قومیں اپنے جوہر پر ترقی کرتی ہیں۔ انسانی تاریخ میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہے جس میں کسی ملک نے اپنے قومی مفادات کے برعکس، کسی اور قوم کو ترقی کرنے میں ذرا سی بھی مدد کی ہو۔ بلکہ کوئی بھی ملک دوسرے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر انگلی پکڑ کر گامزن کروا ہی نہیں سکتا۔
جب بھی لوگوں کا کوئی گروہ یا ملک فیصلہ کر لیتا ہے کہ اس نے اقوام عالم کے لیے مثال بننا ہے، اپنے بل بوتے پر ترقی کرنی ہے، اپنے زور بازو پر اعتماد کرنا ہے تو اسے آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ضروری نہیں کہ انھیں بہت اعلیٰ درجے کی قیادت دستیاب ہو۔ درمیانی سطح کے قائدین بھی یہ کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اپنے ملک اور قوم کے ساتھ مخلص ہوں اور ترقی کا جنون رکھتے ہوں، وہ بھی معجزے برپا کر سکتے ہیں۔
مگر ایسے ملک جو شعوری طور پر اپنے عظیم ماضی میں مقید ہیں، جدت پسندی کو برائی اور گناہ سمجھتے ہوں۔ جو تاریخی لوریاں سننے اور سنانے میں مصروف رہتے ہوں، وہ قومیں ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتیں۔
ایسے ملک، دوسرے ملکوں سے بھیک مانگ مانگ کر اپنی معیشت کو دائمی طور پر رینگنے کی حالت میں رکھتے ہیں۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ کچھ عرصہ بعد، ایسے فکری اور معاشی بدحال ملک اپنے آخری انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ جغرافیائی تبدیلی کا شکار ہو جاتے ہیں اور کچھ ویسے ہی نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔
یہ لکھتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی کہ ہمارا ملک، کس گروہ میں شامل ہے۔ ترقی کرنے کا جذبہ رکھنے والے یا ترقی سے انحراف کرنے والے۔ تمام قرائن پسماندگی اور تذلیل کی طرف اشارہ کرتے ہیں، افسوس تو یہ ہے سوائے چند لوگوں کے کسی کو ملال بھی نہیں ہے۔ بحیثیت قوم، ہم جعلی مفروضوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔
دوست اور دشمن کے درمیان تفریق کرنا بھی ناممکن سا نظر آتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں پاکستان کو ترقی نہیں کرنے دے رہیں حالانکہ ترقی کرنے والے ممالک صرف اپنے راستے پر چل رہے ہیں، ہم ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، انھیں اس کی پرواہ نہیں ہے۔ ویت نام کی مثال سامنے رکھیے۔ بیس برس کی مسلسل جنگ 1975میں ختم ہوئی۔
اس وقت ویت نام دنیا کا غریب ترین ملک تھا۔ 1980میں اس کی فی کس آمدنی صرف دو سو امریکی ڈالر تھی۔ مگر 1986میں ویت نام کی حکومت نے دور رس اور دلیرانہ فیصلے کیے، ہمہ جہتی اصلاحات کا ایک عظیم منصوبہ بنایا جسے Doi Moi کہا جاتا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس کی تین جہتیں تھیں۔ تجارت کو ہر طرح کی قدغن سے آزاد کر دیا۔ غیر ملکی کاروبار کو سرکاری جکڑ بندیوں سے آزاد کر دیا گیا۔
تیسرا اور حد درجہ اہم کام، ویت نامی حکومت نے انسانی ترقی پر فوکس کر ڈالا۔ Doi Moiکو عملی جامہ پہنچانے کے لیے ویت نام نے گزشتہ بیس برسوں میں درجنوں ممالک سے فری ٹریڈ معاہدے کیئے۔ 1995 میں یہ آسیان کاممبر بن گیا۔ 2000 میں امریکا سے فری ٹریڈ ایگریمنٹ کیا۔ چین، ہندوستان، جاپان اور کوریا کے ساتھ تجارتی شراکت داری کر ڈالی۔ آپ حیران ہوں گے کہ ویت نام نے 2001سے لے کر 2023 تک درآمد اور برآمد پر نوے فیصد ٹیکس کم کردیے۔
دنیا نے دیکھا کہ ویت نام کی قیادت اپنے ملک اور عوام کے مفاد میں کتنے بہترین فیصلے کر رہی ہے۔ ویت نام کاروبار میں آسانی کی فہرست میں 104نمبر تھا، وہ بہتر ہو کر اسی تک آگیا۔ ویت نام نے تعلیمی میدان میں کمال کر ڈالا۔ پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک تعلیم تک ایک نصاب کیا، لڑکیوں اور لڑکوں کو برابر کی سہولتیں اور رعاتیں فراہم کیں۔
سام سنگ سے لے کر ایل جی، اولمپس سے لے کر پائنر اور لاتعداد ملٹی نیشنل کمپنیاں، اپنی فیکٹریاں ویت نام میں منتقل کر چکی ہیں۔ ملبوسات اور الیکٹرونکس کی مارکیٹ پر تو خیر اب یہ ملک راج کر رہا ہے۔ ویت نام کی ترقی کی شرح چھ فیصد سے زیادہ ہے اور فی کس آمدنی دو سو ڈالر سے بڑھ کر ساڑھے تین ہزار ڈالر ہو چکی ہے۔
ویت نام کی ترقی کا عمل رک نہیں رہا بلکہ حیرت انگیز تیز رفتاری سے رواں دواں ہے۔ ہاں ایک اہم بات بتانا بھول گیا، ویت نام میں میڈیا پر مکمل ریاستی کنٹرول میں ہے۔ معاشی استحکام کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ویت نامی حکومت اپنے شہریوں کی معاشی ترقی کو "آزاد میڈیا" سے حد درجہ مقدم رکھتی ہے۔
جب اپنے عظیم ملک کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے کئی ایسی انہونیاں نظر آتی ہیں جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے معدوم ہو چکی ہیں۔ سادہ سی مثال سامنے رکھیے، کوئی پاکستان میں نئی فیکٹری لگا کر دکھا ئے۔ سرکاری اور غیر سرکاری محکمہ یقین دلا دے گا کہ آپ سے بڑا بے وقوف انسان پورے کرہ ارض پر نہیں ہے۔
ہر سرکاری محکمہ اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے دھڑلے سے پہنچ جائے گا۔ مذہبی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں، مختلف حیلے بہانوں سے آپ سے پیسے لینا اپنا فرض گردانیں گی۔ بلیک میلنگ، غنڈا گردی اور بھتہ وصول کرنا اب عام بات ہوگئی ہے، سرکار اور جرائم کا اتحاد ہوچکا ہے۔ اس بدقسمت ملک میں تو یہاں تک ہو چکا ہے کہ کراچی کی ایک فیکٹری نے بھتہ دینے سے انکار کیا تو فیکٹری کے دروازوں کو تالہ لگا کر سیکڑوں مزدوروں سمیت آگ لگا دی گئی۔
مگر پاکستان میں ایک خوفناک سچ اور بھی ہے۔ جس کا ذکر کرنا خطرے سے خالی نہیں، ملک کی تمام پاپولر سیاسی جماعتیں، حد درجہ مشکوک انداز سے، کاروباری افراد سے کھلے عام پارٹی فنڈ کے نام پر بھتہ وصول کرتی ہیں۔
یہ جماعتیں اتنی طاقتور ہیں کہ کوئی ریاستی ادارہ ان کے اکاؤنٹس کی چھان بین نہیں کر سکتا۔ ہاں! اگر کسی سیاسی جماعت کو سبق سکھانا ہوتو پھر ریاستی ادارے آنے ٹکے کا بھی سورس معلوم کرنے لگتے ہیں۔
میں بہت سے انتہائی امیرکاروباری لوگوں کو جانتا ہوں، جو ڈر، خوف اور سرکاری اداروں کی پیدا کردہ مشکلات سے مایوس ہوکر ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں منتقل ہو چکے ہیں۔ دشواریوں کا یہاں تک اندازہ لگایئے کہ ریاستی اداروں کے چند افراد، اغوا برائے تاوان کے گھناؤنے جرم میں ملوث پائے گئے ہیں۔
کسی بھی ملک میں معاشی ترقی کے لیے ایک پرامن ماحول لازم ہے۔ سرمائے کو تحفظ اور آزادی یقینی ہونی چاہیے، معاشرے کے امن کو نقصان پہنچانے کی کوئی ہمت نہ کرسکے۔ انسانی حقوق یا آزادی اظہار کی دیوار کے پیچھے چھپ کر معاشی ترقی کو بریک لگانے اور امن دشمنی کرنے کی کوئی جرأت بھی نہ کرسکے۔ شاید آپ ناراض ہو جائیں کہ انسانی حقوق تو ہر چیز سے برتر ہیں، آزادی اظہار تو حد درجہ اہم ہے۔ مگر کیا چین میں کوئی امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
چلیے چین تو کمیونسٹ اور کنٹرولڈ معیشت کا حامل ملک ہے۔ یو اے ای، بحرین، قطر، سعودی عرب جیسے مسلم ممالک میں کوئی مائی کا لعل معاشی ترقی کے خلاف معمولی سی بھی بات کر سکتا ہے۔
مونہہ کھولناتو دور کی بات، کوئی ان ممالک کے معاشرے میں ہلکی سی خرابی پیدا کرنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔ ترقی یافتہ اور جمہوری ملکوں کی طرف آجائیں، کیا جاپان میں کوئی بدامنی پیدا کرنے کا سوچ سکتا ہے، امریکا میں جلاؤ گھیراؤ کیا جاسکتا ہے، وہاں بھتہ وصول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن پاکستان میں ہر سرکاری اور غیر سرکاری ادارہ، سیاستدان، مذہبی لیڈران جب دل چاہتا ہے، امن خراب کردیتا ہے۔
ہندوستان سے تجارت ہمارے مفاد میں ہے لیکن جو بھی ہندوستان سے تجارت کی بات کرے گا، اس کی حب الوطنی پر شک کیا جانے لگے گا۔ چین سے درآمدات نے ہماری مقامی انڈسٹری کو برباد کر دیا ہے۔ مگر ہم چین کے سحر سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ ملک کی کوئی بھی حکومت لے لیجیے۔ جیسے ہی ملک تھوڑا سا مستحکم ہونے لگتا ہے۔
کوئی نہ کوئی سیاسی یا غیر سیاسی تحریک چلوا دی جاتی ہے۔ چنانچہ ملک کی معیشت برباد ہونے لگتی ہے۔ ادارے اپنے مفادات کی نگہبانی کے سوا کسی کی پرواہ نہیں کرتے، سیاست دان ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے تیار نہیں، بیشک ملک کی ترقی داؤ پر لگ جائے۔ سرمایہ دار حددرجہ احتیاط پسند ہوتا ہے، تھوڑا سا عدم استحکام ہو، تووہ سب سے پہلے غیر ممالک میں اپنی دولت کو محفوظ بناتا ہے۔
موجودہ حالات میں کہنے کو تو ایک کاروباری شخص ملک کا سربراہ ہے۔ مگر کسی بھی طرح کے کاروبار یا تجارت کو کسی قسم کا کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔
وزیر خزانہ کی عالمی مالیاتی اداروں کے فیصلہ سازوں کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں ہے، اس سیاسی افراتفری میں کاروبار تو ختم ہو ہی چکا ہے لیکن اس ابتری اور زوال کے باوجود کوئی بھی سیاسی فریق کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہیں۔ میثاق جمہوریت بھی اہم ہے۔ مگر میثاق معیشت کے بغیر تو خیر اب زندہ رہنا ہی محال ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسی حکومت نہیں جو ویت نام کی Doi Moi پالیسی کو اپنا کر ملک کو اس پاتال سے نکال سکے؟ شاید مسلسل بربادی ہی ہمارا نصیب ہے!