخشیش سے تھوڑی سے کشادگی آ جاتی ہے، مگر اس کے چہرے پر کوئی ملال یا مایوسی نہیں تھی، وہ صرف خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور خوش و خرم نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس، ہمارے ملک کا امیر ترین طبقہ زندگی کا ہر پل غصے اور بے سکونی میں گزار رہا ہے۔ جن لوگوں کے پاس تین یا چار کروڑ کی گاڑی ہے۔ پچاس ساٹھ کروڑ کا گھر ہے۔ کئی کاروبار ہیں، بے حساب دولت ہے۔
بیرون ملک اکثر خاندان سمیت چکر لگاتے رہتے ہیں۔ ان سے پوچھیں کہ زندگی کیسی گزر رہی ہے۔ تو ان کی زبان پر صرف شکوہ اور شکایت ہی ہوتی ہے۔ ڈالر بہت مہنگا ہوگیاہے، کاروبار میں حد درجہ مشکلات آ گئی ہیں، ایل سی کھلنے میں بہت وقت لگتا ہے، مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے، گزارہ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
ارب پتیوں کی بات کر رہا ہوں۔ ایک واقف کار نے تقریباً ستر کروڑ کا لاہور ڈیفنس میں گھر خریدا ہے اور ساتھ ہی نئی مرسیڈیز بھی خریدی جو تقریباً چار پانچ کروڑ روپے مالیت کی ہے، نئے گھر کا سارا فرنیچر امپورٹڈ ہے جو انٹیرئر ڈیزائنر نے خود لندن، اٹلی اور دبئی جا کر خریدا ہے۔
محل نما رہائش کے اندر سوئمنگ پول ہے۔ تہہ خانے میں سینما، جمنیزیم، اسٹڈی اور ساوئنا لگا ہوا ہے۔ اسٹیم روم الگ ہے۔ یعنی پرتعیش ترین گھر ہے۔ زندگی میں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ جب نئے محل میں منتقل ہوئے تو House warming partyرکھی۔ دعوت میں دنیا کے بہترین کھانے تھے۔ Lobster، پرانز اور قیمتی ترین Seafood موجود تھا۔ کھانے کے بعد کافی پیتے ہوئے ملکی حالات پر گفتگو شروع ہوگئی۔
موصوف فرما رہے تھے کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ گزارہ بہت مشکل سے ہوتا ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ کسی مغربی ملک میں منتقل ہو جاؤں۔ یہ ملک تو اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔ پر جناب، خدا نے تو پاکستان میں آپ کو ہر نعمت دی ہے۔ جو عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا بلکہ متوسط طبقہ کے گمان سے بھی باہر ہے۔
پھر اتنی ناقدری اور بے چینی کیوں؟ جواب تھا۔ دیکھیے نہ!میرے ساتھ والے کاروباری لوگ، مجھ سے بہت زیادہ کمارہے ہیں۔ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔ زیادہ پیسہ کمانے کے لیے پاکستان سے باہر جا کر کاروبار کرنا اشد ضروری ہے۔ ہاں، ایک حد درجہ اہم بات۔ میرے اس واقف نے ایک بار بھی خدا کا شکر ادا نہیں کیا۔
جب پاکستان کے مقتدر اور متمول طبقے کو دیکھتا ہوں تو وہ ایک مسلسل کرب میں نظر آتے ہیں۔ لوگوں کو جانے دیجیے۔ ہمارے اہم ترین ریاستی اداروں کے کرتا دھرتا بھی شدید غصہ میں ایک دوسرے کی گردنوں پر چڑھ دوڑے ہیں۔ مین اسٹریم میڈیا یا سوشل میڈیا دیکھیے تو آپ کو ایسے لگے گا کہ ملک بس اب ختم ہوا ہی جاتا ہے۔
میڈیا صرف اور صرف منفی باتیں خبریں تلاش کرتا ہے۔ پھر طنطنے کے ساتھ اسے مرچ مصالہ لگا کر پیش کرتا ہے۔ بری خبر کو مزید برا بنا کر پیش کرتا ہے۔ سیاست دان، ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کے سوا کچھ نہیں سوچتے۔ اپنی اولاد کو اقتدار کیسے منتقل کرنا ہے۔ اس کے برعکس ان کے ذہن میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ان تمام منفی شخصیات اور تلخ ماحول سے گزر کر دیکھیئے تو آپ محسوس کریں گے کہ افضل، ایک بہت بڑا نسان ہے!