روشن اخترنام کاشہزادہ، برصغیرکی تاریخ کاعجیب وغریب کردارہے۔ اٹھائیس برس مسلسل حکومت کرنے والابادشاہ۔ مغلیہ تخت پر1719میں براجمان ہوا، تو ناصرالدین محمدشاہ کالقب اختیارکیا۔
بچپن میں قیدمیں رہنے کے باعث ذہن میں انتہائی مشکل تبدیلی آچکی تھی۔ بہت حدتک منفی۔ کال کوٹھڑی سے نکال کرجب سیدبرادرزنے دہلی کے تخت پربٹھادیاتوحکومت چلانے کاکوئی تجربہ نہیں تھا۔ مگربادشاہت میں حکمران کانقص نکالنااپنی گردن گنوانے کے برابرتھا۔ ویسے آج بھی یہی بہیمانہ اُصول ہے۔
فرق صرف یہ ہے کہ اسکوکم ازکم مسلم دنیامیں تسلیم نہیں کیاجاتا۔ سترہ سال کی عمرمیں حکومت کا"مائی باپ"بننے کے بعدمحمدشاہ مکمل طورپرذہنی بدقماشی کاشکارہوگیا۔ ذراسوچیے کہ وہ کرتاکیاتھا۔ بادشاہ ہروقت انتہائی خوبصورت عورتوں کے ہجوم میں رہتا تھا۔ جب محل سے دربارمیں آتاتھاتویہ خواتین اس کے ہمراہ ہوتی تھیں۔ کچھ خواتین کوتخت پرلٹاکران کے اوپربیٹھ جاتاتھااوراُمورِسلطنت انجام دیتاتھا۔ ایک دن محمدشاہ نے داروغہ زنداں کوبلایااورحکم دیاکہ تمام قیدیوں کورہا کر دیاجائے۔ دہلی کے قیدخانے میں تین سوقیدی تھے۔ جو بھیانک جرائم میں ملوث تھے۔
داروغہ ہکابکارہ گیا۔ اس کی جرات نہیں تھی کہ بادشاہ کے سامنے بات کرسکتا۔ لہٰذا حکم کی تعمیل ہوئی۔ قیدخانہ مکمل طورپرخالی ہوگیا۔ گزشتہ روز، بادشاہ نے داروغہ کوبلایاکہ کتنے قیدی آزادکیے ہیں۔ جواب تھاکہ تین سو۔ بادشاہ کاحکم ملاحظہ فرمائیے۔ ایسے کرودہلی کے بازاروں میں جاؤاورتین سوآدمی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دو۔ جوپہلے ملے، اسکو پکڑلو۔ چنانچہ یہی ہوا۔
عمال نے دہلی کے بازاروں سے تین سوبے گناہ لوگوں کوپکڑااورپابندِسلاسل کردیا۔ یہ تمام بے قصورلوگ عرصہ درازتک کال کوٹھٹری میں گلتے سڑتے رہے۔ نادرشاہ یہی کرتاتھا۔ تھوڑے عرصے کے بعد، پرانے تمام قیدی آزادکردیتاتھااورنئے بے گناہ شہری قیدکردیے جاتے تھے۔ خیال صرف یہ کیا جاتا تھاکہ تعدادوہی رہے۔ ویسے ہمارے ملک میں آج بھی تقریباًیہی اُصول ہے۔
ایک دن ایک چہیتی کنیزنے نادرشاہ کوکہاکہ آپ شہنشاہ ہندضرورہیں، توکیاآپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ بادشاہ جوکہ حالتِ نشہ میں تھا۔ گرجدارطریقے سے بولا کہ ہاں کیوں نہیں۔ کنیزنے کہاکہ دیکھتے ہیں۔ ایسا کیجیے کہ آپ اپنے گھوڑے کووزیرمقررکردیں۔ بادشاہ نے فوری طورپراپناگھوڑامنگوایااورفرمان جاری کیاکہ آج سے یہ وزیرہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ گھوڑاشاہی خلعت میں ملبوس دربارمیں تمام وزراء کے ساتھ موجودرہتاتھا۔ بادشاہ اکثراوقات دربارمیں عمائدین کے سامنے برہنہ ہوجاتاتھا۔ حکم تھا کہ بادشاہ کے ساتھ ساتھ تمام درباری بھی کپڑے اُتار دیں۔ اسی طرح ہوتاتھاتمام درباری برہنہ ہوکرکھڑے ہوجاتے تھے۔
یہ عام لوگ نہیں تھے۔ یہ وہ ستون تھے جن پرسلطنت چل رہی تھی۔ تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ بادشاہ کاہرحکم ماننے والوں میں تمام مذہبی اکابرین بھی شامل تھے۔ یعنی بادشاہ کی حکم عدولی کرنے کے لیے کوئی بھی تیارنہیں تھا۔ اپنی نوکری، مراعات، رعب ودبدبہ کے لیے وہ سب کچھ کرنے کے لیے تیارتھے۔ سب کچھ۔ بادشاہ نے ایک ایساشاہی فرمان بھی جاری کیاتھاجسکے مطابق برصغیرکی تمام خوبصورت عورتیں بادشاہ کی"امانت"تھیں۔ اگرکوئی اس امانت میں خیانت کاارتکاب کریگا، تواس کی گردن زنی کردی جائے گی۔ سرکاری حکم پرمن وعن عمل ہوا۔ یہ بادشاہ کوئی دوچارسال کے لیے برصغیرپرحکومت نہیں کرتارہا۔ اس کی بادشاہت کادورانیہ اٹھائیس برس تھا۔ ان تقریباًتین دہائیوں میں برصغیرکے عوام کے ساتھ جونارواسلوک رکھاگیا، اسکوبیان کرناحددرجہ مشکل ہے۔
حالات، واقعات کی سختی دیکھ کرمجبورہوچکاہوں کہ اپنے ملک کے گزشتہ تہتربرس کواسی زاویہ سے دیکھوں جومحمدشاہ رنگیلاکے عرصہِ حکومت میں موجود تھا۔ سوچیے۔ ہمارے ملک میں کیااب شاہی دربارختم ہوچکے ہیں۔ جی نہیں۔ یہاں ہرادارے کااپنااپنادربار ہے۔ مخصوص درباری ہیں۔ اس ادارے کاحکمران جومرضی لغوحرکتیں کرے۔ واہ واہ کرنے والے طبلچی نمادرباری وافرتعدادمیں ہردم موجودہیں۔ سیاسی منظر نامہ پر نظر ڈالیے۔ موجودہ حالات میں ہمارے ملک میں تین یاچاربڑے رعب ودبدبے والے سیاسی دربار موجود ہیں۔
پنجاب کااپناسیاسی قبلہ ہے۔ سندھ کاسیاسی مرقد کوئی اورہے۔ اوروفاق کسی اوردربارسے منسلک ہے۔ ویسے اب اس ملک میں سیاست کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ سچ یہ بھی ہے کہ برصغیرمیں کبھی بھی عوامی فلاح کے لیے کوئی حکمران تگ ودونہیں کرتا۔ ہماری ذہنیپسماندگی کا اندازہ لگائیے۔ اگست 1947کوجب ہماراملک وجود میں آیاتھااوراس کے ساتھ ساتھ چودہ لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتاراجارہاتھا، یعنی وسطی پنجاب خون میں نہارہاتھا۔ عین اسی دم، گورنرہاؤس لاہورمیں ایک بہت بڑی محفل ناؤنوش منعقدہورہی تھی۔ آزادی کی خوشی کاسماں تھا۔ یہ سرکاری جشن تھا۔
یہ جشن پنجاب کے انگریزگورنرایون جینکنز(Evan Jenkins) نے برپاکررکھی تھی۔ شمولیت کرنے والوں میں کثیر تعداد میں مقامی لوگ تھے۔ یہ مرحلہ آج بھی اسی طرح قائم ودائم ہے۔ صرف اندازبدل گیاہے۔ عوام کی حالت نہ پہلے ٹھیک تھی اورنہ اب بہترہے۔ نعرے ہی نعرے ہیں۔ اور منافقت ہی منافقت ہے۔ پنجاب میں پنتیس برس ایک ہی خاندان کی شخصی حکومت رہی۔ یہ کاروباری لوگ تھے۔
اس خاندان کاحکومتی ماڈل مکمل طورپرذاتیات پرمبنی تھا۔ اس میں عوام کی ترقی کاصرف نمائشی عنصرشامل تھا۔ 1985سے ہی ان لوگوں نے تندہی سے اپنے اندازِفکر کوبڑھاوادیا۔ سب سے پہلے اس خاندان نے چند سرکاری ملازمین کومنتخب کیااورانھیں اپنے کام میں شریک کرلیا۔ ہرطرف ہن برسنے لگا۔ چیدہ چیدہ سرکاری عمال کے ذریعے سے انھوں نے ذاتی قرابت داری کا ایک مکمل جال ترتیب دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہرضلع یا تحصیل میں ایسے سیاسی لوگوں کوقریب کیاجو بھرپور طریقے کے درباری تھے۔
ان لوگوں کوقربت کی وجہ سے اہمیت دی گئی۔ انھیں دولت کے گنگاجل میں ڈبکیاں لگانے کا بھرپورموقعہ دیا۔ نتیجہ یہ ہواکہ پورے پنجاب میں ایک نئی اشرافیہ کاجنم ہوا۔ بالکل انھی خطوط پرہرشعبہ زندگی کے اہم لوگوں کوچن چن کرنوازاگیا۔ ان میں اہل علم، اہل دانش یعنی ہرقبیل کے لوگ شامل تھے۔ جعلی اشرافیہ کے ذریعے، اس خاندان نے پورے ملک کی سیاست تبدیل کردی۔ جولوگ گزشتہ تیس برس میں زمین سے آسمان تک پہنچ گئے ان کی بقااسی میں ہے کہ اس خانوادے کے ساتھ چپکے رہیں۔ ہرضلع یاتحصیل میں ان کے "ادنیٰ خادم" موجودہیں۔ یہ روزمیڈیاکے ذریعے جمہوریت پسندی کادرس دیتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ آج سے تین دہائیاں پہلے وہ کیاتھے۔ کوئی سائیکل پرتھااورکوئی پیدل۔ اب ماشاء اللہ ان کی اکثریت کم ازکم ارب پتی ہے۔
سندھ کے حالات بھی مکمل طورپریہی ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹوکے علاوہ پورے بھٹوخاندان میں ایمانداری کے متعلق کوئی سندموجودنہیں ہے۔ محترمہ بینظیرتک توکسی نہ کسی طریقے سے بھرم رکھاگیا تھا۔ مگر اب گزشتہ تیرہ برس میں سندھ کومحمدشاہ رنگیلے کے دربار کی طرح کابنادیاگیا۔ سندھ میں رشوت شاہی، بے ایمانی، کرپشن کوجعلی سیاسی شعبدہ بازی سے چھپانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ مگریہ بے سود ہے۔ آل زردارکی نگرانی میں وزراء، سرکاری عمال، میڈیا ہاؤسز، چیدہ چیدہ لوگوں کاوہ گروہ تشکیل دیاگیا ہے۔
جوآج بھی روزانہ کی بنیادپردیہاڑی لگارہا ہے۔ سندھ میں کسی قسم کی کوئی فلاحی حکومت نہیں ہے، اورنہ ہوگی۔ اب تحریک انصاف کے انتخابی اعلانات کی طرف آتاہوں۔ عمران خان نے جو نعرے دیے تھے، مڈل کلاس کے دل کی آوازتھی۔ آج تک ایک بھی انتخابی اعلان کوپایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا گیا۔ پنجاب کومرکزسے کنٹرول کرنے کا اتناادنیٰ عمل شروع کیاگیاجس سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی انتظامی چولیں ہل گئیں۔ یہ حکومت بھی اب ناکامی کی طرف سفرکررہی ہے۔
کے پی اوربلوچستان کے حالات نہیں جانتا۔ اس لیے ذکرنہیں کیا۔ مگروہ بھی اس ملک کاحصہ ہیں۔ پنجاب اورسندھ سے کیا بہتر ہونگے۔ جوہری نکتہ یہی ہے کہ اس خطے میں ہزاروں سالوں سے کبھی فلاحی حکومت پنپ نہیں سکی۔ ہر حکمران اندرسے محمدشاہ رنگیلاہی ہے۔ صرف باہرکا چولہ مختلف ہے۔ عوام کاکیاہے۔ یہ لوگ آج سے تین سوسال پہلے بھی کمزور اورلاغر تھے اورآج بھی یہی حال ہے۔ شاہی دربارکے رواج پہلے بھی وہی تھے اورآج بھی وہی ہیں۔ صرف نظرکادھوکا ہے!