اسٹیفنی انجیلینا جرمینٹو (Stefani Angelina Germanto) کے نام سے، خاتون کو کوئی نہیں جانتا اس لیے کہ عظیم فنکارہ کا لوگوں کے لیے نام بالکل مختلف ہے۔ تمام دنیا اسے لیڈی گیگا (Lady Gaga) کے نام سے پہچانتی ہے۔ مغربی موسیقی کی دنیا کا ایک دیومالائی نام۔ جس نے آج تک چھ البمز بنائیں۔ فلموں میں کام کیا۔ شہرت اور دولت کی بلندیوں کو چھوا۔ کتنے ایوارڈ مل چکے ہیں اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لیڈی گیگا، صرف ایک شو کرنے کا ایک سے دو ملین ڈالر لیتی ہے۔ درجنوں نہیں بلکہ ہزاروں شوز کیے ہیں۔ لوگ اس کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لیے دیوانے ہو جاتے ہیں۔
اگر امریکا میں یہ معلوم ہو جائے، کہ یہاں سے لیڈی گیگا نے صرف گزرنا ہے، تو لوگ گھنٹوں پہلے سڑک پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ گیگا کی ذاتی حفاظت کے لیے چالیس لوگ ہروقت موجود رہتے ہیں۔ نوجوان نسل تو خیر اس کی دیوانی ہے۔ ہر جگہ پر اس کے گانے زندگی میں حرارت پیدا کر دیتے ہیں۔ میں نے آج تک لیڈی گیگا کا ایک بھی گانا نہیں سنا۔ لیکن اب ضرور سنوں گا۔ صرف اس لیے کہ تمام دولت، شہرت اور مقام کے باوجود، اس لڑکی نے اپنی ذاتی زندگی میں ان تمام چیزوں کو محض فروعی قرار دیا ہے۔ دولت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ شہرت اسے کاٹتی ہے اور ایکڑوں بڑے گھر میں وہ مکمل تنہا رہتی ہے۔ کیوں، آخر کس دنیاوی چیز کی کمی ہے۔
جھوٹی مسکراہٹوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے لیڈی گیگا نے کھل کر اعتراف کیا کہ وہ ڈپریشن کا شکار رہی ہے۔ جس نے اس کی زندگی سے تمام حُسن، خوبصورتی اور بانک پن چھین لیا۔ انتہائی حسین عورت جو پوری دنیا میں جدید فیشن کی ہم نام ہے۔ اس کا بیماری کے متعلق اعتراف غیرمعمولی تھا۔ ذاتی طور پر حددرجہ جری خاتون سمجھتا ہوں۔ اس اعتراف کے بعد، مختلف ٹی وی انٹرویوز میں لیڈی گیگا نے بتایا کہ کس مشکل طریقے سے اپنی بیماری کا مقابلہ کیا۔ کس طرح دوستوں، ماں باپ اور ڈاکٹروں نے اس کی مدد کی۔ کس طرح خودکشی کرنے کی کوششوں سے نجات حاصل کی اور کس طرح ڈپریشن جیسے موذی مرض کو کنٹرول کیا۔
جب سے میں نے یہ پڑھا ہے۔ سوچنے پر مجبور ہو چکا ہوں کہ انسانی ذہن ہے کیا۔ اس کی مثبت فکر کسی بھی انسان کو بے مثال ترقی کروا سکتی ہے اور منفی، مرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ڈپریشن اور منسلک نفسیاتی امراض ہمارے ملک میں اتنے پھیل چکے ہیں کہ یقینی اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ بوسٹن یونیورسٹی سے منسلک بلال احمدکا تجزیہ ہماری سوسائٹی کے متعلق حددرجہ اندوہناک ہے۔ اس تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بلال احمد نے پاکستان کی مختلف آبادیوں کا تجزیاتی سروے کیا۔ اس میں آغا خان اسپتال کی معاونت بھی شامل تھی۔ نفسیاتی مریضوں کی تعداد، کسی بھی آبادی میں بائیس فیصد سے لے کر ساٹھ فیصد تک ہے۔ یہ اتنے زیادہ انسان بن جاتے ہیں، کہ گنتے ہوئے بھی خوف طاری ہو جاتا ہے۔ ویسے ڈاکٹر کی حیثیت سے مجھے تو لگتا ہے کہ ہمارے ملک کا ہر دوسرا انسان ڈپریشن کا شکار ہے۔
لیڈی گیگا کی مثال سے شائد تمام لوگ اس عذاب کا ادراک نہ کر پائیں۔ کیونکہ اس کا تعلق امریکا سے ہے۔ پاکستانی معاشرے سے مثال دیتا ہوں۔ نام اس لیے نہیں لکھنا چاہتا کہ بات ذاتیات سے بالاتر ہونی چاہیے۔ لاہور میں ایک انتہائی کامیاب کاروباری انسان جو سیاستدان بھی ہے، چند سال پہلے، اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ وہ گھنٹوں اپنے دفتر میں اکیلا بیٹھا رہتا تھا۔ گھر جا کر بھی کمرے میں بند ہو کر صرف اور صرف ٹی وی دیکھتا رہتا تھا۔ گھنٹے گزر جاتے تھے۔ مگر اسے وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ جب اس کی اہلیہ جو بذاتِ خود بھی ایک قدکاٹھ والی سیاستدان ہیں۔ انکو معلوم ہوا، تو خاوند سے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے۔ خاوند کچھ بھی نہ بتا سکا۔ صرف یہ کہا کہ زندگی مکمل طور پر بے معنی ہے۔
ا س کا کوئی مقصد نہیں۔ اور کسی بھی طریقے سے اپنی زندگی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اہلیہ پریشان ہو گئی۔ اس خاندان کا قدکاٹھ اتنا تھاکہ معمولی سے معمولی بات کا بھی بتنگڑ بن سکتا تھا۔ دوستوں سے مشورہ کرنے سے بھی ڈر لگتا تھا کہ کیا کہیں گے۔ ان کے متعلق کتنا منفی تاثر اُبھرے گا۔ سماجی دباؤکے تحت خاموش رہا جائے یا اس معاملے کو حل کیا جائے۔ یہ وہ سوال تھا جس پر یہ خاندان دنوں سوچ بچار کرتا رہا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ خاوند کی حالت روزبروز بگڑتی جارہی تھی۔ اس نے دفتر جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ شیو کرنے سے بھی اجتناب کرتا تھا۔ پتہ نہیں، ایک دم اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ڈاکٹر کے پاس خود جائیگا۔ اپنا علاج کروائے گا۔ بیوی نے مشورہ دیا کہ ملک میں ہر ایک کو معلوم ہوجائیگا۔
کہرام مچ جائیگا۔ لہذا لندن یا امریکا جا کر علاج کرواتے ہیں۔ ویسے ہم پاکستانی بھی عجیب مخلوق ہیں۔ اپنے آپکو مار دیتے ہیں بلکہ قتل کر دیتے ہیں۔ لیکن جھوٹی شہرت پر بٹہ نہیں آنے دیتے۔ بھول جاتے ہیں کہ شہرت کے آسمان پر چمکنے والے ستارے ہر شہر میں دمکتے تھے مگر آج منوں مٹی کے نیچے دبے ہوئے نامعلوم کیفیت میں ہیں۔ بہرحال، اس خاوند نے اپنے مخدوش حالات دیکھ کر بہادرانہ فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر کے پاس اسی شہر میں جاؤنگا۔ دوسری بات یہ کہ بیماری سے بھاگوں کا نہیں۔ مقابلہ کرونگا۔ وہ شخص بڑے آرام سے لاہور کے ایک نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ تمام لوگوں کی سوالیہ نگاہوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے تمام حالات بتائے۔
ڈاکٹر بذاتِ خود حیران ہو گیا۔ کیونکہ اس شخص کے پاس تو پاکستان میں بہتات میں دولت اور سہولت موجود تھی۔ پھر کیا ہوا۔ دس بارہ طویل انٹرویو کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ انتہائی ذاتی وجوہات کی بدولت ہمارے ملک کا وہ کامیاب انسان، ڈپریشن کی آخری اسٹیج پر ہے۔ جہاں وہ کسی بھی وقت خودکشی کر سکتا ہے۔ طویل علاج اور ماہر نفسیات کی بھرپور محنت کے بعد، وہ انسان دوبارہ زندہ ہو گیا۔ آج وہ ڈپریشن کا مریض نہیں ہے۔ بلکہ اب اعلانیہ کہتا ہے کہ یہ قابل علاج مرض ہے اور وہ اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ یہ بذاتِ خود بہت بڑی شخصی کامیابی ہے۔
بتانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ڈپریشن ہمارے ملک میں خوفناک حد تک موجود ہے۔ لوگ شرم کی وجہ سے اس کا نام تک نہیں لیتے۔ ذکر کرنا بھی نامناسب سمجھتے ہیں کہ کہیں لوگوں کو معلوم نہ ہو جائے۔ ذہنی امراض کے نناوے فیصد لوگ اپنا علاج کرواتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ انھیں شرم محسوس ہوتی ہے۔
مگرطالبعلم ان تمام بہادر مرد اور خواتین سے متاثر ہے جواپنی بیماری کا اعتراف کرتے ہیں اور پھر علاج کرواتے ہیں۔ ان میں سے واضح اکثریت بالکل ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ مگر ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس بیماری کے سامنے ہتھیارڈال دیتے ہیں اور اپنی زندگی کو خود ہی ختم کر لیتے ہیں۔ ہمارے اردگرد درجنوں ایسی مثالیں ہیں، جن میں آپ بظاہر ہنستے کھیلتے انسانوں کے متعلق یک دم سنتے ہیں کہ کھڑکی سے باہر کود کر جان دے دی یا پنکھے سے لٹک کر جھول گئے۔ مجھے بہت زیادہ لوگوں کا علم ہے۔ جنھیں کوئی نہیں جانتا مگر وہ اپنے آپکو خودہی ختم کر گئے۔
یہ ہر شہر، ہر قصبے کی کہانی ہے۔ مگر اپنے منافق ملک میں اس کا اقرار کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، خوف کھاتے ہیں، کتراتے ہیں۔ جن لوگوں کو کوئی نہیں جانتا، ان کے متعلق ذکر کرنے سے کسی کو ادراک نہیں ہو گا کہ کون مرگیا۔ ہم سوچتے ہی اس وقت ہیں، جب کوئی معروف انسان خودکشی کرتا ہے یا اقرار کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہے۔ انم تنولی کا نام اکثر لوگ جانتے ہونگے۔ چلیے میرے جیسے ادھیڑ عمر لوگ نہ جانتے ہوں، مگرنوجوان نسل تواس انتہائی خوبصورت فنکارہ کوجانتی تھی۔ آج سے ٹھیک دوسال پہلے، وہ لڑکی پنکھے سے لٹک کرجھول گئی۔ دائمی سفرپرروانہ ہو گئی۔ اس کے مرنے کے بعد، کئی مشہورترین لوگوں نے ہمت دکھاکراقرارکیاکہ وہ بھی ڈپریشن کاشکارہیں، اس بیماری سے لڑ رہے ہیں اوراس میں کوئی شرم کی بات نہیں۔
ڈپریشن کے مریض توایک طرف۔ ہماراسماجی رویہ بھی اَزحدادنیٰ ہے۔ اکثریت اس مرض میں مبتلا انسان کوچندپکے پکائے فقرے کہتی ہے جواس کاعلاج تو نہیں کرتے۔ مگرمرض کومزیدبڑھادیتے ہیں۔"جو ہے اس پرشکرکرو۔ یہ صرف تمہاراوہم ہے۔ سوچنا کم کرو۔ مثبت رہو، بیوقوفوں کی طرح سوچنا چھوڑ دو۔ تمہیں کچھ نہیں ہوا۔ تم صرف ہمدردی حاصل کرنے کے لیے یہ ڈراما کررہے/رہی ہو"۔ اس طرح کے چبھتے ہوئے تیرمریض کی روح تک کو چھلنی کردیتے ہیں۔ ڈپریشن میں مددکرنے کی بجائے، انتہائی شرمناک طریقے سے مریض کی عزتِ نفس کو مجروح کرتے ہیں۔
اکثردوسروں سے ذکرکرتے ہیں کہ "اس کاکیا، یہ توپاگل ہے"۔ یہ ہماری منافق سوسائٹی کاخاصہ ہے۔ ڈپریشن ایک مرض ہے۔ علاج کی تلوارسے آپ اس بیماری کی جڑیں کاٹ سکتے ہیں۔ ٹھیک ہوسکتے ہیں۔ اگراس بیماری پر توجہ نہ دی جائے تویہ انسان کوکھاجاتی ہے۔ ہمارا بیمار معاشرہ پہلے ہی کھوکھلاہے۔ اس بیماری کا علاج کر کے مزید تنزلی سے بچائیے!