Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Bhook (2)

    Bhook (2)

    لاشعوراورشعورکے درمیان جس بھرپورطریقے سے سائنسی تحقیق سگمنڈفرائیڈنے کی ہے، نہ یہ اس ڈاکٹرسے پہلے ہوئی اورنہ اس کے مرنے کے بعد۔ فرائیڈ نے انتہائی مشکل زندگی گزاری تھی۔ وہ اپنے زمانے کا آدمی ہی نہیں تھا۔

    جوانی میں ویاناکے ایک نفسیاتی مریضوں کے اسپتال میں کام کرتے ہوئے اس نے وہ وہ سائنسی تحقیق کی جوآج تک لازوال ہے۔ فرائیڈنے اسپتال کے سینئرترین معالجوں کے نسخوں اورطرزِعلاج کومنفی قراردے ڈالا۔ اسے اسپتال سے دھکے مار مار کر نکال دیاگیا۔ ہمیشہ کہتاتھاکہ نفسیاتی مسائل کاعلاج کرناممکن ہی نہیں ہے۔ اس وقت تک جب تک آپکو مریض کے لاشعورتک رسائی نہ ہوجائے۔

    ہمیشہ لکھتا تھااورمسلسل بولتاتھاکہ اصل معاملہ شعورنہیں بلکہ لاشعور ہے۔ خصوصاًبچپن کے محرکات، مرتے دم تک انسان کے ذہن میں محفوظ رہتے ہیں۔ اس سے اسطرح کی حرکات کرواتے ہیں جووہ عام زندگی میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس میں مثبت اورمنفی حرکتیں دونوں شامل ہیں۔ لاشعورہی انسان کی پوری زندگی کومحسوس کروائے بغیر کنٹرول کرتاہے اوراس میں گناہ اورثواب کی تفریق نہیں رہتی۔

    فرائیڈجس دورمیں ویانامیں کام کرتاتھا، وہ بادشاہت کا دور تھا۔ آسٹریا اور ہنگری ایک ہی سلطنت کاحصہ تھے۔ آسٹرین بادشاہ نے ہنگری میں حددرجہ قتل عام کروایاتھا۔ جس میں بچے، مرد، خواتین سب شامل تھے۔ شہنشاہ کے خلاف ایک بغاوت ترتیب دی گئی جو (Hypnosis) پر منحصر تھی۔ ولی عہدکوبغاوت کرنے والے گروہ نے ہیپونسس کے ذریعے قائل کر لیا تھاکہ اسکاوالدانتہائی ظالم آدمی ہے۔ اسے قتل ہونا چاہیے اورولی عہدنے بالکل ایساہی کرنے کی کوشش کی۔

    فرائیڈ اس طرزِعمل کاموجدبھی تھا یعنی Hypnosisکے ذریعے علاج کرتاتھا۔ اسے کسی مریض کے انٹرویوکے درمیان اس سازش کی بھنک پڑی۔ خاتون مریض کے لاشعور میں پوری اسکیم موجودتھی کہ کس طرح ہنگری میں ہونے والے قتلِ عام کابدلہ لیاجائے۔ فرائیڈکوجب یہ علم ہواتوفوری طور پرآسٹرین فوج کے سربراہ کے پاس گیا۔ انھیں بتایاکہ بادشاہ آج شام کوبال پارٹی کے بعدولی عہدکے ہاتھوں قتل ہوجائیگا۔

    سب نے فرائیڈکی بات تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔ مگرفرائیڈکے اصرارپرسپہ سالاراپنی فوج کے ہمراہ جب بادشاہ کے محل کے اندرپہنچاتوولی عہداپنے باپ کوتلوارسے قتل کرنے کے نزدیک تھا۔ بہرحال سپہ سالارنے بادشاہ کی جان بچالی۔ یہاں فرائیڈنے ایک حددرجہ عجیب حرکت کی۔ اس نے ولی عہدکوکوئی نقصان نہ پہنچنے دیا اور اس کا ذہنی علاج شروع کردیا۔ اس نے ولی عہدکے لاشعور تک رسائی حاصل کرلی۔ ولی عہدنے بتایاکہ وہ ایک کمزورانسان ہے۔ اپنے باپ کی طرح کامیاب بھی نہیں ہے۔ اس کی قوت فیصلہ بھی حددرجہ مضحمل سی ہے۔

    لہٰذااس کے ذہن میں یہ خیال پختہ طور پر موجودہے کہ وہ اپنے باپ کی طرح نہیں ہوسکتا۔ لہٰذااسے بادشاہ کوقتل کردیناچاہیے۔ ولی عہدکی Hypnosisکی کیفیت میں یہ باتیں دنوں تک محیط رہیں۔ اپنے بیٹے کی صحت یابی پربادشاہ اورسپہ سالارنے فرائیڈکومنع کردیاکہ وہ اس واقعے کوکبھی بیان نہیں کریگا۔ اسے کبھی نہیں لکھے گا۔ فرائیڈنے اپنے سارے نوٹس بھی جلادیے۔ مگروہ یہ سب کچھ ایک مریض کوپہلے سے بتا چکا تھا۔ جس نے سب کچھ قلمبندکرلیاتھا۔ اس طرح لاشعورکوانسانی شعور پر کنٹرول حاصل کرنے کی وہ لازوال سچی داستان سامنے آئی جس نے حکومت کرنے کے طریقہ کار کو بدل ڈالا۔

    فرائیڈنے باربارلکھاہے کہ لاشعورمیں بچپن کی منفی باتیں ہمیشہ موجودرہتی ہیں۔ انسان ان کے سامنے بے بس ہوتاہے۔ ضروری نہیں کہ آپ فرائیڈکی تمام باتوں سے متفق ہوں۔ مگراس نے لاشعورکی بھوک کو انسانی زندگی میں فیصلہ کن قراردیاہے۔ یہ طمع صرف کھانے پینے کی حدتک ہرگزہرگزنہیں، بلکہ مال و دولت، اقتدارپرکامل قبضہ اوردوسری انسانی جبلتوں پر محیط رہتی ہے۔ یہ بھوک قبرتک انسان کے ساتھ ساتھ سفرکرتی ہے۔ انسان جب مختلف حرکتیں کررہاہوتاہے تواسے تین سوفیصدیقین ہوتاہے کہ وہ کوئی غلط کام نہیں کررہا۔

    آپ اس زاویہ سے برصغیرکے معاشرے پر نظر ڈالیں توشایدکچھ واقعات سمجھنے میں آسانی ہوجائے۔ پاکستانی سماج اوراقتدارکے کھیل پرنظرڈالیں تواس کی کئی بھیانک مثالیں سامنے آجاتی ہیں۔ غلام محمدکی مثال سامنے رکھیے۔ وہ پاکستان کاتیسراگورنرجنرل تھا۔ فالج کی وجہ سے درست طریقے سے بول نہیں سکتا تھا۔ اسے روزانہ رات کونیندکاانجکشن دیاجاتاتھاتاکہ چند گھنٹے سوپائے۔ وہ انتہائی عجیب وغریب حرکتیں کرتا رہتا تھا۔ اس نے پاکستان کی آئینی اسمبلی کوبرخواست کر دیا۔ صرف اس شک پرکہ یہ اسمبلی اس کے اختیارات کوکم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

    ایک معذورشخص اس ملک پردھڑلے سے حکومت کرتا رہا اور اس کے سامنے کوئی ادارہ یاطاقتورشخص بولنے کی جرات نہیں کرتاتھا۔ غلام محمد، گورنرجنرل ہائوس کے ملازموں کو اکٹھا کرتا تھا۔ روزان میں سے وزیراعظم منتخب کرتاتھا اورکچھ منٹوں کے بعداسے نااہل قراردے دیتاتھا۔ اس کی ذہنی حالت جتنی مرضی اَبترتھی۔ مگروہ صرف ایک نکتہ پر مرکوز تھا۔ مسلسل اقتدار کی بھوک۔

    لوگوں کواندازہ نہیں کہ 1951 سے 1955 تک اس ملک کے اقتدارکامالک رہا۔ اسے اسکندر مرزا نے دوماہ کی میڈیکل رخصت پر بھیجااوراس کی عدم موجودگی میں اقتدارپرقبضہ کر لیا۔ مگر آپکے ذہن میں رہناچاہیے کہ فالج زدہ انسان بھی اقتدارکی بھوک میں مبتلارہا۔ اس کی سیاسی حرکتوں نے ملک کی جمہوریت کواتنانقصان پہنچایاجسکی وجہ سے آج تک سیاسی ادارے مضبوط نہیں ہوپائے۔

    مگرایک بات طے ہے کہ وہ پیسے کے لحاظ سے حددرجہ ایماندارشخص تھا۔ یعنی دولت کی ہوس سے مکمل طورپردورتھا۔ ویسے آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے سیاستدان اقتدار کے لیے توہرادنیٰ حرکت کرتے تھے، مگرپیسہ کمانے کا رجحان تقریباً نہ ہونے کے برابرتھا۔ ہاں ایک اورنکتہ بھی قابلِ ذکرہے کہ سرمایہ داریاکاروباری طبقہ کا اقتدارکی گلیوں پرکوئی کنٹرول نہیں تھا۔

    یہ تمام ترتیب1977کے بعداُلٹی کردی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کوپیپلزپارٹی سے حددرجہ خوف تھا۔ اقتدارپرمسلسل کنٹرول اسی بھوک کاحصہ تھاجسے صدیوں پہلے فرائیڈنے ترتیب سے لکھاتھا۔ پیپلزپارٹی سے خوف نے ضیاء الحق سے وہ کچھ کروالیا، جس نے ہمارے پورے معاشرے کومنفی طورپرحددرجہ نقصان پہنچایا۔ یہ وہ لاشعوری خوف تھاجسے جنرل ضیاء الحق نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ بلکہ پورے سیاسی نظام کودولت کی بھوک میں مبتلاکردیا۔ آج کی سیاسی قیادت کی اکثریت اسی خوف کی پیداوارہے۔ مگرمعاملہ یہاں نہیں رُکتا۔

    کاروباری طبقہ کے سرخیل کوباقاعدہ اقتدارکی منتقلی، اسی خوف کوختم کرکے اپنے لیے ایک مضبوط لابی پیداکرنے کی کوشش تھی۔ یہ حکمتِ عملی اس حدتک کامیاب رہی کہ آج تک ہم اس کے ثمرات سے تباہ ہو رہے ہیں۔ کاروباری خاندان اقتدار پرقابض ہو گیا۔ یہ سب کچھ پیسے کی بھوک تھی، جسے اقتدارنے دوام بخش ڈالا۔ سلسلہ اس کے بعدکبھی نہیں رُکا۔ سندھ سے حکمران خاندان پرکبھی بھی پیسے کمانے کاالزام نہیں لگا۔ بھٹو صاحب سے آپ ہزاراختلاف کریں۔ انھوں نے کبھی رشوت اورناجائزدولت کی طرف رخ نہیں کیا۔

    سیاسی شخصیات نے اپنے ساتھ پوراایک گروہ پیداکیاہے جس نے دولت کمانے کے ریکارڈقائم کردیے۔ اب اس ناجائزدولت کے چھننے کے خوف نے انھیں یکجا کر دیاہے۔ معاشرے کی اخلاقی ترتیب انھوں نے اس طرح خراب کرڈالی۔ جیسے کہ "کھاتاہے تولگاتابھی ہے"طرح کے محاورے عملی طورپرپسندکیے جانے لگے۔ مگرسیاسی خاندان ایک اورخوف میں بھی مبتلا ہیں۔ وہ ہے وراثت کی جنگ۔ یہ جنگ ابھی عوامی سطح پرلوگوں کے سامنے نہیں آئی۔ مگریہ اپنی اولاد کو اپنی سیاسی، فکری، اقتصادی میراث منتقل کرناچاہتے ہیں۔ ان کے ذہن میں آج بھی خوف ہے کہ کہیں کوئی اوران کی وراثت پرڈاکا نہ ڈال لے۔ یہ لوگ تاریخ سے کافی حدتک نابلد ہیں۔

    تاریخی اُصول ہے کہ سیاست، دولت اوروراثت طاقت کی دھارپرمنتقل ہوتی ہیں۔ یہ کمزورفریق کے پاس نہیں جاتی۔ چاہے وہ اولادہی کیوں نہ ہو۔ ملک کے اندرآپ نیاکھیل مستقبل قریب میں دیکھ لینگے۔ فرائیڈنے بھوک کوجس طرح ایک ذہنی بیماری بتایا ہے۔ اس میں عوام اور مقتدرلوگ سب مبتلا ہیں۔ ہمارا معاشرہ، سگمنڈ فرائیڈکے بھوک کے نظریہ سے صاف پہچانا جاسکتا ہے۔ ذراکوشش کرکے تو دیکھیے!