Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bhaand

Bhaand

چنددہائیاں پہلے کی شادیوں کویادکیجیے۔ شہروں اوردیہاتوں میں یہ تقریبات سادہ اندازمیں سرانجام دی جاتی تھیں۔ تصنع کا پہلو کم نظرآتاتھا۔ یہ لفظ اس لیے استعمال کیاہے گمان ہے کہ اب ہماری زندگی جزوی یا مکمل تصنع پرمبنی ہے۔ ہرانسان وہ سب کچھ نظرآنا چاہتا ہے جووہ دراصل ہے نہیں۔

خواتین عمرکے ہرحصے میں بہت خوبصورت نظرآناچاہتی ہیں۔ انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ عمررسیدہ ہونے یانظرآنے میں ایک وقار موجود ہے۔ ایک انڈسٹری وجودمیں آچکی جوچہرے اور جسم پر پلاسٹک سرجری کے ذریعے عمرکے اثرات یعنی جھریوں کوختم کرتی ہے۔ ان کی فیس لاکھوں میں ہوتی ہے۔ بغیر اس ادراک کے کہ انسانی چہرے پرجھریاں ایک معمول کی چیز ہیں۔ وقت کے تھپیڑے، رنج، خوشیاں اس کی ہر لکیرمیں بے پناہ توازن پیداکرتی ہیں۔ بہرحال مرد حضرات بھی اس معاملے میں خواتین سے بالکل پیچھے نہیں۔

بات، پرانی شادیوں کی ہورہی تھی۔ نکاح کے بعدمنفردطرزکے دوچارلوگ ٹینٹ میں آتے تھے۔ انکو کوئی بھی مدعونہیں کرتاتھا۔ ایک تھوڑاسنجیدہ اوردوسرا چلبلا سا ہوتا تھا۔ سنجیدہ آدمی کے ہاتھ میں چمڑے کاایک ٹکڑاہوتاتھا۔ یہ منہ سے زورکی آوازنکالتاتھاتاکہ لوگ متوجہ ہوجائیں۔ اس کے بعد، یہ شخص اونچی آوازسے سوال کرتاتھا۔ دوسرا شخص انتہائی مزاحیہ طریقے سے جواب دیتاتھا۔ اس کے بعدجواب دینے والے کی ہتھیلی پرزورسے چمڑامارا جاتا تھا۔

جواب اس درجہ برجستہ اورزعفرانی ہوتاتھاکہ سننے والے لوگ کھلکھلا کر ہنسنا شروع کردیتے تھے۔ سوال وجواب کا یہ سلسلہ پانچ دس منٹ سے زیادہ نہیں ہوتاتھا۔ گھرکے چندسنجیدہ بزرگ، جعلی طریقے سے شدیدسنجیدہ نظرآنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی پیشانی پرتہہ دارتیوریاں مزیدبڑھ جاتی تھیں۔ تھوڑی دیربعد، محفل میں سے کوئی آدمی اُٹھتاتھا۔ ہنسانے والی ٹولی کوپیسے دیتاتھااورپھریہ لوگ واپس چلے جاتے تھے۔ ان کے پیسے لینے اورشکریہ ادا کرنے کااندازبھی حددرجہ منفرد ہوتاتھا۔ یہ آدمی کانام لے کرشکریہ اداکرتے تھے۔

آج سے چالیس پچاس برس پہلے اس طرح کے واقعات بالکل عام تھے۔ مزاح سے بھرپورجملوں میں اکثرانتہائی اہم ترین نکات بھی ہوتے تھے۔ غیرسنجیدہ طریقے سے، انتہائی سنجیدہ معاملات کواس طریقے سے بیان کیاجاتاتھاکہ لوگ اندرسے خوش ہوجاتے تھے۔ جیسے جنرل ضیاء الحق شادی کی ایک تقریب میں شامل تھے۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرتھے۔ سیاسی مخالفین کوریزہ ریزہ کرچکے تھے۔ اس وقت اقتداراورطاقت کے کوہ طورپربراجمان تھے۔ انھوں نے ایک مکمل مسلمان ملک کوکرختگی کے ساتھ مزید مسلمان ملک بنانے کے حددرجہ اقدامات کیے تھے۔

سختی کی بدولت فلم انڈسٹری دم توڑچکی تھی۔ ٹی وی پر نیوز کاسٹراوراداکارائیں ممکنہ حدتک دوپٹہ لینے کی پابند تھیں۔ اسی تقریب میں دوبندوں کی ایک ٹولی آئی اور جنرل ضیاء الحق کے سامنے مزاحیہ اندازمیں سوال وجواب شروع کردیے۔ فلموں کی زبوں حالی کااس اندازسے ذکر کیا کہ ضیاء الحق نے قہقہے لگانے شروع کر دیے۔ صدر نے اپنے اسٹاف کواشارے سے بلایا اور ایک خطیررقم بطورتحفہ یا بخشیش ان لوگوں کوپیش کردی۔ شادیوں بیاہوں میں مسکراہٹ بکھیرنے والے ان لوگوں کو "بھانڈ" کہا جاتا تھا۔

یہ لوگ یعنی "بھانڈ"ملک کے تمام بڑے خاندانوں کاشجرہ ترتیب کرتے تھے۔ یہ انعام لینے کے بعداس شخص کے دادا، پردادااورگوت اورذات سے شروع ہوتے تھے اورپھرآخرمیں پیسے دینے والے شخص کانام لیتے تھے۔ دراصل یہ ہمارے معاشرے کی اپنے اندازمیں منفردعکاسی کرتے تھے۔ آپ کسی کابھی نام لیتے تھے تویہ اسکاشجرہ نسب سامنے رکھ دیتے تھے۔ جدِامجدتک کے نام انکواَزبرہوتے تھے۔ شادی میں آنے سے پہلے، شائدسب کچھ یادکرکے آتے تھے یاشادی کی تقریب کی مناسبت سے شجرے ذہن میں رکھتے تھے۔

اب نہ تواکثرخاندانوں میں شجرہ کاکوئی حساب کتاب رہاہے۔ نہ ہی فی زمانہ لوگ، اس طرح کی مناسب جزئیات کاخیال کرتے ہیں۔ ذات برادری کی ترویج نہیں کررہا۔ مگر اسی خاندایت کے مثبت پہلوبھی ہیں۔ ان بھانڈوں کا حافظہ اس درجہ کمال کاہوتاتھاکہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ مگراس سماج میں ان لوگوں کی کسی قسم کی کوئی عزت نہیں تھی۔ ان کاشمارمعاشرے کے پست ترین طبقہ میں ہوتاتھا۔ لوگ ان کی باتوں پرکھلکھلاکرہنستے تھے۔ مگر ان کی کسی قسم کی قدرنہیں ہوتی تھی۔

ڈاکٹرکلیرپیمنٹ(Dr.Claire Pamment)نے اس سماجی تفریق اوربھانڈیانقالوں کی پاکستان کے حالات میں ایک نایاب کتاب لکھی ہے۔ عجیب بات لگتی ہے کہ معاشرے پرلکھنے کے لیے ہمارے پاس مقامی قابل محقق موجودنہیں ہے۔ ڈاکٹرکلیرکی کتاب کانامComic Performance in Pakistan: the Bhandہے۔ یہ2017میں شایع کی گئی۔ ڈاکٹر کلیر پاکستان میں کنیرڈکالج اورناپا میں درس و تدریس کام تقریباً دس برس کرتی رہی ہیں۔ آج کل امریکا کے ولیم اینڈ میری کالج میں اسسٹنٹ پروفیسرہیں۔ ان کے ڈیپارٹمنٹ کانام ہی "ڈیپارٹمنٹ آف تھیٹر" ہے۔

پروفیسرپیمنٹ کی یہ کتاب حددرجہ سنجیدہ کام ہے۔ موضوع کے اعتبار سے بھی اورتجزیے کے رخ سے بھی۔ ان کے بقول بھانڈ ایک مکمل شعبہ تھا۔ جسکی جڑیں پاک وہندمیں برہمن راج میں موجودتھیں۔ جیسے تینالی رام اوردوسرے حضرات۔ مگریہ لوگ صرف اورصرف، راجہ مہاراجائوں اور بادشاہوں کے درباروں تک محدودتھے۔ عوام سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھراس شعبہ میں ایک جوہری تبدیلی آئی۔ انتہائی پڑھے لکھے، سنجیدہ اورطاقتورطبقے کے اندر کچھ لوگوں نے "جملہ بازی"کے ذریعے خوفناک حقائق بیان کرنے شروع کردیے۔

یہ لوگ آج بھی ہمارے ذہن میں کسی نہ کسی رخ سے موجودہیں۔ جیسے راجہ بیرمل، بہلول اور ملانصیرالدین۔ یہ عظیم درباروں سے منسلک انتہائی سمجھدارلوگ تھے۔ عہدے کے لحاظ سے وزیر تھے۔ مگران کی باتوں میں طنز و مزاح کاوہ جو ہر موجود تھا، جس سے بادشاہ اورامراء لطف اُٹھایا کرتے تھے۔ پروفیسر کلیرکے نزدیک یہ کوئی عام بات نہیں تھی۔ کیونکہ یہ ذہین ترین لوگ، معاشرے کی گھٹی ہوئی روایات کا مذاق اُڑاتے تھے۔ سماج کواس کے اصلی رنگ میں پیش کرنے کی جرات کرتے تھے۔ یہ بذاتِ خودانتہائی مشکل، نازک اورمتنازع کرداربن جاتے تھے۔

پروفیسر کے نزدیک تو بھانڈ، ایک انتہائی موثر نقاد، صوفی، شیطان، عقلمندآدمی ہوتاہے جوکہ بیوقوف نظرآنے کی بھرپورکوشش کرتا ہے۔ اس کی باتوں کی کاٹ سے معاشرے کاکوئی طبقہ بچ نہیں سکتا تھا۔ جملہ بازی لامحدودہوتی تھی اور ہے۔ معاشرے کی طبقاتی منافقت، اصل اوردہرے رویوں پربھرپور وار کرتا تھا۔ لگتایہی تھاکہ بھانڈمزاحیہ بات کر رہا ہے۔ مگردراصل وہ بات حددرجہ سنجیدہ ہوتی ہے۔ مگر ادائیگی اس شگفتہ اندازسے کی جاتی ہے کہ کمال ہوجاتا ہے۔ لوگ بے اختیار ہوکر ہنسنا شروع کردیتے تھے اور ہیں۔ پروفیسر کے نزدیک، یہ صدیوں پرانی روایت اب پاکستان میں مختلف طریقوں سے اندازبدل بدل کر سامنے آرہی ہے۔

اسدعباسی نے بھانڈوں کے متعلق پروفیسر پیمنٹ کی کتاب پرفکرانگیزبات کی ہے۔ انکاکہناہے کہ تصنیف پاکستان میں ذات برادری، طبقاتی جبر، خواتین کے حقوق کی پامالی، مردوں کامکمل حاکمانہ رویہ پر ایک غیرمتعصب تجزیہ ہے۔ اس میں بھانڈوں کی ہمت، جدوجہداورزندہ رہنے کی کمال اہلیت کی تعریف کی گئی ہے۔ اسدعباسی نے پروفیسرکے اس کام کو سولہویں صدی کے اٹالین محقق کارلوگنزبرگ(Garlo Ginzburg)کی مایہ نازکتابCheese and Wormsسے موازنہ کیاہے۔ گنزبرگ کی یہ کتاب سولہویں صدی کے معاشرتی رویوں پرایک بے دردانہ تحقیق تھی۔ مائکروہسٹری کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ بہرحال ان دونوں کتابوں میں مقامی ملکوں کے سماجی اندازکوبرہنہ کرکے سامنے رکھ دیاگیاہے۔

موجودہ صورتحال میں بھانڈ، شادیوں بیاہوں کی تقاریب سے نکل کراسٹیج ڈراموں پرآئے۔ پھرٹی وی کے مختلف پروگراموں کے ذریعے ہرگھرمیں پہنچ گئے۔ لوگ آج بھی، ان کی باتوں پرکھل کرہنستے ہیں۔ ان کے ویڈیوکلپ ایک دوسرے کوبھیجتے ہیں۔ جملہ بازی سے لطف اُٹھاتے ہیں۔ مگرجس طرح آج سے صدیوں پہلے اس طبقے کی عزت نہیں تھی۔

آج بھی ہمارے رویے بالکل ویسے ہی ہیں۔ یہ لوگ اقرارکرتے ہیں کہ اداکاری کرکے ہنساتے ہیں۔ یہ بھانڈکہنے پرناراض بھی نہیں ہوتے۔ مگرقومی سطح کے موجودہ قائدین کواسی تناظرمیں دیکھیے۔ یہ تمام لوگ عوام کی خدمت کی وہ مزاحیہ اداکاری کرتے ہیں کہ انسان صرف سرپیٹ سکتاہے۔ یہ اتنے طاقتورہیں کہ یہ مسکراتے مسکراتے کسی کوبھی برباد کرسکتے ہیں۔ مگرالمیہ یہ ہے کہ آپ انھیں کچھ کہنے کی جرات نہیں کرسکتے۔ کیایہ واقعی"اصلی بھانڈ"نہیں ہیں؟