فرانس کابادشاہ چودھواں لوئی(Louis XIV)پیرس میں شاہی کمرے میں حددرجہ پریشانی کے عالم میں بیٹھاہواتھا۔ بظاہراس کی حکومت حددرجہ مضبوط اورطاقتورتھی۔ مگرلوئی کو اس کے ہرکارے باربار مطلع کررہے تھے کہ بادشاہ کے اقتدارکے خلاف مسلسل سازش ہورہی ہے۔ یہ کوئی عام آدمی نہیں، بلکہ لوئی کے اپنے درباری مصاحبین تھے جواس کے خلاف ہروقت ریشہ دوانیوں میں مصروف کارتھے۔ بادشاہ ہر طریقے سے بے بس ہوتاجارہاتھا۔ کئی بار لگتا تھا کہ اس کااقتدارایک دم ختم ہوجائیگا۔
یہ انقلاب فرانس سے تقریباًایک صدی پہلے کاقصہ ہے۔ ویسے بادشاہ عوامی انقلاب کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔ درباری سازشوں سے بچنے کے لیے لوئی نے ایک حیرت انگیزفیصلہ کیا۔ پیرس سے بارہ میل دور، اس کے آباؤاجدادنے شکارگاہ کے نزدیک ایک ہٹ بنوائی ہوئی تھی۔ شکارکے دوران تمام شاہی خاندان وہاں آرام کرتاتھا۔ لوئی نے وہاں دنیاکاسب سے بڑامحل بنوانے کافیصلہ کیا۔ جسے پیلس آف ورسائلز کہا جاتا ہے۔ اس کے دومقصدتھے۔ ایک تو بادشاہ، عوام کی نظرسے تھوڑاسادوررہیگا۔ اسطرح عام لوگوں کواس کے شاہانہ رہن سہن کے متعلق معلومات نہیں ہوں گی۔
دوسرانکتہ حددرجہ سیاسی تھا۔ درباری اوران کے تمام اہل خانہ اس محل میں بادشاہ کے ساتھ رہینگے۔ اسے علم تھاکہ اپنے دوستوں کوتونزدیک رکھناچاہیے مگراپنے دشمنوں کو مزید نزدیک تررکھناچاہیے۔ لوئی کاخیال تھاکہ درباریوں کی اکثریت اس کی نظروں کے سامنے رہیگی، توان کی منفی حرکات کو جانچنے اورانھیں ناکام بنانے کابروقت انتظام ہوتا رہیگا۔ چنانچہ بادشاہ نے شاہی خزانے کے تمام وسائل، دنیاکے مہنگے ترین محل بنانے کے لیے مختص کر دیے۔ یہ 1661 کا زمانہ تھا۔
دنیاکے بہترین آرکیٹکٹ Robert decotta، Jules Mansartوغیرہ کی خدمات لی گئیں۔ باغات بنانے کے لیے نامور آرٹسٹ Andrea Notreکی صلاحیتوں کو مستعار لیا گیا۔ تین سے چاردہائیوں کی محنت کے بعددنیاکی وہ شاہانہ عمارت سامنے آئی، جسے دیکھ کر دیگربادشاہ بھی ورطہ حیرت میں ڈوب جاتے تھے۔ بتیس سوکمروں پریہ مشتمل محل آج بھی دنیاکی قیمتی اورخوبصورت ترین عمارت ہے۔ بادشاہ لوئیXIV شاہانہ کروفرکے ساتھ محل میں درباریوں سمیت منتقل ہوگیا۔ شاہی خاندان کے علاوہ دس ہزاردرباری بھی اب شاہی قافلہ میں ہردم شامل تھے۔ لوئی نے انکو شکار، بہترین شراب اورعیش وعشرت پر لگا دیا تھا۔ اب ہروقت عیاشی درعیاشی کاسماں تھا۔
مگربادشاہ ایک چیزبھول چکاتھا۔ اس شاہانہ زندگی اوران ہزاروں درباریوں کے لیے اخراجات کہاں سے آئینگے۔ لوئی نے وہی کمزورفیصلہ کیا جو ہمارے حکمران آئے روزکرتے ہیں۔ لوگوں پر مزید ٹیکس لگادیا گیا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، روزمرہ کی تکالیف سے عوام پریشان ہوچکے تھے۔ انھیں پتہ چلتا رہتا تھا کہ بادشاہ اوراس کے درباری کس شاہانہ اندازسے ان کے پیسوں پرپل رہے ہیں۔
یہ نفرت کالاواتھاجوآہستہ آہستہ پک رہا تھا۔ مگر خونی انقلاب ابھی کافی دور تھا۔ اس زمانے میں ذرایع ابلاغ نہ ہونے کے برابر تھے۔ مگرچندسرپھرے لوگ بادشاہ اوردرباریوں کی عیاشیوں کے قصے پمفلٹ کی صورت میں ہاتھ سے لکھ کرپورے ملک میں پھیلا دیتے تھے۔
عوام کی اکثریت کی صورتحال بالکل ایسی ہی ناگفتہ تھی جیسے ہمارے عام آدمی کی ہے۔ ہرطرف کرپشن اور لوٹ مارکادوردورہ تھا۔ درباری، گندم خریدکرذخیرہ کر لیتے تھے اورپھرمہنگے داموں بیچتے تھے۔ شاہی خاندان اپنے درباریوں کی کوتاہیوں کی طرف نظراُٹھاکربھی نہیں دیکھتا تھا۔ حالات بگڑتے گئے۔ لوگ دانے دانے کوترسنے لگے۔ لوئی XIVکی وفات تک کچھ نہ ہوا۔ مگراس کے بعد آنے والے بادشاہ کوتھوڑاساادراک ہوا۔ اس نے شاہی اخراجات میں کمی کے لیے ایک عجیب سافیصلہ کیا۔ اصطبل میں ہزاروں گھوڑے تھے۔ بادشاہ نے نصف شاہی گھوڑے مارکیٹ میں فروخت کردیے۔
درباریوں نے اس شاہی فیصلہ پرخوب قصیدے کہے۔ بادشاہ کی دوراندیشی اورانصاف پسندی کی ہرطرف واہ واہ ہوئی۔ مگروقت کے عظیم فرانسیسی فلسفی والٹیئر نے لوگوں کوکہا، کہ شاہی اصطبل سے گھوڑے بیچنے کے بجائے، بادشاہ اگراپنے دربارسے انسانی صورت کے گدھے یعنی درباری باہرنکال دیتا، تو بہتر تھا۔ بادشاہ کویہ شکایت پہنچی تواس قدآور فلسفی کوورسائلزکے دربارمیں بلاکر پوچھا گیاکہ کیااس نے درباریوں کوگدھاکہاتھا۔
والٹیئرنے کہاکہ یہ سچ ہے۔ چنانچہ اسے محل کے تہہ خانے میں ایک سال کے لیے قیدکردیاگیا۔ مگراس دورکے لوگوں میں سے والٹیئراورروسوجیسے بڑے لوگوں کے عظیم خیالات کوختم نہ کیاجاسکا۔ یہ کہانی تقریباًایک سوسال بعد انقلاب فرانس کے نکتہ پرختم ہوئی۔ جس میں ورسائلز کے محل پرلوگوں نے دھاوابول دیا۔
لوئی XVI کا دور تھا، شاہی درباری، بادشاہ، ملکہ اوراہم ترین لوگ خون میں نہاگئے۔ وہی چند ہزارشاہی درباری عوامی غضب سے بربادہوگئے۔ قدرت کاانتقام دیکھیے کہ جس خاندان نے عوام سے پوشیدہ رہنے کے لیے محل بنوایاتھا، وہ اسی محل کی بدولت رزقِ خاک ہوگیا۔ وہ درباری جواس محل میں شاہی خزانے پرجونکوں کی طرح چمٹے ہوئے تھے، ان کا خون بھی زمین پرگرا۔ تمام درباری بھی گلاٹین کی نذر ہوگئے۔ وہ چندہزارلوگ جوفرانس کی تباہی کی اصل وجوہات میں سے ایک تھے، ان کانام ونشان ہی مٹ گیا۔ فرانس نے ان ادنیٰ لوگوں کی گردنیں کاٹنے کے بعد، دنیامیں حیرت انگیزطورپرترقی کی۔ آج یہ ایک بین الاقوامی سطح کی طاقت ہے۔ حکومت عام لوگوں کے حقوق کی محافظ بھی ہے۔ فرانس نے شاہی جونکیں ختم کرڈالیں اوریہی ان کی ترقی کی بنیادبنا۔
یقین فرمائیے۔ مجھے تین چارسوسال پہلے کے فرانس اورآج کے پاکستان میں محیرالعقول مماثلت نظر آتی ہے۔ تہترسال سے بناملک، اپنے غریب آدمی کی فلاح کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکا۔ ہم نے اپنی بے پناہ جہالت اورجذباتیت سے متعدد سیاسی شاہی خاندان پیدا کیے۔ ملک بننے سے لے کرآج تک اقتدارعوام کومنتقل نہیں ہوا۔ 1946کے الیکشن کے اُمیدواروں کو دیکھیے۔ پنجاب اورسندھ کے اندرانگریزوں کی بنائی ہوئی یونینسٹ پارٹی کے بڑے بڑے زمیندار، یک لخت مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پرجمع ہوگئے۔ وہ بھانپ چکے تھے کہ تقسیمِ ہندبالکل نزدیک ہے۔ قائداعظم مسلمانوں کے عظیم الشان قائدبنکراُبھرے تھے۔
چنانچہ انگریزوں کے پالتوؤں نے ایک دم مسلم لیگ میں شامل ہونے کو ترجیح دی۔ قائداعظم کی جلدوفات نے اصل اقتدارانھی لوگوں کو منتقل کردیا۔ ان درباریوں کاعوام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ میں انھیں اشرافیہ بھی نہیں لکھ سکتا۔ یہ موقع پرست، لالچی شعبدہ باز تھے، جواقتدارکے ساتھ چمٹا رہناچاہتے تھے۔ شایدنام لکھنے کاکوئی فائدہ نہیں۔ غلام محمد، اسکندر مرزا، ممدوٹ وغیرہ کون تھے۔ آپ خودفیصلہ کیجیے۔ صدرایوب کے برسرِاقتدارآنے کے بعد پاکستان میں صنعتی ترقی کاڈول ڈالاگیا۔ یہ ترقی عوام تک کم کم پہنچی۔ وہی بائیس خاندان ظہورپذیرہوئے جنکے پاس ملک کے اَسی فیصد وسائل تھے۔ یہ ہرگزہرگزمعمولی سانحہ نہیں ہے۔
بنیادی طورپردولت اوراقتدارعوام سے دور ہوتا گیا۔ پاکستان، صدیوں پرانے فرانس کے خطوط پر روانہ ہوتا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹوحددرجہ ذہین انسان تھا۔ عام لوگوں کے غم وغصے کوبھانپ گیاتھا۔ اس کی چندبرس کی حکومت، لوگوں کے لیے قدرے عوام دوست تھی۔ مگر بھٹو بھی مالدار اور مضبوط طبقے کے ہاتھوں مارکھا گیا۔ 1970کے الیکشن میں پی پی پی کے ٹکٹ ہولڈرز اکثر اسی طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ جسکے خلاف بھٹونے عملی "جدوجہد"کی تھی۔
مگرہمارے"محبوب صدر"جنرل ضیاء الحق نے سیاست اوردولت کی نئی بساط بچھائی۔ یہ بساط آج تک یکسانیت کے ساتھ قائم ہے۔ انھوں نے پورے ملک سے چندخاندانوں اورمذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے چندعلماء پرنوازشات کی بارش کردی۔ اب دل تھام کر سوچیے۔ 1977سے آج تک یہی دس بارہ ہزارلوگ ہیں جوجونکوں کی طرح لوگوں پرہرطرح کاظلم ڈھارہے ہیں۔ یہ مکمل طورپرسرکاری خزانے کی پیداوار ہیں۔ ان کا دین مذہب صرف اورصرف بادشاہ کے دربارمیں مستقل طورپر رہناہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ یہ حیرت انگیزکامیابی کے ساتھ لوگوں کوبیوقوف بنانے میں کامیاب ہیں۔
گزشتہ بیس پچیس برس کی سیاسی چالوں پرغور کیجیے۔ انتہائی بھونڈے طریقے کی نیم مردہ جمہوریت ہم پر نازل کردی گئی۔ ہمیں بتایاگیاکہ یہی گلاسڑانظام ہمارے لیے تریاق ہے۔ وہ خاندان جنھوں نے ملک کے معاشی نظام پربھرپورقبضہ کرلیا ہے، ہمارے سیاسی مسیحا قرار دیے گئے۔ یہی لوگ ہمارے زمینی خدابنائے گئے۔ مگر کہانی یہاں نہیں رُکتی۔ اس کے بعداب ان کے وہ حواری پیداکیے گئے، جنھوں نے ان لوگوں کے شاہی دستر خوان سے دل بھرکر خوشہ چینی کی۔ آپ کسی بھی سیاسی جماعت کے اکابرین پر نظرڈالیے۔
ان تمام کے تمام میں ایک صفت بالکل یکساں ہے۔ یہ ہردورمیں شاہی دربار سے منسلک رہے ہیں۔ ان لوگوں نے بے پناہ دولت کے بَل بوتے پرپاکستان کے ہرادارے میں نقب زنی کی۔ ریاستی ادارے بھی ان کے سامنے بے بس ہوگئے۔ نظامِ عدل سے لے کربیوروکریسی اورریاستی اداروں سے لے کر ہراہم جگہ پرانھوں نے اپنے طفیلی مقرر کردیے۔ عوام مسلسل غربت کی چکی میں پستے رہے اوریہ چند ہزار شاہی درباری قیامت خیزترقی کرتے گئے۔
حالیہ الیکشن میں بھی یہ کھیل انتہائی بھونڈے طریقے سے کھیلاگیا۔ پرانے شاہی درباریوں کونئی حکومت میں شامل کرلیاگیا۔ عمران خان جسے 2018 تک عوام کی بھرپورتائیدحاصل تھی۔ انھی پرانے طبلچیوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگا۔ آج اس کی بطوروزیراعظم ساکھ حددرجہ کمزورہوچکی ہے۔ وہ نیک نیت اکیلاآدمی اب نظام سے مات کھارہاہے۔ وہی چندہزارلوگ اب اس کے اردگردہیں اورشاہی طعام وقیام سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ تبدیلی کانعرہ تقریباًمعدوم ہوچکا ہے۔ عوام میں غم وغصہ حددرجہ موجودہے۔ مگرتسلی رکھیے۔
ہماراملک فرانس جیسانھیں ہے۔ یہاں کوئی والٹیئر موجودنہیں ہے۔ جو بادشاہ کویہ بتانے کی جرات کریں کہ شاہی گھوڑے بیچنے کے بجائے، دربارسے گدھوں کو نکال دیاجائے، توملک ترقی کرسکتاہے۔ عوام کاکیا ہے۔ یہ توسانس لینے والے کیڑے مکوڑے ہیں۔ یہی دس ہزارجونکیں ہماری بربادی کی ذمے دارہیں اورہمیں ان جونکوں کی عادت پڑچکی ہے!