Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Chief Secretary

Chief Secretary

شہباز شریف 2008 کے الیکشن کے بعد جب وزیراعلیٰ بنے۔ تو اقتدار سے دور ہوئے آٹھ برس ہو چکے تھے۔ اصل حکمران طبقہ یعنی پنجاب کی بیورو کریسی پر گرفت نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہ انتظامی لحاظ سے ایک مشکل دور تھا۔ میاں صاحب نے اس وقت حد درجہ درست فیصلہ کیا اور جاوید محمود کو چیف سیکریٹری پنجاب لگا دیا۔

کامیاب حکمرانی کی طرف یہ مضبوط ترین قدم تھا۔ جاوید محمود سے کوئی خاص دعا سلام نہیں تھی۔ بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ واجبی سا تعلق تک نہیں تھا۔ مگر جب اس بندے کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا تو میں ششدر رہ گیا، کہ خدایا، ہمارے نظام میں ایسے افسر بھی ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ جاوید محمود ایسا کیوں ہے۔ عام ذہن میں تو یہی نقشہ ابھرتا ہے کہ چیف سیکریٹری، بہترین کوٹ پینٹ اور زبردست جوتے پہنے ہو گا۔ ہاتھ میں سگار اور انگریزی میں گفتگو کرے گا۔ مگر جب اس چیف سیکریٹری کو میٹنگ میں دیکھنے کا موقع ملا تو تعجب نہیں بلکہ ذہنی جھٹکا لگا کہ خدارا اتنا سادہ لباس۔ جاوید محمود، سفید کرتے شلوار اور پشاوری چپل پہنا کرتے تھے۔

کسی اور رنگ کے لباس میں کم از کم مجھے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ عمران خان تو بطور وزیراعظم پشاوری چپل پہننے پر مشہور ہوئے۔ مگر 2008 میں پنجاب کی اعلیٰ ترین سرکاری سطح پر پشاوری چپل پہننے کا رجحان اس چیف سیکریٹری سے شروع ہوا۔ ایک دن انھیں دفتر آتا ہوا دیکھا تو کالے رنگ کی عام سی گاڑی میں اگلی سیٹ پر براجمان نظر آیا۔ حیرت ہوئی کہ اتنی عام سی گاڑی میں تو حدد درجہ جونیئر افسر بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ تو چیف سیکریٹری کو کیا مصیبت آن پڑی ہے، کہ وہ بے کار سی گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا ہے۔ مگر یہ آدھا سچ تھا۔ پورا سچ یہ تھا کہ سرکاری گاڑی کا اے سی بھی بند رہتا تھا۔ آپ کو یقین نہ آئے گا۔ وہ شخص کار میں ایئر کنڈیشنر تک نہیں چلاتا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد مجھے ذہن میں دو طرح کے سوال ابھرے۔ ایک تو یہ کہ جاوید محمود ہم سب کو بے وقوف بنا رہا ہے۔ دکھاوا کر رہا ہے اور بے حد جعلی سا انسان ہے۔ دوسرا متضاد سوال یہ تھا کہ یہ ایک کھرا اور سچا انسان ہے۔ جو سرکارپر کم سے کم بوجھ ڈالنا چاہتا ہے۔

جب ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو یقین ہو گیا کہ یہ شخص جعلی نہیں ہے۔ مگر لکھنے میں ایک دشواری ہے۔ اور یہ میں دل سے عرض کر رہا ہوں۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (P۔ A۔ S) میں مقابلے کا امتحان پاس کر کے ملک کے لائق ترین لوگ آتے ہیں۔ سی ایس ایس میں اعلیٰ نمبر لینا بالکل بھی آسان کام نہیں ہے۔ مگر یہ گروہ جس سے میرا بھی دلی تعلق ہے۔ عمومی طور پر تنقید کا نشانہ ہی بنا رہتا ہے۔ اس کے متعلق پروپیگنڈا اور منفی تاثر بڑی کامیابی سے پھیلایا جاتا ہے۔ مگر درست بات تو یہ ہے کہ یہی چند لوگ حکومت کی پالیسیوں کو نافذ کرتے ہیں۔ یہی سرکار چلاتے ہیں۔ اور المیہ یہ ہے کہ ذہنی طور پر انتہائی کم سطح کے سیاسی لوگ، ان کے باس ہوتے ہیں۔

یہ ایک ایسا دکھ ہے جس کا کم از کم میں بہت زیادہ شکار رہا ہوں۔ سیاسی لوگوں میں جب یہ احساس جاگتا ہے کہ ان کا ماتحت ان سے بہت بہتر ہے۔ تو ایک عجیب سی کش مکش شروع ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ اکثر افسر کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ جاوید محمود ان لوگوں میں سے تھا جو نوکری کرنے میں اتنے سنجیدہ ہوتے ہیں کہ دیکھنے والے انگشت بدنداں ہو جاتے ہیں۔ شایدآپ کو لگے کہ میں ایک چیف سیکریٹری کی بے جا تعریف کر رہا ہوں۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ جاوید صاحب کو ریٹائرڈ ہوئے دہائی گزر چکی ہیں۔ اب وہ صرف ایک اعلیٰ کاشت کار ہے۔

اس شخص نے عجیب و غریب سے انتظامی فیصلے کرنے شروع کر دیے۔ ہر سیکریٹری کو حکم ملا کہ وہ ایک تحصیل کے تمام ترقیاتی کاموں کی نگرانی کرے گا۔ تجاوزات کا خاتمہ کرے گا۔ اور موقعہ پر ضلعی انتظامیہ کے ساتھ بیٹھ کر لوگو ں کے مسائل برق رفتاری سے حل کرے گا۔ شروع میں مجھے گوجرہ جانے کا موقع ملا۔ ہاں ایک بات بتانا بھول گیا۔ چیف سیکریٹری ہر صوبہ کی تحصیل میں جائے گا اور وہاں تمام کام خود دیکھے گا۔

یہ سرکاری دورہ آدھ پون گھنٹے کا ہوتا تھا۔ مگر سیکریٹری وہاں اس وقت تک رہے گا۔ جب تک تمام سرکاری کام بہتر نہج پر گامزن نہیں ہو جاتے۔ گوجرہ میں کئی دن رہنے کا اتفاق ہوا۔ ایک دن دیکھا کہ میونسپل کارپوریشن کا ایک اہلکار سڑک پر پودوں کو دھو رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ چیف سیکریٹری آ رہا ہے۔ لہٰذا پودے تک صاف ہونے چاہیں۔ گوجرہ ٹوبہ روڈ پر ایک بہت بڑا اسکول بن رہا تھا۔ جب جاوید محمود وہاں پہنچا تو میرے ساتھ، ایکسین بھی کھڑا تھا۔ چیف سیکریٹری نے ایکسین سے پوچھا کہ اس عمارت کی چھت پر پانی کھڑا کر کے دیکھا ہے کہ چھت کہیں سے لیک تو نہیں کر رہی۔ ایکسین کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ چیف سیکریٹری اتنی باریک بینی سے اسکول دیکھے گا۔ اس کے پاس کوئی معقول جواب نہیں تھا۔ اس کے بعد ایکسین صاحب کی وہ سرکاری دھلائی ہوئی کہ خدا کی پناہ۔ چیف سیکریٹری کا سوال بالکل درست تھا۔

افسروں پر بہت زیادہ الزام یہ بھی ہے کہ وہ دفتر میں تاخیر سے آتے ہیں۔ جاوید محمود نے اس الزام کو ذاتی کارکردگی سے دھویا۔ آٹھ بجنے میں پانچ منٹ پر میٹنگ کے لیے سب بیٹھ جاتے تھے اور ٹھیک آٹھ بجے سرکاری کام شروع ہو جاتا تھا۔ سختی کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کے کام تیزی سے ہونے شروع ہو گئے۔ مگر چند افسروں کو یہ معاملہ پسند نہیں آیا۔ چنانچہ وزیراعلیٰ کو شکایتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جاوید محمود کو سب کچھ معلوم ہو جاتا تھا مگر اس نے اپنا مثبت طرز کا کام کرنا بالکل تبدیل نہیں کیا۔ دو فیصلے ایسے کر ڈالے جو کہ اس کے بعد کوئی بھی چیف سیکریٹری کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ ایک تو سول سیکریٹریٹ میں حد درجہ تجاوزات تھیں۔ حکم دیا کہ فوری طور پر تجاوزات ختم کی جائیں اور سیکریٹریٹ کو اس کی اصل صورت میں بحال کیا جائے۔ صرف دو مہینے میں تجاوزات ختم کر دی گئی۔ اب ایسا لگتا تھا کہ یہ سول سیکریٹریٹ پرانی نہیں، بلکہ بالکل نئی ہے۔

کھلی اور حد درجہ کشادہ۔ دوسرا محیر العقول فیصلہ یہ کیا کہ جاوید محمود نے اپنے دفتر کے باہر ایک درخت کے نیچے کرسی میز لگا لی۔ کوئی بھی شخص ان سے مل سکتا تھا۔ کوئی چٹ، کوئی دربان، کوئی چوبدار نہیں تھا۔ ایک دن انھوں نے فون کیا کہ ایک ریٹائرڈ اہلکار آیا ہے۔ اس کی پینشن جاری نہیں ہوئی۔ وہ میرے ہی ڈیپارٹمنٹ کا اہلکار تھا۔

خیر کوشش کر کے ایک دن میں اس کی پنشن جاری کروا دی۔ وہ شخص آیا اور میرے پاس دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ سالوں سے رکا ہوا کام صرف چوبیس گھنٹوں میں ہو گیاہے۔ وہ جتنی دعائیں جاوید محمود کو دے رہا تھا۔ عرض نہیں کر سکتا۔ اور ہاں۔ جب بھی چیف سیکریٹری کوئی سرکاری کام کہتا تھا تو یہ بھی حکم صادر ہوتا تھا کہ اسے صرف ایک دن میں کروانا ہے۔ آپ یقین فرمائیے۔ ایسا ہی ہوتا تھا۔ عام لوگوں کے کام جس سرعت سے اس دور میں ہوئے۔ اس کا اندازہ آج لگانا بہت مشکل ہے۔ پورے صوبے میں سرکاری کام کی رفتار بہت تیز ہو گئی۔

ہر ڈی سی، کمشنر اور سیکریٹری کے ذہن میں ہوتا تھا کہ کوئی پتہ نہیں کہ چیف سیکریٹری کا صبح صبح فون نہ آجائے۔ کہیں غیر موجودگی کی بدولت باز پرس نہ شروع ہو جائے۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا، کہ جب تک جاوید محمود، چیف سیکریٹری رہا، پنجاب میں افسر صبح آٹھ بجے سے کام کرنا شروع کر دیتے تھے۔

ایسے ایسے انقلابی کام تھے کہ سوچتے ہوئے بھی حیرانی ہوتی ہے۔ جیسے کئی میٹنگز تھیں جو صبح آٹھ بجے شروع ہوتی تھیں اور رات دو بجے تک چلتی رہتی تھیں۔ ہر افسر اپنی کارکر دگی کی رپورٹ پیش کرتا تھا۔ بہر حال جاوید محمود کی مقبولیت سے چند سرکاری بابو نالاں بھی تھے۔ انھوں نے انتہائی کاری گری سے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے کان بھرنے شروع کر دیے۔ پھر بالکل وہی ہوا جو اچھے افسروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک معمولی سے واقعہ کو بنیاد بنا کر جاوید محمود کو او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ ایک دو دن کے لیے نہیں۔ ڈھائی تین سال کے لیے۔ دراصل ہم ڈرے ہوئے لوگ ہیں اور اکثریت اپنے سے بہتر انسان کو قبول نہیں کرتی۔ لہٰذا ہمیشہ بہترین افسر سازش کا شکار ہو کر ضایع کر دیے جاتے ہیں۔ جاوید محمود کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ شاید ہونا بھی چاہیے تھا۔ ہمیں اعلیٰ کارکردگی والے افسر نہیں بلکہ ڈرامے باز اور بابو ٹائپ افسر ہی بھاتے ہیں۔ کیوں؟ آپ کو بھی وجہ معلوم ہے!