Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Behisab Barhti Hui Abadi

    Behisab Barhti Hui Abadi

    پاکستان کی آبادی اس وقت تیئس کروڑکے قریب ہے۔ بائیس کروڑکی بات خاصی پرانی ہوچکی ہے۔ اگرہم نے کسی بھی شعبہ میں گزشتہ چند دہائیوں میں حقیقی ترقی کی ہے، توصرف اورصرف آبادی کے بے دریغ بڑھنے میں ہے۔ مگرکوئی نہیں کہتاکہ جناب یہ آبادی ہماری ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انسانوں کاایک ایساسیلاب جو ہمارے وسائل کوصاف چٹ کرچکا ہے۔

    ہاں، ایک ہوشربا بات، اگلے تیس سے پینتیس برس میں انسانوں کایہ سمندردو گنا ہوجائیگا۔ یعنی چوالیس کروڑ سے بھی زیادہ۔ خود بتائیے کہ آج اتنا بُراحال ہے توتین دہائیوں بعد کیا قیامت خیز حالات ہونگے۔ ہرملک کی طرح پاکستان میں بھی متعددمسائل ہیں۔ ان میں آبادی کے بڑھنے کی موجودہ شرح سب سے بڑے خطرے کی نوید ہے۔ اس مسئلہ پربات نہ کرنا، قومی پالیسی بناکرعملدرآمد نہ کرنا بڑا مجرمانہ فعل ہے۔

    سارادن سوشل اورالیکٹرونک میڈیا عذاب کی طرح لوگوں کوباخبرکرنے کی یلغارمیں مصروف رہتا ہے۔ آپکویہاں تک بتاتے ہیں کہ فلاں لیڈر نے کونسے جوتے زیب تن کیے ہوئے ہیں۔ کھانا آج کیانوش فرمایاہے۔ مگرپاکستان کے سب سے مہیب مسئلہ یعنی آبادی کے متعلق کچھ بھی نہیں کہا جاتا۔ گمان ہوتاہے کہ شائدآبادی کایہ طوفان کسی بھی اہمیت کاحامل نہیں ہے۔ مگرحقیقت میں نفوس کا بے ہنگم طریقے سے بڑھنا کسی بھی ملک کے لیے زہر ِقاتل ہے۔

    پاکستان میں محتاط اندازے کے مطابق یہ اضافہ دوفیصدسالانہ کے لگ بھگ ہے۔ ہندوستان میں ایک فیصداورچین میں 0.6فیصد ہے۔ اس شعبہ میں ہم افغانستان کے قریب قریب ہیں۔ آپ خودفیصلہ فرمائیے کہ اس شرح کے ساتھ ہم خاک ترقی کرسکتے ہیں۔

    ہماری ملکی پیداوارمیں اضافہ ایک فیصدکے تخمینہ میں ہے۔ آبادی کے بڑھنے کی شرح سے، اس ترقی کی پیمائش کیجیے تویہ منفی ایک فیصدبنتی ہے۔ یعنی کوئی بھی حکومت، کتنا بھی زورلگالے، جتنی مرضی ترقی کی طرف ملک کو لیجائے، آبادی کی شرح جب اسے صرف چھوئے گی توہماراتمام اعتماداوراعدادوشماردھڑام سے نیچے گر جائینگے۔ کسی بھی دورکے کسی بھی حکمران نے اس مسئلہ پرقوم کے لیے آزمودہ پالیسی نہیں بنائی۔ اس کا ذکرکرنابھی گناہ سمجھاجاتاہے۔

    حکومتیں تواترسے اپنی ناکامی کاملبہ مذہبی حلقوں پرڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بتایاجاتاہے کہ نہیں، دینی حلقے آبادی کوکنٹرول کرنے کی ہر کوشش کوناکام بنادیتے ہیں۔ اس الزام میں مجھے کوئی وزن نظرنہیں آتا۔ علماء کی کثیرتعدادآبادی کے بے جوازاضافہ میں اپنے نکتہِ نظر میں اَزحد مثبت ہیں۔ بہت جیدعلماء سے گفتگو ہوئی۔

    ایک بھی مذہبی عالم نے آبادی کے طوفان کوکم کرنے کی حکومتی کوشش کی مخالفت نہیں کی۔ مگرہمارے پڑھے لکھے لوگوں میں اکثرایسے اصحاب ہیں جوہروقت مذہبی علماء کی توہین کرنااپنااولین فرض سمجھتے ہیں۔ مختلف مکتبہِ فکرکے جیدعلماء سے پُرمغزبات چیت کرنے کے بعد اس نتیجہ پرپہنچاہوں کہ ہرحکومت اپنی ناکامی کاذمے دار اپنے آپکوٹھہرانے کے بجائے دینی حلقے پرساری کوتاہی ڈالنے کے درپے رہتی ہے۔

    بہرحال دیکھنے کی ضرورت ہے بلکہ اَشد ضرورت ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کس طرح ہر شعبہِ زندگی پراثراندازہوتی ہے۔ ملک کی تقریباً ساٹھ فیصدآبادی کسی نہ کسی طرح کی غذائی قلت کا سامناکررہی ہے۔ اس کمی کی بدولت بچوں کے قد چھوٹے ہورہے ہیں اوران کی نشوونما میں بھی بہت زیادہ مسائل ہیں۔

    یہ آج کا یعنی 2021 کا معاملہ ہے۔ تیس سال بعدجب آبادی بتالیس کروڑ ہوجائے گی، اس وقت معاملہ کتنااندوہناک ہوگا، سوچ کرہی خوف آتا ہے۔ ساتھ ساتھ لوگوں کورہنے کے لیے گھر چاہیے۔ اس کے لیے زرعی زمین پر کالونیاں بنانے کارجحان مزید بڑھ جائیگا۔ نتیجہ میں زرعی زمین کاحجم بھی کم ہوگا۔ غذائی قلت اور پیداوارکوبڑھانے کے لیے کم زمین، ملکر ہمارے تمام وسائل پراتنابوجھ ڈال چکے ہیں جس سے کوئی حکومت بھی نبردآزما نہیں ہوسکتی۔ پانی کی قلت کابھی اندازہ لگائیے۔ یوں کہہ لیجیے کہ چارسالوں میں ہمیں دوسوملین ایکڑفٹ پانی چاہیے۔

    مگر دو دہائیوں میں یہ ڈیمانڈ دوسو چوہترتک پہنچ جائے گی۔ یعنی صرف بیس برسوں میں پانی کی قلت تقریباً 74ملین ایکٹرفٹ تک پہنچ جائے گی۔ آبی قلت کو کیسے بہتر کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی حکومت کی اس طرف نظر نہیں گئی۔ تعلیم کے شعبہ میں بھی یہی زوال ہے۔ ابھی بھی کروڑوں پاکستانی تعلیمی اداروں کی طرف رخ نہیں کرتے۔ توچندبرس بعدآبادی کے اس سیلاب کو تعلیم کیسے دی جاسکے گی۔

    ساتھ ساتھ ماحولیات کی بربادی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس شعبہ میں کیا اقدامات کیے جائیں۔ اس پربھی عجیب سی خاموشی ہے۔ خودبتائیے کہ زمین، پانی، تعلیم، صحت اورقدرتی ماحولیات کس طرح آبادی کے بڑھاؤ کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ یہ توایک جنگ ہے جوحکومت اور عوام نے ملکرلڑنی تھی۔ مجھے تو دونوں ہی مکمل ناکام نظر آرہے ہیں۔ ناکامی کی ذمے داری لینے کے لیے کوئی فریق بھی تیار نہیں۔ کون پالیسی بنائیگا۔ کون پوری قوت کے ساتھ عملدرآمد کروائیگا۔ یہ سب کچھ ایسے سوال ہیں جنکاکوئی بھی آسان جواب نہیں۔

    اس المیے کاحل موجودہے۔ ہمارے قرب وجوارکے ملکوں نے باقاعدہ کرکے دکھایاہے۔ اس شعبہ میں بنگلہ دیش ایک روشن مثال ہے۔ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کامذاق اُڑایاجاتاتھاکہ یہ لوگ کثیراولادپیداکرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔

    ان کی تضحیک کی جاتی تھی کہ ان کی آبادی خرگوش کی طرح بڑھتی ہے۔ مگرآج بنگلہ دیش ہرشعبہ کی طرح، آبادی کومنظم طریقے سے کنٹرول کرنے کے میدان میں بھی ہم سے بہت بہترہے۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں نے یہ مشکل ترین کام کیسے کرڈالا۔ حکومت نے خواتین کی ایک بہت بڑی فورس ترتیب دی۔ یہ گھر گھر جاکر عورتوں کوسمجھاتی تھیں کہ بچے کم پیدا کرنے کے کیا کیا فوائد ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ Contraceptivesبھی مفت تقسیم کرتی تھیں۔ اس قدم سے جڑی ہوئی کامیابی پر نظر ڈالیے۔ 1975میں مانعِ حمل دوائیاں استعمال کرنے کی شرح صرف آٹھ فیصدتھی۔

    اب یہ شرح سترفیصدکے قریب پہنچ چکی ہے۔ بالکل اسی طرح لڑکیوں میں تعلیم کے رجحان میں اضافہ کے لیے بنگلہ دیش کی حکومت نے اَزحدزوردیا۔ خواتین میں شرح خواندگی سترفیصدکے قریب ہے۔ تعلیمی رجحان کے اس اضافہ نے ملک کی قسمت بدل ڈالی۔ جیسے جیسے تعلیم کارجحان بڑھا، بچوں کے پیداہونے کی شرح کم ہونی شروع ہوگئی۔ بالکل اسی طرح خواتین کے لیے خصوصی قرضہ جات مائیکروکریڈٹ نے اس طبقہ کے مالی وسائل میں اضافہ کر دیا۔ بنگلہ دیش میں مذہبی حلقوں نے بھرپورطریقے سے اس مہم میں حکومت اورعوام کا ساتھ دیا۔

    انھوں نے منبرومحراب سے آبادی کوکنٹرول کرنے کے لیے حکومتی اقدامات کوبھرپورطریقے سے سراہا۔ تھوڑے عرصے میں بنگلہ دیش نے وہ محیرالعقول نتائج حاصل کرلیے جوہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ آبادی پرموثرکنٹرول حاصل کرلیاگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی اقتصادی ترقی کاوہ دورشروع ہواجس میں چالیس بلین ڈالرکی برآمدات کامشکل ہدف حاصل کرلیا۔ آبادی میں کمی شروع ہوگئی اورملکی دولت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

    ترقی کی شرح بھی بڑھتی چلی گئی۔ تیس پینتیس برس میں بنگلہ دیش کی حکومت نے اس ترقی کا مونہہ، تعلیم اورصحت کے شعبوں کی طرف موڑ دیا۔ دکھ ہوتاہے کہ یہ ساری ترقی انھوں نے ہم سے قطع تعلق کرنے کے بعد کی۔ اس تکلیف دہ حقیقت پر ہم کبھی بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ پر اس پر خاموشی اختیارکرنے سے معاملات کاحل تلاش نہیں کیاجاسکتا۔ ایک اسلامی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کی ترقی سے ہم ہرمیدان میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

    آبادی کے اس مسئلہ کی وجوہات کیا ہیں۔ اس پربھی بے لاگ رائے دینااَزحدضروری ہے۔ تعلیم سے دوری یعنی جہالت، خواتین کوجائز طریقے سے دولت نہ کمانے دینے کارجحان، حکومتی سطح پربے ربط قسم کی پالیسیاں، گھرانوں میں فیملی پلاننگ پرکسی قسم کازور نہ دینااوراس شعبہ پر مجرمانہ خاموشی اختیارکرنا۔ یہ چند وجوہات ہیں، جن سے ہم آبادی کوکنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ ساتھ ساتھ دیگر ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین کی کثیر تعداد بھی آبادی کو بڑھانے میں پیش پیش ہیں۔ ہمارے ملک میں افغان مہاجرین کی اصل تعداد کتنی ہے۔

    اسکاقطعی طورپراندازہ لگانا مشکل ہے۔ مگرپندرہ سے بیس لاکھ تو خیر موجود ہیں۔ ان میں فیملی پلاننگ کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ علم ہے کہ ایک کالم لکھنے سے ہمارے سماجی رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئیگی۔ ہم اپنی آبادی کواسی طرح بے خوف بڑھاتے رہینگے۔ کوئی مائی کالال ہمیں قائل نہیں کرسکتاکہ آبادی کے بڑھاوے سے ہماری قومی ترقی داؤپرلگ چکی ہے۔ کوئی نہیں بتا رہاکہ بے حساب بڑھتی ہوئی آبادی ہمیں بربادی کی طرف لے کرجارہی ہے بلکہ لے جاچکی ہے۔ ہم ناسمجھ بلکہ جاہل قوم ہیں۔ ہمیں کوئی نہیں سمجھا سکتا۔ ویسے اب سمجھانے کاوقت بھی گزرچکاہے!

    (روڈیارڈکپلنگ کے والدین انگریز تھے۔ مگر لاہورکے تیرہ سال اس نے اینگلوانڈینزکی سماجی طرز پر گزارے۔ گزشتہ کالم میں تصیح کر رہا ہوں۔)