Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Corruption Banam Ahliat

    Corruption Banam Ahliat

    چندرگپت موریاکا دربارلگاہوا تھا۔ شہنشاہ بڑھتی ہوئی کرپشن پر پریشان تھا۔ کسی درباری کوسمجھ نہیں آرہی تھی کہ چندرگپت کوکیاصلاح دے۔ خاموشی کو اس کے خاص وزیرنے توڑا۔"انسان کی جبلت میں عدم استحکام ہے۔ وہ زندگی بھر یکساں رویہ اپنائے نہیں رکھ سکتا"۔ اس وزیرکو چانکیاکے نام سے جاناجاتا ہے، یہ چندرگپت کااطالیق بھی تھا۔ وزیر کا بیان جاری رہا۔

    "سرکاری عمال اورکرپشن بالکل ایسے ہی ہیں، جیسے مچھلی اورپانی۔ جیسے مچھلی کوپانی پینے سے کوئی نہیں روک سکتا، اسی طرح حکومتی اہلکاروں کی کرپشن کوختم نہیں کیاجاسکتا، البتہ کم ضرور کیاجاسکتا ہے۔ ٹیکس بڑھانا، اسے وصول کرنااورکرپشن نہ کرنا، سرکاری عمال کے لیے ایسے ہی ہے، جیسے انسانی زبان پر شہدکاقطرہ رکھ دیاجائے، پھرکہاجائے کہ اسے چکھنا نہیں ہے۔ وزیرنے آخرمیں کرپشن کم کرنے کا نظام بھی بتایا۔ جو چانکیاکی کتاب آرتھ شاستر میں درج ہے۔

    انسانی تاریخ جتنی پرانی ہے، اتنی ہی کرپشن کی بھی ہے۔ دنیاکی کوئی سلطنت یا تہذیب ایسی نہیں ہے جوکرپشن پاک رہی ہو، البتہ کرپشن کا گراف کم ضرور کیا جاسکتاہے جیسے سویڈن، ناروے وغیرہ۔ مگر برصغیر میں اس پرقابوپانا اَزحدمشکل ہے۔ پاکستان میں حکومتی مشینری کے اختیارات کودیکھیے تو پسینہ آجاتا ہے۔ اس کے برعکس ان کی تنخواہ کی طرف نظر دوڑائیں توزیادہ پسینہ آجاتاہے۔

    مطلب بالکل یہ نہیں کہ کرپشن کی بیخ کنی نہ کی جائے۔ بالکل کرنی چاہیے۔ مگر اس کا یہ مقصدبھی نہیں کہ کارِسرکارکوہی داؤ پرلگا دیا جائے۔ الیکشن سے پہلے کرپشن کرپشن کے دیو کو پابندِسلاسل کرنے کی وہ چیخ وپکارہوئی کہ سرکاری عمال گھبراگئے۔ جب عمران خان حکومت میں آیا تو ہرطرف احتساب کاوہ غلغلہ مچا۔ افسروں نے جان بچانے کے لیے کام کرناچھوڑدیا۔ حکومتی مشینری خاموش ہوگئی۔

    افسروں میں عدم تحفظ اتنابڑھ چکاہے کہ کوئی بھی جائزکام کرنے کے لیے بھی تیارنہیں ہے۔ خان صاحب نے ماضی کے ہرحکمران کی طرح افسروں کو Carrot and Stick کی پالیسی کے ذریعے قابوکرنے کی کوشش کی مگر کافی حد تک ناکامی ہوئی۔ ثبوت یہ کہ پاکستان میں 2020 میں جمع کیے جانے والاٹیکس پچھلے برسوں سے شرمناک حدتک کم ہے۔

    پورے ملک میں گورننس اپنا مقصد کھو چکی ہے۔ قطعاًیہ عرض نہیں کررہاکہ کرپشن کوختم کرنے کی صائب کوششیں نہیں کرنی چاہییں۔ بالکل کرنی چاہییں۔ مگرتوازن کا دامن چھوڑنا غیردانشمندی ہے۔ ہمارے ساتھ اس وقت بالکل یہی ہورہاہے۔ اہلیت کو نظر انداز کرکے ہوامیں ایمانداری کے قلعے بنانے کا صرف ایک نتیجہ نکلاہے۔ کرپشن ہرسطح پرپہلے سے بڑھ چکی ہے اوراسکے دام بھی دگنے سے چوگنے ہوچکے ہیں۔

    اہلیت کے لفظ پرغورکرنااَزحدضروری ہے۔ کرپشن کوکم کرنااوراہلیت کوآگے لاناآسان کام نہیں ہے۔ ان دونوں انسانی رویوں میں توازن لاناجوئے شیرلانے کے برابرہے۔ ہماراہرحکمران اس میں عدم توازن کا شکاررہاہے۔ کوئی اہلیت کوسامنے لاتاہو اپابند ِسلاسل ہوگیا۔ توکوئی کرپشن میں خاتمہ کے نام پرتاریخ کی گرد میں گم ہوا۔ اصل مسئلہ ان دونوں کوترازوکے پلڑوں کی طرح رکھناہے تاکہ اس سماج کااخلاقی اورانتظامی وزن کیاجاسکے۔ ایک اوراَمربھی حددرجہ اہم ہے۔ کیا ہم ٹھنڈے دل سے اپنااوراردگردکے ملکوں کے حالات کاجائزہ لینے کی استطاعت رکھتے ہیں۔

    یہ بھی حددرجہ مشکل صورتحال ہے۔ کیونکہ ہمیں شدت پسندی کے زہرمیں نہلادیاگیاہے جس نے ہماری عقل اور شعور کے تمام کھلے راستے بندکردیے ہیں۔ پھر بھی کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اپنے ملک کا موازنہ امریکا، ساؤتھ کوریا، جاپان سے کرنابیوقوفی اور حماقت ہے۔ لہٰذالے دیکردنیامیں دوتین ممالک ہی ایسے ہیں جن کامعروضی موازنہ کرنادلیل کے نزدیک ہے۔

    ہندوستان، بنگلہ دیش اورشائدافغانستان۔ بنگلہ دیش میں ترقی کی شرح گزشتہ دس سالوں میں چھ سے آٹھ فیصدتک چل رہی ہے۔ مگرکرپشن پر سپشن انڈکس کے مطابق بنگلہ دیش دنیاکے کرپٹ ترین ممالک میں شامل ہے۔ 180ممالک میں سے 146 نمبرپرہے۔ ہرسو میں سے بہتر 72لوگوں نے برملاکہا ہے کہ اپناکام کرانے کے لیے رشوت دی ہے۔ کیا ہمارے لیے یہ بات عجیب نہیں ہے کہ اس ملک میں کرپشن ہم سے زیادہ ہے۔ مگران کی ترقی کی شرح اتنی ہے جس کا تصورکرنا ہمارے لیے ناممکن نظر آتا ہے۔

    کرپشن پرسپشن انڈکس کے ہی حوالے سے پاکستان 180 ملکوں میں سے120نمبرپرہے۔ یعنی کرپشن میں بنگلہ دیش سے بہترہونے کے باوجودترقی کے میدان میں حددرجہ پسماندہ ہیں۔ یہ وہ سنجیدہ ترین سوال ہے جس پرموجودہ حکومت کوسوچناچاہیے۔

    ہندوستان میں بھی کرپشن کا راج ہے۔ گلوبل کرپشن پرسپشن کے مطابق بیس ہزار لوگوں کو انٹرویو کیا گیا۔ 74فیصدلوگوں نے اقرارکیاکہ رشوت دیکراپناکام کراتے ہیں۔ اس بیرومیٹر کے مطابق جنوبی ایشیاء میں ہندوستان، سب سے کرپٹ ملک ہے۔ اگرصرف ہمارے موجودہ بیانیے کے حساب سے فیصلہ کریں تو ہندوستان کوتوبالکل مفلوک الحالی اور پسماندہ ترین ہوناچاہیے۔ مگر اس کی شرح ترقی گزشتہ دس برسوں میں چھ سے آٹھ فیصدکے درمیان رہی ہے۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر500بلین ڈالرسے بھی اوپرہیں۔

    کسی بھی تعصب کے بغیریہ کہنابالکل جائزہے کہ صرف کرپشن کے ڈھول بجانے سے ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ بنگلہ دیش اورہندوستان اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ ویسے ترقی کی ایک شرح ایسی بھی ہے جسے پڑھ کرذہن ماؤف ہو چکا ہے۔ وہ افغانستان کی مثال ہے۔ افغانستان کرپشن کے حوالے سے صف اول کے ممالک میں ہے۔ مگروہ بھی تین سے چارفیصدکے حساب سے ترقی کی شاہراہ پرگامزن ہے۔ درست ہے کہ کورونا نے ان تمام ممالک کی ترقی پرمنفی اثر ڈالا ہے۔ مگران کی معیشت آج ہم سے قدرے بہترہے۔

    خودبتائیے کہ ہمسایہ ممالک میں کرپشن ہم سے زیادہ ہے پھربھی ہم سے زیادہ کیوں ترقی کررہے ہیں۔ مطلب یہ بھی ہے کہ صرف کرپشن کاہوناہی ملک کی ترقی کے لیے زہرِقاتل نہیں ہے۔ جناب یہاں سے سوال کادوسراجزوشروع ہوتا ہے کہ پھر کونسا ایسا عنصرہے جس سے یہ ممالک آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ صرف اورصرف ایک ہے۔ اہلیت۔ یعنی تمام مسائل کے باوجود ہندوستان، بنگلہ دیش یہ کوشش کررہے ہیں کہ اپنے نظام میں اہلیت کوترویج دیں۔ نجی اورحکومتی شعبوں میں وہ قابل لوگوں پرانحصاربڑھاچکے ہیں۔ ہندوستان کانجی شعبہ، بالکل چین کی طرح پوری دنیاکے لیے پیداواری صلاحیت کاحامل ہوچکا ہے۔

    کوروناکی وباء میں وہاں کی فارماانڈسٹری کوروناکی دوائی بنانے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ بالکل اسی طرح بنگلہ دیش اپنی تمام ترکرپشن کے باوجوددنیاکابہترین گارمنٹس ہاؤس بن چکا ہے۔ امریکا میں اچھے برینڈکی کوئی قمیض اُٹھاکر دیکھیے۔ میڈان بنگلہ دیش نظرآئے گی۔ اورتواورافغانستان پاکستان سے زیادہ سنجیدہ نظرآتاہے۔ کیایہ اشارہ نہیں کہ صرف اورصرف کرپشن پرقابوپانے کے بیانیے سے ترقی کے قافلے میں دوبارہ شمولیت ناممکن ہے۔

    موجودہ صورتحال اَزحدسنجیدہ اقدامات کی متلاشی ہے۔ صرف بیانات کی بدولت ہم ایک فیصد یا شائد منفی گروتھ کے کنویں میں گرچکے ہیں۔ طالبعلم کاخیال ہے کہ ہمارے لیے مہلت کی گنجائش نہیں ہے۔ اگرہم نے آج بھی روایتی جعلسازی سے کام لیا، توشائدمعاملات اَزحد خطرناک رخ اختیارکریں گے۔ فیصلے کرنے میں تاخیرسے ہم اپناسب کچھ داؤپرلگاچکے ہیں۔

    احتیاط لازم ہے، حددرجہ احتیاط۔ کرپشن کے بیانیہ سے اوپراُٹھ کر اہلیت کے بیانیے پرعمل کرنے سے شائد حالات بہتری کی طرف گامزن ہوجائیں۔ مگرمجھے اب اس کی اُمید نہیں ہے۔ پھراٹھارہ صدیاں پہلے کے مقامی فلسفی کی بات ذہن میں آتی ہے کہ حکومتی عمال اورکرپشن بالکل پانی میں تیرتی ہوئی مچھلی کی طرح ہے جوہرقیمت پرپانی پیے گی!