الیگزنڈر فلیمنگ ایک بے پرواہ قسم کا ڈاکٹر تھا۔ لیبارٹری میں مائیکرو اسکوپ کے سامنے ساری زندگی گزار دی۔ خیر لائق تو تھا مگر اس میں وہ ساری لاپروائیاں موجود تھیں جو ایک ذہین آدمی کا خاصہ ہوتی ہیں۔ 1928 میں فلیمنگ لندن کے سینٹ میری اسپتال میں کام کر رہا تھا۔
دو ہفتے کی چھٹیوں پر جانا تھا۔ لیب میں کام تیزی تیزی سے سمیٹ رہا تھا۔ مغرب میں کام کو ہمیشہ سنجیدہ لیا جاتا ہے اور چھٹیوں کو بھی۔ یہ ہمارے رویوں کے بالکل برعکس ہے، جہاں نہ کام پر توجہ دی جاتی ہے اور نہ چھٹیوں ہی کا رواج ہے۔
فلیمنگ نے گول گول شیشے کی پلیٹوں کو الماری میں رکھا، میز صاف کی اور اپنے خاندان کے ساتھ چھٹیوں پر چلا گیا۔ جب واپس پہنچا۔ ایک پلیٹ کے اجزاء کو مائیکرواسکوپ کے ذریعے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ اس پلیٹ میں پھپھوندی لگی ہوئی ہے۔ فلیمنگ خاصے غصے میں آگیا۔ کیونکہ پھپھوندی نے پوری پلیٹ کو ہی خراب کر دیا تھا۔ پلیٹ کو ضایع کرنے سے پہلے، اس نے دوبارہ غور کیا تو معلوم ہوا کہ جہاں جہاں سبز رنگ کا مادہ موجود ہے۔
اس کے اردگرد اور نیچے تمام جرثومے مر چکے ہیں۔ یہ بات اس کے لیے حیرت انگیز تھی۔ اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ اس نے اب کئی پلیٹوں میں خود پھپھوندی لگا دی۔ اور چند ہفتے انتظار کیا۔ نتیجہ بالکل پہلے جیسا تھا۔ جہاں بھی یہ سبز مادہ موجود تھا۔ اس پلیٹ میں تمام جراثیم مر چکے تھے۔
الیگزنڈرحادثاتی طور پر پینسلین دریافت کر چکا تھا۔ اس کامیابی نے آنے والے سائنسی دور کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ زخموں کے علاج کے لیے پہلی اینٹی بائیوٹک اب لوگوں کے لیے موجود تھی۔
دوسری جنگ عظیم میں پینسلین کا بھرپور استعمال ہوا۔ زخموں سے مرنے والے فوجیوں کی تعداد اس دوائی سے اٹھارہ فیصد سے کم ہو کر صرف ایک فیصد رہ گئی۔ یہ ایک انقلاب تھا جس نے انسانی جان کی اس طرح حفاظت کی کہ لوگوں کی عمریں طویل ہونے لگیں۔
فیلمنگ کو اس حد درجہ عظیم کام پر 1945 میں نوبل پرائز دیا گیا۔ آپ کو اندازہ ہو رہا ہو گا کہ میں فلیمنگ کی تحقیق کی تعریف کرنے کے لیے یہ سچا واقعہ بتا رہا ہوں۔ ہرگز ہرگز نہیں۔ دنیا کی پہلی انٹی بائیوٹک بنانے کا کارنامہ تو سب کو معلوم ہے۔ مگر اس عظیم آدمی کا اصل کردار اس ایجاد سے کسی قسم کا مالی فائدہ نہ اٹھانا تھا۔ یو کے اس وقت سپر پاور تھا۔ الیگزنڈر نے دنیاپر ایک احسان کیا ہوا تھا۔ اسے مشورہ دیا گیا کہ پینسلین کو اپنے نام سے لندن میں رجسٹرڈ کروا لے۔ معمولی سی کارروائی سے، اسے دوائی کے مالکانہ حقوق مل جائیں گے۔
جہاں بھی پینسلین استعمال ہو گی یا بنائی جائے گی۔ وہاں وہاں سے، اس کو پیسے ملتے جائیں گے۔ دو تین سال میں قوی امکان تھا کہ الیگزنڈر دنیا کا سب سے امیر انسان بن جاتا۔ کیونکہ اس کی ایجاد کردہ دوائی، اس کی اجازت کے بغیر بنائی نہیں جا سکتی تھی۔
یعنی کرہ ارض کا سب سے امیر شخص بننا اس کے لیے معمولی کام تھا۔ مگر فلیمنگ نے اس دولت کو مکمل طور پر ٹھکرا دیا۔ اس نے پینسلین کی ایجاد اینے نام رجسٹرڈ نہیں کروائی بلکہ اسے پوری انسانی نسل کے لیے مفت وقف کر دیا۔ فلیمنگ نے دولت کو حقیقت میں ٹھڈا مارا۔ ایک متوسط طبقے کے سائنسدان کے طور پر زندگی کے آخری لمحے تک زندہ رہا۔
ذرا سوچیے۔ کیا الیگزنڈر اپنی ایجاد کو اپنے اور اپنی اولاد کے لیے مختص نہیں کر سکتا تھا۔ بالکل کر سکتا تھا۔ اور یہ بات جائز بھی ہے۔ مگر اس نے اپنی بجائے، نوع انسانی کو محفوظ کرنے کو ترجیح دی۔ یہ حد درجہ غیر معمولی بات ہے۔ بلکہ محیر العقول امر ہے۔ انسان دوستی کی ایک ایسی درخشاں مثال جس نے ہر انسان پر زندگی کے نئے دروازے کھول دیے۔ اب ذرا ٹھہرجائیں۔ بلکہ ساکت ہو جائیں۔ اردگرد کے لوگوں کی واضح اکثریت پر غور فرمائیے۔
بغیر رنگ، نسل، مذہب، سماج، آپ کو ایک عنصر حیرت انگیز طور پر یکساں نظر آئے گا۔ وہ ہے امیر سے امیر تر ہونے کی دھن۔ دوسرے الفاظ میں اندھا دھند دولت کمانے کا جنون یا حد درجہ امیر ہونے کا پاگل پن۔ اس کو لالچ بھی کہا جا سکتا ہے۔ آپ، خود حیران رہ جائیں گے۔ کیونکہ یہ ایک خاص طبقہ کا مرض نہیں ہے۔ ریڑھی والے سے دریافت کریں تو وہ کار والے سے متاثر ہے۔
اور کسی بھی طرح چھوٹی گاڑی خریدنا چاہتا ہے۔ امیر طبقے کا تجزیہ کریں۔ وہ اس فکر میں ہیں کہ چلیے چار کنال کا گھر تو بنا لیا مگر فارم ہاؤس بھی تو بنانا ہے۔ اردگرد کے سارے دوست بڑے بڑے فارم ہاؤسوں کے مالک ہیں۔ میں ان سے کیسے پیچھے رہ گیا۔
یہ تو حد درجہ بری بات ہے۔ لہٰذا اب مزید دولت کمانی چاہیے۔ اور اس میں ہر جائز اور ناجائزطریقہ استعمال کرنا چاہیے۔ ذرا غور کیجیے۔ آپ کو ہر طرح کے لوگ اس جنون کا شکار نظر آئینگے۔ اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی برائی بھی نہیں لگتی۔ مگر دوسرے زاویے سے سوچا جائے تو بہر حال یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایک انسان کو بالآخر کتنی دولت چاہیے۔ کیا اس کی کوئی حد ہے یا نہیں۔ اگر ہم دنیا کے مذاہب پر غور کریں، تو ہر مذہب میں ارتکاز دولت کی نفی کی گئی ہے۔
غریب لوگوں پر احسان کرنے کا سبق دیا گیا ہے۔ تقسیم زر پر زور دیا گیا ہے۔ مگر اس کے بالکل ساتھ دولت کمانے پر کسی قسم کی کوئی قدغن بھی نہیں ہے۔ دنیا کے عظیم ترین مذاہب بلند اخلاقی قدروں کا ذکر ضرور کرتے ہیں، مگر کسی جگہ بھی جائز طریقے سے پیسہ کمانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اسلام میں تو کاروبار اور تجارت کرنے پر بھرپور زور دیا گیا ہے۔
مگر ہمارے معاشرے بلکہ پوری دنیا میں عملی صورت حال بالکل الٹ ہے۔ ہر مرد اور عورت امیر سے امیر تر ہونے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔ مسلمان ممالک میں مشرق وسطیٰ کے بادشاہوں پر غور فرمائیے۔ وہاں تو پوری ریاست کے مالی وسائل پر صرف اور صرف ایک خاندان قابض ہوتا ہے۔ تمام ملکی دولت مخصوص خاندانوں کے قبضے میں ہیں۔ جو اپنے آپ کو شاہی خاندان گردانتے ہیں۔
ویسے حقیقت یہ بھی ہے کہ برطانیہ نے جب مشرق وسطیٰ کے ممالک ترتیب دیے تو وہاں کے شرفا سے ہٹ کر لوگوں کو ترجیح دی گئی۔ جزئیات میں جائے بغیر یہ عرض کروں گا کہ شاہی خاندان کہلانے والے لوگ، ماضی میں کوئی خاص معزز نہیں تھے۔
مگر ارتکاز دولت کے واضح پاگل پن نے ان دس بارہ ریاستوں کے مالکان کو دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل کر دیا ہے۔ بغیر کسی محنت اور ایجاد کہ، یہ جونکوں کی طرح ملکی وسائل کو کھا پی رہے ہیں۔ چلیے بل گیٹس اور اس طرز کے امیر لوگوں نے تو دنیا میں محنت کی ہے، نئی ایجادات کی ہیں، اگر وہ امیر ہیں تو اس کی منطقی وجوہات ہیں۔ مگر مشرق وسطیٰ میں تو کوئی ایسی چیز نہیں ہے۔
وطن عزیز میں بھی دولت کمانے کا ہسٹریا ہر سطح پر موجود ہے۔ سیاست دانوں کے مقتدر خاندانوں کو دیکھیے۔ جھوٹ اور دروغ گوئی سے وہ ہر ناجائز طور پر صرف اور صرف ڈالر کمانے میں جتے ہوئے ہیں۔ ہر ایک کو ان کے ماضی کا علم ہے۔ مگر ناجائز دھن نے اس طرح کا جادو کیا ہے کہ اپنے آپ کو مسیحا قرار دیتے ہیں۔ فریب، مکر اور غلاظت سے بھرپور یہ افراد کامیابی سے لوگوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔
ان کی ہوس ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہی۔ بالکل یہی معاملہ بیورو کریسی کے چیدہ چیدہ افراد، ریاستی اداروں کے سینئر سربراہان اور تاجروں کا ہے۔ کسی طور پریہ لوگ، اپنی جیبیں بھرنے کے سوا کچھ اورکام کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں۔ ہاں، اچھے الفاظ کی تقاریر ہر وقت کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ تواتر سے فرماتے ہیں۔ مگر ان شیاطین کے برعکس، ہمارے ہی ملک میں بے حد عمدہ انسان بھی پائے جاتے ہیں۔ جنھیں دیکھ کر انسانیت پر ایمان، دوبارہ اجاگر ہو جاتا ہے۔
عبدالستار ایدھی کیا روشن مثال ہے۔ چھیپا اور اس طرح کے ان گنت لوگ، مالی فوائد حاصل کرنے کی سطح کو ذہنی طور پر عبور کر چکے ہیں۔ ہاں ایک عجیب سی بات بتاؤں۔ میرے ایک واقف نے گزشتہ برس چھ کروڑ روپے کی گاڑی خریدی۔ دو تین سماجی تقریبات میں ملاقات ہوئی تو بڑے فخر سے اپنی قیمتی جیپ کا ذکر کیا۔ کچھ دن پہلے ملے تو سائیکل پر آئے۔ کہنے لگے کہ قیمتی گاڑی چلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اصل چیز سادگی اور محروم طبقہ کی مدد ہے۔ معلوم ہوا کہ اب ایک سادہ سی گاڑی رکھی ہوئی ہے۔ قریب جگہ پر سائیکل پر جاتے ہیں۔
گاڑی بیچ کر اور دیگر ذاتی دولت کو غریب لوگوں کے لیے مختص کر دیا ہے۔ کیا عرض کروں اور کیا نہ کہوں۔ پیسہ ایک ضرورت ہے اور جائز ضرورت ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کتنا پیسہ ایک پرسکون زندگی کے لیے ضروری ہے۔
اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔ کم از کم میں تو جواب دینے سے قاصر ہوں۔ پھر الیگزنڈر فلیمنگ جیسے عظیم آدمی کا خیال آتا ہے کہ اس نے دنیا کا دولت مند ترین انسان بننے کو ٹھکرا دیا۔ شاید وہ ہمارے ملک میں ہوتا تو کبھی بھی یہ "بے وقوفانہ " فیصلہ نہ کرتا۔ پر سوال تو یہ ہے کہ ہمارے جیسے بنجر ملک میں ہوتا ہی کیوں؟