Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bigar Ki Asal Wajah Kya Hai

Bigar Ki Asal Wajah Kya Hai

لائل پورسے حسن ابدال جانے کے لیے ریلوے ایک شاندارذریعہ سفرتھا۔ اچھی طرح یاد ہے کہ 1972میں کیڈٹ کالج جانے کے لیے ٹرین میں اپنے والد، محترم راؤ محمدحیات کے ساتھ ریل گاڑی میں پنڈی تک گیا۔ آٹھویں کلاس کے لڑکے کو کتنا شعور ہوگا۔

اس پرجواب یہی ہوناچاہیے کہ بہت کم۔ ابھی تک یادہے کہ کمپارٹمنٹ حددرجہ آرام دہ تھا۔ چوڑی برتھیں اوران پربسترآرام سے لگ جاتے تھے۔ ساتھ ساتھ، انتہائی محفوظ سفر۔ پنڈی کا ریلوے اسٹیشن، چالیس پنتالیس برس پہلے تقریباً ویساہی تھا، جیسے آج ہے۔ میراخیال ہے کہ آج شاید تھوڑا سا بڑا کردیا گیا ہے۔

اسٹیشن پر مسافروں کے لیے ہرسہولت موجود تھی۔ پنڈی اسٹیشن پرویٹنگ روم آج تک ذہن پرنقش ہے۔ ٹرین میں معقول کھانابھی دستیاب ہوتاتھا۔ ڈائنگ کار سے لے کر، سفیدوردی میں ملبوس ویٹر، کس کمال مہارت سے ایک ڈبے سے دوسرے ڈبے تک ٹرے لیجاتے تھے۔ توازن دیکھ کرحیرت ہوتی تھی۔ عجیب بات ہے کہ اب کسی بھی بات پرحیرت نہیں ہوتی۔

عام لوگوں کے طرزِعمل کودیکھ کراورخواص کے کردار اور بیانات کودیکھ کربھی۔ شایدیہ ذہنی پختگی کی منزل ہے یاگیان کی۔ ہمارا ریلوے کانظام حد درجہ اچھا تھا۔ 1972سے لے کر 1977تک مسلسل، لائل پور سے حسن ابدال سفرکرتا رہا۔ پورے پانچ برس کبھی بھی ریلوے کے نظام سے شکایت نہیں ہوئی۔ درست ہے، کبھی کبھی ٹرین تاخیرسے آتی تھی۔ مگر مجموعی طورپرٹرین کا سفر محفوظ ترین سفر شمار ہوتا تھا۔

یہ بھی نہیں کہ اس وقت نظام، انگریز چلارہے تھے یاغیرملکی ہرطرف اہم عہدوں پر براجمان تھے۔ ریلوے کاتمام اسٹاف اسی ملک کے لوگ تھے۔ نظام کے بہتر ہونے کااس اَمر سے بھی اندازہ لگائیے کہ گارڈکی وردی حددرجہ خوبصورت اورصاف ستھری ہوتی تھی۔ کوٹ کے چمکتے ہوئے بٹن، سفیدقمیص، گہرے رنگ کا ڈبل بریسٹ کوٹ اورپینٹ۔ اس وقت ریلوے خسارے میں تھا یا منافع میں۔ یہ توعرض نہیں کرسکتا۔ مگر مجموعی طور پر ریلوے کے نظام سے ہر پاکستانی مطمئن تھا۔ میرے سمیت۔

دوسرے حکومتی ادارے کی بات کرتا ہوں۔ وہ تھا سرکاری بسوں کامحکمہ۔ جسے جی ٹی ایس کہا جاتا تھا۔ لاہورمیں کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج میں 77-78میں داخلہ ملاتولائل پور، فیصل آباد، بن چکاتھا۔ آنے جانے کے لیے سرکاری بسیں حددرجہ آرام دہ اوراچھے معیارکی تھیں۔ کم ازکم پرائیویٹ بسوں سے ہزار گنابہتر۔ لاہور میں جی ٹی ایس کی بسیں، ریلوے اسٹیشن سے تھوڑا سا دور ایک سرکاری بس اَڈے سے روانہ ہوتی تھیں۔

کشادہ اور آرام دہ سفر۔ ان میں کسی قسم کی بدبو بھی نہیں ہوتی تھی۔ اس وقت سفر کے دوران سگریٹ پینے پرکوئی پابندی نہیں تھی۔ مگر شاذونادر ہی کسی کوبس میں سگریٹ پیتے دیکھا۔ ڈرائیور بھی سادہ سی یونیفارم پہنتاتھا۔ فیصل آبادسے لاہور تک اچھا سفر تھا۔ سرکاری شعبے میں ٹرین اور بسوں کی بدولت حکومت براہِ راست عوام کے مفادسے وابستہ نظرآتی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے، یہی کوئی پندرہ بیس سال پہلے، جی ٹی ایس بندکردی گئی۔ ان کی بیش قیمت زمین، ادنیٰ داموں پرنیلام ہوگئی۔

بسیں کباڑیوں کے ہاں پہنچ گئیں۔ ریلوے اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ مکمل نجکاری سے بچ گئی۔ بہرحال نج کاری ایک خاص منصوبہ بندی سے حکومت کے اچھے اداروں کوبربادکرتی چلی گئی۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ نجکاری کے خلاف نہیں۔ مگراصل نکتہ توعوام کی بھلائی ہے، حکومت کاکام پیسہ کمانا نہیں۔ اس کام کے لیے توسیٹھ موجودہیں جولوگوں کی جیب پرقانونی طریقے سے روزڈاکا مارتے ہیں۔ مگر پھربھی معزز کہلاتے ہیں۔ ریلوے اورجی ٹی ایس سے آپ پی آئی اے کی طرف آئیے۔ جہاز پر پہلاسفر1975میں کیا۔

والد مرحوم ملتان میں سیشن جج تھے۔ ان کے ایک پرانے دوست، شیخ رزاق، ملتان آئے ہوئے تھے۔ واپسی پر خواہش کا اظہار کیاکہ لائل پور جانا ہے۔ پچاس روپے یا ساٹھ روپے کی یکطرفہ ٹکٹ تھی۔ چھوٹا سا جہاز تھا۔ فوکر، ہاں فوکر تھا۔ شائستہ ماحول اور لذیذ کھانا۔ ایک گھنٹے کا سفرتھا۔ اب کسی کویقین نہیں آئیگاکہ فیصل آبادکے ایئرپورٹ پرپی آئی اے کی سرکاری بسیں کھڑی ہوتی تھیں۔ یہ مسافروں کوکسی بھی اضافی کرایہ کے بغیرکمپنی کے شہری مرکز تک لے کرجاتی تھیں۔ سفرکرنے کاایک بھرپور نظام، حکومت کے زیرِ اثراحسن طریقے سے چل رہاتھا۔

حکومتی سطح پرہوٹلوں کی طرف دیکھیے۔ سرکار کا لاہورمیں ایک انتہائی معیاری ہوٹل موجود تھا۔ شہر کا سب سے کشادہ اوربہترین ہوٹل۔ والد صاحب کے ساتھ وہاں ٹھہرنے کاکئی باراتفاق ہوا۔ اس کے کمرے انتہائی کشادہ تھے۔ کمرے کے درمیان میں ایک دیدہ زیب پردہ لگا ہوتا تھا۔ فیملیزانتہائی مہذب طریقے سے اس جگہ ٹھہری نظرآتی تھیں۔ ہوٹل کے اندرکمرہ دراصل دوحصوں میں تقسیم ہوجاتاتھا۔

ایک نشست گاہ اور دوسرا سونے کی جگہ اور درمیان میں پردہ۔ سرکاری ملازموں کو ٹھہرنے کے کرایہ میں کافی سہولت موجودتھی۔ دیگر اعلیٰ معیار کے ہوٹل بھی تھے۔ مگرجووضعداری اس سرکاری ہوٹل میں تھی، وہ اپنی طرزمیں نمایاں تھی۔ اچھی طرح یاد ہے کہ اس ہوٹل میں صوبہ کے تمام سفیدپوش لوگ بڑے آرام سے ٹھہرتے تھے۔ سفیدپوش کالفظ حددرجہ اہم ہے۔ اسی طرح جیسے وضعداری کا۔ یہ لفظ نہیں تھے۔ زندگی گزارنے کاایک رویہ تھا۔ اگرغورسے دیکھاجائے توان دوالفاظ میں لوگوں کی پوری زندگیاں چھپی ہوئی تھیں۔

سفیدپوش اور وضعدار۔ ہوٹل کاذکرکر رہا تھا۔ لاہورمیں اس بہتر طرزکاکوئی ہوٹل موجودنہیں تھا۔ وہ بھی سرکارکایعنی پبلک سیکٹر میں۔ میرا توخیال ہے کہ نجی شعبہ بھی سرکارکی معاونت کے بغیر قدم نہیں اُٹھاسکتا۔ عجیب بات ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر حکومت کے کندھوں پربیٹھ کرپیسہ کماتا ہے، پھر اسی حکومتی اداروں کامذاق اُڑاتا ہے۔ راولپنڈی میں بھی، صدرکے علاقے میں ایک ہوٹل تھا۔ وہ بھی سرکارکی ملکیت تھا۔ بذاتِ خوداس میں کئی بار ٹھہرا ہوں۔ حددرجہ آرام دہ جگہ تھی۔ اب اندازہ نہیں کہ وہ کس سطح پر کام کر رہا ہے۔ لاہور کا یہ سرکاری ہوٹل تو بہرحال نیلام کر دیا گیا ہے۔

ریلوے، بسیں، ہوائی جہازاورٹھہرنے کے لیے معیاری ہوٹل، یہ سب حکومت کے اندر موجود تھے اور ٹھیک ٹھاک چل رہے تھے۔ مطلب یہ کہ سرکاری شعبہ لوگوں کے اندرحفاظت اورآرام کی ذمے داری احسن طریقے سے نباہ رہا تھا۔ کمیونیکیشن کایہ پورانظام کسی اورملک کا نہیں۔ پرانے نظام میں اتنی سکت تھی کہ اس نے پورا بوجھ اُٹھارکھاتھا۔ مگرآہستہ آہستہ ہرچیزتبدیل ہوگئی۔ جی ٹی ایس کی بسیں اورسرکاری اڈے تو خیراب ماضی کاخواب بن چکے ہیں۔ پاکستان ریلوے جس حالت میں چل رہا ہے، اس پر کیا بات کی جائے۔

ہر حکومت نے اس کی بربادی میں بھرپورحصہ ڈالااوراپنے دورِحکومت میں ہر ایک اپنے منہ میاں مٹھوبنتی رہی۔ آج حالت یہ ہے کہ کبھی چلتے چلتے، ریلوے بوگیوں میں آگ لگ جاتی ہے۔ کبھی پٹری سے ڈبے اُترکر مسکینوں کی طرح زمین پرپڑے نظرآتے ہیں۔ حادثے بالکل عام ہیں۔ وہ سفرجومحفوظ ترین گنا جاتا تھا۔ اب مکمل طورپرغیرمحفوظ ہوچکا ہے۔ یہی حال، پی آئی اے کا ہوچکا ہے۔ ہر سرکار نے اس ادارے پر خوب ہاتھ صاف کیاہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ہمارے جہازانتہائی غیرمحفوظ ہوچکے ہیں۔ میرے ایک دوست کابیٹا بیریسٹرہے۔ چنددن پہلے، لاہور سے کراچی ایک مقدمہ کے لیے جانا تھا۔ بتانے لگاکہ جہاز کاسفراب اتنا غیرمحفوظ ہوچکاہے کہ وہ گاڑی چلاکرلاہورسے کراچی گیا اور واپس آیاہے۔ چودہ پندرہ گھنٹے گاڑی چلانا برداشت ہے۔ مگرکسی اورکی غلطی کی بدولت ناحق ہلاک ہوجاناہرگزہرگزقبول نہیں۔ وہ بیرسٹر، ہر دس پندرہ دن بعد، لاہورسے کراچی، اپنی گاڑی میں سفرکرکے آتا جاتا ہے۔ سرکاری شعبہ میں ہوٹلوں کا بھی یہی حال ہے۔ کچھ بک چکے ہیں اور کچھ فروخت ہوجائینگے۔

عرض کرنے کامقصدیہ ہے کہ چالیس پنتالیس بلکہ پنتیس سال پہلے، سرکاری شعبہ ہر طریقے سے فعال تھامگریہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ بگاڑ آخرکب شروع ہوا اور اسکا انجام کیاہوگا۔ چلیے، تنزلی تو نظرآتی ہے۔ اس سے ہرگزہرگزمفرحاصل نہیں کیا جا سکتا۔ مگر سنجیدگی سے یہ سوال ذہن میں اُبھرتاہے کہ اس دلدل کا آغازکب اورکس طرح سے شروع ہوا۔ آخرکوئی جن تویک دم نمودارنہیں ہوا، جس نے جادو کیا اور ہمارے سرکاری شعبے سے جان نکل گئی۔

یہ فالج زدہ ہوگیا۔ اس کی کارکردگی کومذاق بنادیاگیا۔ یہ ڈھلان تو بتدریج ظہور پذیرنظرآتی ہے۔ تبدیلی اورعوامی ترقی کے خون کے آنسو رُلادینے والے نعرے توعرصے سے روزسنائی دیتے ہیں۔ یہ بھی نظرآتاہے کہ ہرحکومت، ماضی کی حکومتوں کوذمے دارٹھہراتی ہے۔ خزانہ ہمیشہ خالی ہوتاہے۔ لوگوں کے مسائل بالکل بھی حل نہیں ہوتے۔ مگراصل سوال ابھی تک موجودہے۔ یہ بگاڑکب، کیونکراورکس کی بدولت شروع ہوا!اس کامنطقی انجام کیاہوگا!پتہ نہیں کیوں، میں اس سے آگے سوچنا نہیں چاہتا۔