پینتس برس کے انتظامی تجربہ کو کالم کی شکل میں لکھنا دشوار لگ رہا ہے۔ ارادہ ہے کہ سرکاری زندگی کی جزئیات، اچھائیاں اور سفلی پن پر کتاب لکھوں، اور ضرور لکھوں گا۔
عرض کرنا چاہوں گا۔ متعدد محترم لکھاری حد درجہ حساس انتظامی امور پر بغیر کسی عملی تجربہ کے بے خوف لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
یہ رجحان خطرناک تو ہے ہی مگر اس میں بنیادی حقائق مسخ کرنے کی کوشش بھی شامل ہوتی ہے۔ جو فکری توازن کے منافی ہے۔ ویسے کئی افسران، لکھاریوں کے چند کام کرنے کے بعد، انھیں اپنا "گرویدہ" یا درباری بنا لیتے ہیں۔ پھر تعریفی کالموں کا ایک بدبودار سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مشورہ ہے کہ انتظامی افسروں اور انتظامی امور کی بابت ذاتی فائدہ اور نقصان سے بالا تر ہو کر لکھنے کا وصف ہونا چاہیے۔
سیالکوٹ میں اس وقت کے وزیراعلیٰ کے حد درجہ منفی فیصلہ نے شاہد نجم کو صوبہ بدر تو کر ڈالا مگر شاہد صاحب پر قدرت نے دست غیب سے بین الاقومی اداروں میں تعیناتی کے در کھول دیے۔ ظفر محمود اب سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر بنے۔ نرم خو انسان، لیکن سرکاری کام میں حد درجہ سختی کرنے والے افسر۔ ان کا کام کرنے کا طریقہ حد درجہ مختلف تھا۔
کام کی تہہ تک جاتے تھے۔ بنیادی محرکات کو جانچتے تھے۔ جزئیات میں جانے کا رویہ رکھتے تھے۔ بھلے آدمی تھے۔ ان سے سیکھنے کا بہت موقع ملا۔ ایک رات لاہور سے شکر گڑھ جا رہا تھا۔ ناروال روڈ پر پولیس کاناکہ لگا ہوا تھا۔ صبح ہوا چاہتی تھی۔ ذاتی گاڑی تھی۔ جو والد صاحب نے اکیڈمی میں جاتے ہوئے خرید کر دی تھی۔
پولیس کو ڈرائیور نے بتایا کہ گاڑی میں اے سی شکر گڑھ موجود ہیں۔ پولیس والے نے برجستہ پوچھا کہ نئے والے کہ پرانے والے۔ دراصل نارووال اور شکر گڑھ اخبار بسوں پر آتا تھا۔ لازم ہے کہ پولیس والے اس سہولت سے سب سے پہلے فیضاب ہوتے تھے۔
وہاں اس دن کا اخبار پہنچ چکا تھا۔ میرے تبادلہ کی خبر بھی موجود تھی۔ شکر گڑھ سے گوجرہ بھجوادیا گیا تھا۔ ویسے عجیب بات ہے، جب پہلے دن شکر گڑھ کے لیے لاہور سے روانہ ہوا تھا تو راستہ پوچھتا ہوا پہنچا تھا۔
خیر چند دن بعد، جب گوجرہ گیا، تو وہاں بھی راستہ پوچھ پوچھ کر پہنچا تھا۔ پنجاب کے اندرون کو دیکھنے اور وہاں کام کرنے کا تجربہ حد درجہ بہترین تھا۔ عرض کرتا چلوں کہ شکر گڑھ، ہندوستان سے متصل ہے۔ اس کے تقریباً تین طرف ہندوستان ہے۔ لوگوں کا مزاج اور زبان، وسطی پنجاب سے بہت مختلف ہے۔ کئی ایسے الفاظ ہیں جو وہاں عام بولے جاتے ہیں۔
مگر سومیل کے فاصلے پر ان الفاظ کو بولنے اور سمجھنے والا کوئی نہیں ہے۔ وجہ یہ کہ پنجاب میں تھوڑے سے فاصلے پر زبان بدل جاتی ہے، اور یہی حال انسانوں کا ہے۔ ان کی عادات میں تبدیلیاں فاصلے کے ساتھ ساتھ آتی رہتی ہیں۔ شکر گڑھ میں صنعت و حرفت نام کی کوئی چیز خال خال ہی تھی۔ مگر اس کے برعکس گوجرہ کافی ترقی یافتہ تحصیل تھی۔
عام لوگ اور سیاست دان تو خیرہر جگہ مختلف ہوتے ہیں۔ وہاں کاشتکاری، آنکھوں کے بہترین اسپتال اور کئی کارخانے موجود تھے۔ اگر شکرگڑھ میں انور عزیز جیسا جغاداری سیاست دان موجود تھا۔ تو گوجرہ میں حمزہ صاحب کا طوطی بولتا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے حد درجہ قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ بلکہ ایک بار تو جنرل صاحب، ٹوبہ ٹیک سنگھ ضلع کا نام بدل کر "حمزہ ٹوبہ" رکھنا چاہتے تھے۔
بہر حال ایسا ہو نہ سکا۔ عرض کرتا چلوں کہ گوجرہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ ضلع کی تحصیل تھی۔ گوجرہ آنے کا ایک فائدہ یہ ہواکہ والدین کے قدرے قریب آ گیا۔ والد صاحب سیشن جج جھنگ تھے اور والدہ جھنگ کالج میں پرنسپل تھیں۔ جھنگ اور گوجرہ کا درمیانی فاصلہ حد درجہ کم تھا۔ لہٰذا گھر جانا قدرے آسان ہوگیا تھا۔ ایک نکتہ بیان کرتا چلوں۔ جوان بچوں اور والدین، خصوصاً والدکے درمیان ادب شائستگی کی دیوار ضرور ہوتی ہے۔ کم از کم مجھ میں اپنے والد کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کی ہمت نہیں تھی۔
یاد رہے کہ اس وقت اسسٹنٹ کمشنر تھا۔ خاندانی روایت کے تحت اپنے والد کے سامنے دم نہیں مار سکتا تھا۔ شروع شروع میں، گوجرہ میں اے سی ہاؤس خالی نہیں تھا۔ نزدیک ہی " دھماں بنگلہ" نام کا ایک حد درجہ سادہ مگر آرام دہ ریسٹ ہاؤس تھا۔ چند ہفتے وہاں رہنا پڑا۔ ایک دن ریسٹ ہاؤس کے لان میں سیر کر رہا تھا۔ تو ایک چھوٹی سی قبر نظر آئی۔ مکمل سفید رنگ کی۔ تعویز پر انگریزی زبان میں ایک بچی کا نام لکھا ہوا تھا۔ نام بھول چکا ہوں۔
معلوم ہوا کہ انگریز چیف انجینئر وہاں نہر کھودنے پر مامور تھا۔ بٹوارے سے پہلے کا ذکر کر رہا ہوں۔ نہر کے کنارے پر خیمہ لگا کر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مقیم تھا۔ لڑکی چھوٹی تھی۔ لندن سے آئی تھی۔ وسطی پنجاب کی گرمی برداشت نہ کر سکی اور فوت ہوگئی۔
انگریز انجینئر کی کام سے لگن کا اندازہ لگائیے۔ بیٹی کی لاش لے کر واپس برطانیہ نہیں گیا۔ بلکہ وہیں نہر سے تھوڑے سے فاصلے پر اسے دفنا دیا۔ اور پھر کام کرنا شروع کر دیا۔ ہم انگریزوں کے دور کو غلامی کا دور کہتے ہیں۔ مگر آج ہمارا جو بھی نظام ہے۔ اس میں سے اسی فیصد، اسی غلامی کے دور کی یاد گار ہے۔
پنجاب میں"دنیا میں نہروں کا سب سے بڑا جال " وہی بچھا کر گئے ہیں۔ ہم تو اس کے بعد حد درجہ کم آبی ذخائر اور نہریں بنا پائے ہیں۔ بہر حال بچی کی قبر وہاں آج بھی موجود ہے۔ جب بھی ریسٹ ہاؤس کے لان میں جاتا، تو اس انجینئر کو ضرور یاد کرتا اور مرحومہ کے لیے ہمیشہ دعا کرتا۔ گوجرہ تقریباً دو برس رہا۔ اس دو برس کاایک ایک لمحہ مجھے یاد ہے۔ گوجرہ کے لوگ عمومی طور پر محنتی اور ذہین ہیں۔ سیاسی شعور بھی پختہ ہے۔
مگر وہاں ایک حد درجہ مشکل سیاسی مسئلہ موجود ہے۔ وہ ہے ذات اور برادریوں میں حد درجہ متعصب چپقلش۔ 1988 کی بات کر رہا ہوں ہو سکتا ہے کہ اب الیکشن میں برادری کا عنصر کچھ کم ہوگیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بڑھ گیا ہو۔ کیونکہ ہمارے شعور میں ابھی وہ پختگی نہیں آئی۔ جس سے سیاسی شعور تعصبات سے بالاتر ہو جائے۔ گوجرہ میں انتظامی امور تو خیر چل رہے تھے۔ مگر وہاں مجھے فارسی زبان سیکھنے کا شوق ہوگیا۔ گورنمنٹ کالج گوجرہ میں اردو کے مایہ ناز استاد، مولوی غلام رسول موجود تھے۔
ان سے التجا کی۔ کمال شفقت کر کے انھوں نے فارسی کی بنیادی تراکیب سے آگاہی دی۔ اس زمانے میں نثر بہت کم لکھتا تھا۔ شاعری کی طرف میلان قدرے زیادہ تھا۔ ٹوبہ کے ڈپٹی کمشنر توقیر احمد فائق بھی شاعر تھے۔ حد درجہ شریف النفس انسان۔ علم دوست اور انسان دوستی کا توازن توقیرصاحب میں حد درجہ خوبصورتی سے موجود تھا۔
ان کا رویہ ماتحتوں سے بہت اچھا تھا۔ تکبر، خوبو اور ٹھسے سے اجتناب کرنے والے محترم افسر۔ شاعری کے شغف کی طرف واپس آتا ہوں۔ شروع شروع میں تک بندی تھی۔ مگر مولوی غلام رسول کے قلم میں ایسا جادو تھا کہ معمولی سی تک بندی کی تصحیح فرما کر اسے اعلیٰ شعر بنا ڈالتے تھے۔ مرنجان مرنج انسان تھے۔ لوگ ان کا نام تک نہیں جانتے۔ مگر اپنے شعبہ کے بہت بڑے آدمی تھے۔ خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ اسی زمانے کے دو شعر ذہن میں ہیں۔
ایاغ دل میں مہِ ناب لے کے پھرتے ہیں
جگر کے داغ لیے، مہتاب پھرتے ہیں
رسوا ہوئے ہیں اپنی ہی خوئے وفا سے ہم
اب آشنا نہیں ہیں کسی آشنا سے ہم
بہر حال یہ دہائیوں پہلے کا قصہ لے کرکیا بیٹھ گیا۔ گوجرہ کی جزئیات میں جاؤں تو کالم تنگ پڑ جائے گا۔ واقعی اب کتاب میں ہی اپنے تجربات کو سمونا پڑے گا۔ ضرور عرض کرونگا۔ کہ سول سروس جتنی باہر سے شاندار نظر آتی ہے۔
اندر سے اتنی ہی تکلیف دہ ہے۔ سیاسی مداخلت تو خیر تھی ہی۔ مگر آج سے موازنہ کریں تو حد درجہ کم تھی۔ ویسے سیاست دانوں اور بیوروکریسی کو ایک ساتھ ہی کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہمارے جیسے ملک میں لازم و ملزوم ہیں۔ اگر اس میں توازن برقرار رہے تو یہ بالکل بری بات نہیں ہے۔ انتظامی افسران تو سال دو سال کے لیے تعینات ہوتے ہیں۔ انھیں مقامی مسائل پر گرفت آہستہ آہستہ حاصل ہوتی ہے۔ عوامی نمایندے ہر دم لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔
بنیادی مسائل کا ادراک انھیں بہر حال بہتر ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ عوامی نمایندوں کی ان معلومات کا انتظامی افسروں کو بہت فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مگر اس کا ایک منفی پہلو بھی ہے۔ ہر سیاست دان چاہتا ہے کہ اس کے سیاسی مخالف کا جینا حرام کر دیاجائے۔ بلکہ ہو سکے تو اس کا سر قلم کر کے درخت سے ٹانگ دیا جائے۔
آج کل تو یہ سیاسی تفریق، ذاتی نفرت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اکثر انتظامی افسران، طاقت ور سیاست دانوں کے مہرے بن کر ہر قبیح اور غلط کام کرنا اپنا سرکاری منصب سمجھتے ہیں۔ خیر اب تو چیف سیکریٹری تک کو ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر تعینات کیاجاتا ہے۔ وہ کس گروہ کا ہے، کس سیاست دان کا بغل بچہ ہے۔
یہ تمام جزئیات طے کرنے کے بعد چیف سیکریٹری کو لگایا جاتا ہے۔ بیورو کریسی کی بربادی میں زیادہ ہاتھ انھیں بغل بچوں کاہے۔ جو سیاست دانوں کی ڈگڈگی پر برہنہ پا رقص کرنے کا فن جانتے ہیں۔ اور اس کی عوام سے بھرپور فیس وصول کرتے ہیں۔ (جاری ہے۔)