Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Choona

    Choona

    اکبراعظم کاسنہری دورتھا۔ رواداری، ریاستی طاقت، انصاف عوام کے لیے آسودہ حالی کی پہچان تھی۔ اکبرکے نورتن ابھی مکمل نہیں تھے۔ راجہ بیربل اس میں شامل نہیں ہوا تھا۔ یایوں کہہ لیجیے کہ اسے قدرت نے موقع نہیں دیا تھاکہ شہنشاہ تک رسائی حاصل کرلے۔ راجہ بیربل حد درجہ ذہین اوربہادرشخص تھا۔ اس کی حاضرجوابی ضرب المثل توتھی ہی مگرایک دلیرجرنیل بھی تھا۔

    ایک دن بیربل جسکااصل نام مہیش داس تھا۔ ایک پنساری کی دکان پر کھڑا تھا۔ اکبر بادشاہ کاملازم خاص آیااور آدھا سیر چونے کا تقاضہ کیا۔ بیربل نے نوکرسے پوچھاکہ وہ کون ہے اور اتنا زیادہ چونا خریدکرکیاکریگا۔ ملازم نے فخریہ انداز سے کہا کہ اکبرِاعظم کوپان کی گلوری بناکر کھلاتا ہے۔

    اورچونااسی کے لیے لے کرجارہاہے۔ مگراتنازیادہ کیوں۔ بیربل کے اس سوال کا جواب ملازم نے سنجیدگی سے دیاکہ یہ دراصل اکبرہی کاحکم ہے۔ بیربل سوچ میں پڑگیا۔ کہنے لگاکہ ہرگزچونانہ خریدو، بلکہ دہی لے کرجاؤ۔ ملازم ڈرگیا کہ کیونکر بادشاہ کی حکم عدولی کرے۔ مگربیربل نے کہا کہ اپنی جان بچانے کے لیے دہی خریدو۔ ورنہ مارے جاؤ گے۔ نوکربہرحال سہما ہوا تھا۔ دہی خریدااوردربارمیں پیش ہوگیا۔ اکبرنے حکم دیاکہ فوری طورپرچوناپی جاؤ۔ ملازم نے آدھاسیردہی پیا اور چلا گیا۔ اگلے دن بادشاہ نے کہا کہ اس ملازم کوبلایاجائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔

    ملازم پیش ہوا۔ اسے زندہ دیکھ کراکبرحیران رہ گیا۔ کہنے لگا، تم نے توچوناپیاتھا۔ زندہ کیسے ہو۔ ضرورکوئی مسئلہ ہے۔ ملازم نے جان کی امان پاکرپوراواقعہ سنایا۔ تو اکبر ششدررہ گیا۔ فرمان جاری کیاکہ فوری طورپراس فطین شخص کو دربار میں حاضرکیاجائے۔ شاہی ملازم بلاوے کے لیے بیربل کے پاس پہنچاتواس نے دربارجانے سے صاف انکار کردیا۔ بادشاہ کوجب بتایاگیاتواس نے کچھ سوچا اور ملازم کے ساتھ شاہی نقاروں اورنوبت بھی روانہ کی۔ بیربل نے دوبارہ انکارکرڈالا۔ اکبربادشاہ دوبارہ سوچ میں پڑگیا۔ حکم دیاکہ ملازم، شاہی نقارے کے ساتھ شاہی سواری بھی روانہ کی جائے۔

    جب یہ سارا کارواں، بیربل کی رہائشگاہ پرپہنچاتوبیربل فوری طورپردربارمیں حاضر ہوگیا۔ کہنے لگاکہ حضورمیں عزت دارشخص ہوں۔ صرف ایک ملازم اورنقارے کا محتاج نہیں۔ جب آپ نے شاہی ہاتھی بھجوایاتومیں اپنی عزت افزائی پرخوش ہوا اور اب آپکی خدمت میں پیش ہوں۔ اکبراعظم نے حیرانگی سے پوچھا کہ تمہیں کیسے علم ہواکہ میں اپنے پان بنانے والے ملازم سے ناراض ہوں اورچونااسے مارنے کے لیے منگوا رہا ہوں۔ بیربل کاجواب حیرت انگیزطورپر برجستہ تھا۔

    کہنے لگاکہ اس نے نوکرسے دکان پر پوچھا تھا کہ جب تم نے آخری باربادشاہ کوپان کھلایاتوبادشاہ نے کیاکہاتھا۔ ملازم کاجواب تھاکہ گلوری کی اکبراعظم نے تعریف نہیں کی بلکہ چونالانے کاحکم دیا۔ بیربل نے بیان جاری رکھا۔ میں اسی وقت سمجھ گیاکہ آپ نوکرسے ناراض ہیں۔ صرف اسکااظہارنہیں کیااورچونالینے بھیج دیا۔ ظلِ الٰہی نے اسی وقت ذہن میں ٹھان لی تھی کہ اس ملازم کی نااہلی کی وجہ سے اسے قتل کردیاجائے۔ واقعات کوبھانپ کرمیں نے ملازم کودہی لیجانے کامشورہ دیا تھا۔

    اکبر اعظم، بیربل کی ذہانت دیکھ کرحددرجہ متاثر ہوا اوراسے فوری طورپراپنے دربارمیں مشیرمقرر کر دیا۔ شہنشاہ کے انھی نورتنوں کی ذہانت، جرات اورمعاملہ فہمی نے اکبر کو برصغیر کالازوال حکمران بنادیا۔ وہ شخص جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتاتھا۔ اپنے ان نورتنوں کی لیاقت کی بدولت نصف صدی تک ہندوستان کا بے تاج بادشاہ قائم رہا۔

    مگریہاں ایک سنجیدہ سوال پیداہوتا ہے۔ اگر بادشاہ کے اردگردنورتن نہ ہوتے، توکیاوہ اسی عظمت سے برصغیرپرحکومت کرسکتاتھا۔ کم ازکم طالبعلم کا جواب نفی میں ہے۔ انتظامی نوکری میں رہنے کی بدولت چونتیس برس، اقتدارکے دربارکے معاملات دیکھنے کا بھرپور موقعہ ملاہے اور پوری ذمے داری سے کہہ سکتاہوں کہ ہمارے کسی بھی وقت کے صاحب اقتدارشخص کوذہین مشیرنہیں چاہییں۔ بلکہ ہمارے حکمران توقابل افراد سے گھبراتے ہیں۔ ان سے دوررہناپسندکرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتاہے کہ سنجیدہ مشورہ دینے والے لوگ دربارِ شاہی میں معتوب قراردیے جاتے ہیں۔

    ان کی جگہ خوشامدی، مالشیے، سادھو، سنت اورطبلچی لے لیتے ہیں۔ قطعاًمبالغہ نہیں کررہا۔ ہر طرح کے نشیب وفرازسے گزرنے کے بعددلیل پر بات کررہاہوں۔ جنرل ضیاء الحق ہو، یانواز شریف، زرداری ہویاعمران خان، پرویز مشرف ہویاکوئی اور۔ اقتدارمیں آنے کے بعدسب سے پہلے اپنی ذاتی محرومیوں کاتاوان عوام کے پیسوں سے وصول کرتے ہیں۔ ہزاروں نہیں لاکھوں ایسے واقعات ہیں، جن سے مقتدرطبقے کی ذہنی مفلسی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

    ایک سابقہ وزیراعظم، بہاولپور کے لال سہانرہ کے ذاتی دورہ پر آئے۔ ان کے ساتھ ان کے چنددوست اوربیٹا تھا۔ کھانے کی میزپروزیراعظم اوران کے مصاحبین موجود تھے۔ ہم لوگ کیونکہ انتظامیہ کاحصہ تھے، لہٰذا سرکاری ڈیوٹی تھی کہ شاہی قافلہ میں موجود رہیں۔ کھاناکھاتے ہوئے اچانک وزیراعظم نے اپنے دوست کوصدیوں پرانالطیفہ سنایا۔

    جس پرتمام لوگ مصنوعی طورپرقہقہے لگا کر ہنسے۔ پھر حکم دیاگیاکہ گانا سنایا جائے۔ سابقہ وزیراعظم کے بوڑھے دوست نے حکم کی ایسے تعمیل کی کہ ہم لوگ حیران رہ گئے۔ ڈائننگ ٹیبل کے اردگرد کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ دوست کرسی پرکھڑا ہوگیا اورشادی بیاہ پرگانے والا معروف گانا "جیوے بنڑہ"زورزورسے گاناشروع کردیا۔ موصوف ضعیف تھے۔ لہٰذاآوازبھرائی ہوئی تھی بلکہ حددرجہ ناقص تھی۔ مگرحکمران کووہ گانااتناپسندآیاکہ انھوں نے تالیاں بجاکرداددی۔ وزیراعظم کوخوش دیکھ کرمحفل میں شریک اکثرلوگوں نے زورزورسے تالیاں پیٹیں۔ ایسے لگاکہ بزرگ نے دنیاکے بہترین انداز میں "موسیقارِ اعظم" ہونے کاثبوت دیاہے۔ جوکہ مکمل طور پر غلط تھا۔ بہرحال مقصدوزیراعظم کوخوش کرناتھا اور یہ ترکیب مکمل طورپردرست ثابت ہوئی۔

    بالکل اسی طرح، ایک دن ہمارے ایک سابقہ صدرکے ہونہارصاحبزادے نے اس وقت کے وزیراعظم کوفون کیاکہ اسے لندن میں تعلیمی اخراجات کے لیے تین لاکھ پاؤنڈچاہئیں۔ وہ وزیراعظم وسیع المشرب انسان تھا۔ اس نے صدرمحترم کوفون کرکے ساری روداد سنائی۔ جواب ملاکہ یہ بھتیجے اورچچاکے مابین معاملہ ہے۔ انکااس سے کوئی لینادینا نہیں۔ وزیراعظم سیاناتھا۔ فوری طورپر نونہال کی فرمائش کی تعمیل کی اور تین لاکھ پاؤنڈہنڈی کے ذریعے بھجوادیے گئے۔ کیا عرض کروں اورکیانہ کروں۔ خزانہ خالی ہے۔ ملک نازک حالات سے گزر رہاہے۔

    یہ جملے اب بے تاثیرہوچکے ہیں۔ کسی کوبھی اس بیانیہ کے کھوکھلے پن سے یارہ نہیں۔ ہاں یہ بھی کہ پاکستان کوقدرت نے ہرنعمت سے نوازاہے۔ بس تھوڑے دن میں ہرمعاملہ ٹھیک ہوجائیگا۔ بھئی اگر ہر نعمت موجودہے توعوام تک اسکاثمرکیوں منتقل نہیں ہو رہا۔ دراصل اب لوگوں کی اکثریت مقتدرطبقے سے حد درجہ فاصلہ پرہے۔ ووٹ کاجائزاستعمال بھی بے معنی بنا دیاگیاہے۔ نوجوان طبقہ اب اس قدرمایوس ہے کہ کوئی بھی اس پُرآشوب ملک میں نہیں رہناچاہتا۔

    گزشتہ دس پندرہ برسوں میں لاکھوں لوگ ملک سے ہجرت کرچکے ہیں۔ اب تو لاہورشہراورسوشل میڈیاپربھرپور اشتہار موجود ہیں کہ دوسراغیرملکی پاسپورٹ آسانی سے حاصل کریں۔ امیگریشن کمپنیاں اس وقت حددرجہ پیسہ کما رہی ہیں۔ جولوگ جائزطریقے سے نہیں جاسکتے۔ انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ اگرملک میں اس قدر بہترحالات ہیں تولوگ یہاں سے بھاگ، نہیں نہیں، فرارکیوں ہورہے ہیں۔ مگرکوئی اس تلخ سچ کوبیان نہیں کرتا۔

    ہم نے اپنے اپنے زمینی دیوتاتراش لیے ہیں۔ کوئی بھی اپنے تخلیق شدہ بت توڑنے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ سب کواندرسے پتہ ہے کہ ان کے تراشے ہوئے بت برف کے بنے ہوئے ہیں۔ اگر انھیں غیرمتعصب سورج کی دھوپ میں ایک لمحے کے لیے رکھاجائے تویہ پگھل کرپانی بن جائینگے۔

    مگراس کے باوجودخواص اپنے مالی مفادکے زیرِاثران کے جعلی پجاری بنے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس عوام کوسانس لینے کے لیے سہارے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا بطور مجبوری، کسی نہ کسی گروہ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ حقیقت میں حکمران اپنے اردگردذہین مشیروں کو رکھنا ناپسند کرتے ہیں۔ انھیں صرف ہاں میں ہاں ملا نے والے طبلچی چاہییں اوروہ وافرتعدادمیں موجود ہیں۔ انھیں کسی عقلمند بیربل کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے اگربیربل آج کے دورمیں ہوتاتو آدھا سیر چونا خریدنے کوبالکل منع نہ کرتا۔ مگرسوال یہ بھی ہے کہ وہ چو ناکھانے کے لیے مقتدرلوگوں کاانتخاب کرتایاملازم کا؟