اوسلوائرپورٹ حد درجہ خوبصورت ہے۔ جانا تو سویڈن تھا لیکن فلائٹ اوسلو ائرپورٹ تک کی تھی۔ وہاں سے متعدد ائر لائنز کے مسافر جہاز اسٹاک ہوم آتے جاتے رہتے ہیں۔ فلائٹ وقت پر تھی، بورڈنگ پاس پہلے ہی میرے پاس تھا۔ کاؤنٹر پر گیا، اسٹاف حددرجہ خوش اخلاق ہے، بورڈنگ پاس دیکھ کر مجھے کہنے لگے کہ ایک مسافر ہے، اسے ایمرجنسی میں اسٹاک ہوم پہنچنا ہے، اگر آپ اپنی نشست اسے دے دیں تو مہربانی ہوگی، اگلی فلائٹ صرف پینتالیس منٹ بعد ہے، جس مہذب اور شائستہ زبان میں ایئرلائن کے اسٹاف نے درخواست کی، میں نے حامی بھر لی۔
میں اپنی نشست، اجنبی انسان کو دے کر کافی شاپ میں بیٹھ گیا۔ کافی کا کپ ختم کرتے کرتے اگلی فلائٹ کا وقت آ گیا۔ کاؤنٹر پر دوبارہ پہنچا تو عملے نے بتایا، ائر لائن نے آپ کااکانومی کلاس کا ٹکٹ، بزنس کلاس میں منتقل کر دیا ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی تاہم میں نے انکار کر دیا اور کہا میں اکانومی کے ٹکٹ پر سفر کر رہا ہوں۔ مناسب نہیں لگتا کہ ایک معمولی سی وجہ کی بدولت بزنس کلاس میں سفر کروں۔ فضائی میزبان نے حد درجہ توجہ سے کہا، کہ سر، ہماری فضائی کمپنی کی پالیسی ہے کہ جو بھی مسافر، کسی اور مسافر کی مشکل کوحل کرتا ہے۔
اس کی نشست فوراً اپ گریڈ ہو جاتی ہے۔ خیر پانچ چھ منٹ کی بحث مباحثہ کے بعد بزنس کلاس کا بورڈنگ پاس لے لیا۔ چھوٹا جہاز تھا، ایک گھنٹے سے تھوڑا سا زیادہ کا سفر تھا۔ آرام سے نشست پر بیٹھا، باہر نیلے آسمان اور سفید بادلوں کو دیکھ رہا تھا۔
بزنس کلاس کے کیبن میں دس بارہ مرد اور خواتین خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ اتنی دیر میں جہاز کا برسر میرے پاس آیا۔ تمیز سے کہنے لگا کہ کیا آپ کا بورڈنگ کارڈ دیکھ سکتا ہوں۔ بزنس کلاس کا کارڈدیکھا اور شکریہ اداکرکے واپس چلا گیا۔ غور سے ادھر ادھر دیکھا تو محسوس ہوا کہ میں واحد دیسی آدمی یہاں موجود ہوں۔ باقی تمام مرد اور عورتیں سفید فام ہیں۔ برسر نے کسی بھی گورے یا گوری کا بورڈنگ پاس چیک نہیں کیا۔ ایسے لگا کہ میرا کارڈ صرف اس لیے دیکھا گیا کہ میں گورا نہیں ہوں۔ سوچ کر، سیٹ کے اوپر لگی ہوئی بیل دی۔
فضائی میزبان کو بلایا۔ ایئرہوسٹس آئی تو اسے کہاکہ برسر کو ذرا بلا لیجیے۔ خیر دو چار منٹ بعد برسر آ گیا۔ سوال کیاکہ آپ نے بزنس کلاس کے کیبن میں صرف میرا کارڈ چیک کیا؟ جواب ملا، یہ تو میری ڈیوٹی ہے۔ میں نے پوچھا، اگر یہ آپ کی ڈیوٹی ہے تو باقی مسافروں کے بورڈنگ پاس چیک کیوں نہیں کیے، میرے ساتھ امتیازی سلوک اس لیے کیا گیا کہ میری چمڑی گوری نہیں ہے؟ برسر کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا۔
ہر ہوائی جہاز میں ایک کمپلینٹ بک ہوتی ہے جس میں مسافر فضائی میزبانوں اور عملے کے متعلق اپنی شکایت لکھ سکتا ہے۔ برسر کو کہا کہ ذرا کمپلینٹ بک لے آئیے۔ یہ تورنگ اور نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک ہے۔ اور یہ کسی بھی انسان کے لیے نامناسب رویہ ہے۔ خیر کتاب دے کر برسر غائب ہوگیا۔ سوچ ہی رہا تھا کہ کیا لکھوں، ایک پختہ عمر کا انسان میرے پاس آ گیا۔ تعارف کروایا کہ جہاز کا کپتان ہوں۔ بات کرنا چاہتا ہوں۔ بڑی شائستگی سے کہنے لگا۔ کہ برسر نے بہت بڑی غلطی کر دی ہے۔ اور تمام عملہ اس کی حرکت پر شرمندہ ہے۔
اگر شکایتوں کی کتاب میں اس کے خلاف یہ لکھ دیا کہ اس نے جلد اور نسل کی بنیاد پر آپ کے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہے۔ تونہ صرف اس کی نوکری ختم ہو جائے گی بلکہ اسے پورے ملک یعنی سویڈن میں کسی بھی جگہ نوکری ملنا ناممکن ہو جائے گا۔ باقی فیصلہ آپ کا ہے۔ کہ کمپیلنٹ بک پر کیا لکھنا ہے۔
دس پندرہ منٹ سوچنے کے بعد فضائی میزبان کو بلایا۔ اور کچھ بھی لکھے بغیر کتاب واپس کردی۔ برسر، تقریباً بھاگتا ہوا میرے پاس آیا۔ اور بار بار شکریہ ادا کرنے لگا۔ خیر میں نے اسے بتا دیا کہ آئندہ کسی بھی غیر ملکی جو سفید فام نہ ہو۔ اس سے ناروا سلوک نہ کرے۔ بات ختم ہوگئی۔
اسٹاک ہوم پہنچا۔ دس پندرہ دن بعد لاہور واپس آیا۔ تو گھر پر اس فضائی کمپنی کی طرف سے ایک خط پڑا ملا جس میں لکھا تھا۔ کہ وہ مہذبانہ رویے سے حد درجہ متاثرہوئی ہے۔ اور اگر میں اس ائر لائنز پر سفر کرنا چاہوں تو مجھے ایک مفت ٹکٹ مل سکتا ہے۔
میں نے یہ آفر شکریہ کے ساتھ واپس کر دی۔ واقعہ کو مکمل طور پر بھول گیا۔ مگر چار ماہ پہلے ایک مقامی ایئر لائنز میں کراچی جانے کااتفاق ہوا۔ جس مجبوری کے تحت عملہ، جعلی خدمتگار ہونے کا حق ادا کر رہا تھا۔ وہ واقعی عجیب سا تھا۔ ان کی کوشش تھی کہ فلائٹ ختم ہو، اور وہ مسافروں سے اپنی جان چھڑائیں۔ اگر آپ نے پانی کا گلاس مانگ لیا، تو عملہ کی کوشش تھی کہ فرما دیں کہ جناب تیس منٹ انتظار کرنا پڑے گا۔
کیونکہ فضائی میزبان حد درجہ مصروف ہیں۔ خیر اس پر حیرت یافکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہمارا اجتماعی رویہ، ذاتی رویہ، بلکہ قومی رویہ ہرگز ہرگز انسان دوست نہیں ہے۔ اور سچ یہ بھی ہے کہ ہمیں ترش رویوں کی اتنی عادت ہو چکی ہے کہ ہر جگہ، ہرمقام پر اسے اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ وثوق سے عرض کروں گا کہ ا کثریت، ایک دوسرے کی دل آزاری کرنا فخر کی بات سمجھتے ہیں۔ خوش اخلاقی سے بات کرنا تو خیر شجر ممنوعہ ہے۔
ہماری پہچان ہی بدتمیزی اور بداخلاقی ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ عوام کی واضح اکثریت کو اتنا دبا کر رکھا گیا ہے۔ کہ نہ تو انھیں اپنے انسانی حقوق کااندازہ ہے اور نہ ہی کوئی حکومتی یا ریاستی ادارہ، ان حقوق کی پاسداری کرنے کو تیار ہے۔ نتیجہ میں عوام کی اکثریت تلخ ہو چکی ہے۔ اگر آپ نے پاسپورٹ بنوانا ہے۔ اور آپ کی کوئی سفارش نہیں ہے۔ تو یقین فرمائیے کہ دو چار گھنٹوں میں آپ کے ساتھ مکمل حیوانی سلوک کیا جائے گا۔
لوگوں کا ہجوم، قطار کی غیر موجودگی، ٹاؤٹوں کی یلغار، ان گنت انسانی ہاتھ جو ایک کھڑکی طرف اٹھے ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ عام آدمی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کسی سرکاری ادارہ یا دفترمیں چلے جائیے۔ سب سے پہلے باور کروایا جائے گا کہ آپ انسانی سطح سے نیچے کے لوگ ہیں۔ ہمارے جیسے ملکوں کا کمال یہ ہے کہ ہماری حکومتوں اور اداروں نے انسانوں کو ہر شائستگی اور حقوق سے ایک نظام کے تحت مبرا کر دیا ہے۔
کسی پاکستانی کو یقین نہیں کہ وہ کسی سرکاری دفتر سے اپنا جائز کام کروا سکتا ہے مثلاً، پولیس کا محکمہ عام آدمی کی حفاظت کے لیے بنا ہے۔ مگر کیاوہ کسی کو بھی تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ کیا تھانوں میں تشدد کا استعمال معمول نہیں ہے۔
کیا ہماری جیلوں کے پھاٹک روزانہ کی بنیاد پر نیلام نہیں ہوتے۔ دراصل ملاقاتیوں کو اتنا ذلیل کیا جاتا ہے کہ وہ جیل کے عملہ کو پیسے دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسے پھاٹک پر وصول کیا جاتا ہے۔ بڑی جیلوں میں یہ رقم روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں میں چلی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ سات دہائیوں سے قائم و دائم ہے۔
دراصل ملک بنانے کے بنیادی محرکات پرغور فرمائیں۔ تو ایسے لگتا ہے کہ جو دعوے، ایک آزاد قوم کی تشکیل کے لیے کیے گئے تھے، قائداعظم کی وفات کے بعد ان پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ کسی سیاسی یا غیر سیاسی حکومت نے عوام کو انسان نہیں سمجھا۔ ان کے حقوق کی حفاظت کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ یہ سلسلہ کسی ایک حکومت کی کہانی نہیں ہے۔
یہ حکومتی جبر، انتہائی مقدس لباس میں مسلسل جاری ہے۔ اب توخیر یہ معاملہ عوام سے نکل کر خواص تک جا چکا ہے۔ ادارے اور سیاستدان ایک دوسرے سے الجھ چکے ہیں۔ ادارے آپس میں اس طرح دست و گریبان ہیں کہ عوام کی فکرمعنی نہیں رکھتی۔
کیا یہ قیامت نہیں ہے کہ گزشتہ ایک سال سے ملک میں ایک بھی کارخانے کا اضافہ نہیں ہوا۔ کیا موجودہ حکومت نے عوام کی سہولت کے لیے کوئی منظم قدم اٹھایا ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پوری توجہ، اپنے سیاسی حریفوں کو ذلیل و رسوا کرنے کی ہے۔ بلکہ اب تو یہ خواہش مخالفین کی زندگی ختم کرنے تک جا پہنچی ہے۔
سیاسی دشمنی اب ذاتی دشمنی ہے۔ اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھاوا آئے گا۔ ابھی تو عوام کے لیے ذلتوں کا دریا ہے۔ دیکھتے رہیے۔ تھوڑی دیر بعد، عام لوگوں کے لیے ذلتوں کا سمندر سامنے آ جائے گا۔ جو اس میں ڈبکی نہیں لگائے گا۔ یا کسی بھی سطح پر کہے گا کہ یہ نا انصافی ہے، اسے ملک دشمن، غدار، دہشت گرد اور شرپسند ثابت کیا جائے گا۔ اور یہ حربہ اور حکمت عملی کامیاب بھی ہوگی۔ دراصل انسان حقوق کی پاسداری تو دور کی بات، غریب عوام کو اب انسان سے نچلی کوئی مخلوق کا درجہ دے دیا گیا ہے، کسی کا کوئی والی وارث نہیں۔ حکومتیں اور ادارے، اب صرف جائز یا ناجائز پیسہ کما کر، عوام کو برباد کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار نظر آتے ہیں۔
موجودہ پسماندگی کی کس سے شکایت کریں اور کیسے کریں۔ ہمارے ملک میں تو شکایت کرنا بھی عبث ہے۔ دراصل، یہاں کوئی کمپیلنٹ بک ہے ہی نہیں۔ لہٰذا سانس لینی ہے تو اپنے آپ کو ذلتوں کا عادی بنائیے۔ شائد زندگی کا سفر کسی بڑی مشکل کے بغیر کٹ ہی جائے؟