مختار رانا حد درجہ تعلیم یافتہ انسان تھے۔ کینٹ یونیورسٹی (Kent) لندن سے بین الاقوامی امور میں پوسٹ گریجویٹ اور اس سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے کیا۔ مزدوروں کے مسائل اور ان کو حل کرنے کا جنون انھیں لائل پور لے آیا۔ بائیں بازو کی سیاست سے گہرا شغف تھا۔ شہر کی ایک متوسط آبادی میں "پیپلز اکیڈمی" قائم کی جس کا بنیادی کام تعلیم و تدریس تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو، مختار رانا کے خیالات سے بہت متاثر تھے۔ پیپلز پارٹی کے قیام کے ابتدائی خاکے نے لائل پور کی اسی پیپلز اکیڈمی میں جنم لیا۔ 1970ء کے الیکشن سے پہلے مختار رانا کو گرفتار کر لیا گیا۔ بھٹو صاحب نے انھیں ایم این اے کا ٹکٹ دے دیا۔
جیل میں قید انسان بھلا کیا الیکشن لڑ سکتا ہے۔ مگر 1970ء کے الیکشن میں مختار رانا قومی اسمبلی کے ممبر بن گئے۔ جلسوں میں اس سیاست دان کی سلاخوں کے پیچھے کی تصویر لگا کر تقریریں کی جاتی تھیں۔ بائیں بازو کی سیاست پر مختار صاحب کو عبور تھا۔ مگر یہی رجحان ان کے اور بھٹو صاحب کے درمیان ذاتی لڑائی کا باعث بن گیا۔ رانا صاحب کا تعلق حد درجہ سفید پوش طبقے سے تھا۔ اس دور کی سیاست کا پیسہ سے زیادہ تعلق نہیں تھا۔
مارشل لاء کے بعد ضیاء الحق کو کسی طور پر بھی سیاسی تکریم نہیں مل رہی تھی۔ ریفرنڈم اورمجلس شوریٰ سب کچھ عوامی تائید سے محروم تھیں۔ ویسے آج بھی کئی ایسے سیاسی اکابرین ہیں جو مجلس شوریٰ کے خوشہ چیں تھے بلکہ جنرل ضیاء کی بھرپور خوشامد کر کے ممبر بنے تھے۔
جنرل ضیاء نے ایک ایسی حرکت کی جسے سیاسی اور سماجی غلطی کہنا زیادہ مناسب ہے۔ 1985ء میں غیر جماعتی بنیاد پر قومی اور صوبائی الیکشن کروا ڈالا۔ جو گھوڑا جیت گیا، وہی بادشاہ کے دربار میں سرفراز ہوا۔
اس الیکشن میں ریاستی اداروں کی مداخلت، پیسہ کے بے دریغ استعمال اور ذات برادری کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ ملک میں ایک ایسی نئی سیاسی قیادت سامنے آئی جس کا کسی بھی سیاسی فکر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جو افراد اسمبلیوں میں آئے، وہ ہر طرح کے فکری نظریہ سے محروم تھے۔
ہر صوبہ کا گورنر اہم امیدواروں اور پھر کامیاب ہونے والے امیدواروں کا انٹرویو کرتا تھا۔ پھر اپنے اپنے صوبے میں وزیراعلیٰ کے نام کا اعلان کر دیتا تھا۔ اس کے بعد، گورنر ہی نامزد وزیراعلیٰ کے لیے ارکان اسمبلی سے ووٹ مانگتا تھا۔ اس غیر فطری طریقے سے ایک ایسی قومی اور صوبائی قیادت سامنے آئی جو سیاسی ساکھ اور بصیرت سے بالکل محروم تھی۔
اس کے بعد، انھیں ممبران پر ریاستی وسائل کی بارش کر دی گئی۔ کسی کو شوگر مل دی گئی، کسی کو زمینوں پر ناجائز قبضے کا پروانہ عطا کیا گیا۔ کوئی کپڑے کی مل کا مالک بن گیا اور کوئی نجکاری کے عمل سے فیض یاب ٹھہرا۔ قصہ مختصر یہ تقریباً ایک سو کے لگ بھگ ایسے خاندان وجود میں آ گئے جو اپنے اپنے علاقوں میں ہر جائز اور ناجائز طریقے سے ناگزیر بن گئے۔ دولت، دھونس، تھانہ، پٹوار اور خوف کے سہارے یہ لوگ ہر سیاسی جماعت کی ضرورت بنتے چلے گئے۔ انھیں الیکٹیبلز کا نام دیا گیا۔ یہ تمام لوگ سیاسی یا نیم سیاسی نظام میں کلیدی رول حاصل کر گئے۔
اب ہوا کیا۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے صف اول کے خاندان نے ان تمام لوگوں کو مزید مضبوط کیا۔ یہ اپنے اپنے علاقوں میں چھوٹے چھوٹے بادشاہ بنا دیے گئے۔ افسروں اور اہلکاروں کی تعیناتی سے لے کر، ٹرانسفر، پوسٹنگ، سب کچھ ان کے اشارہ ِابرو سے ہونے لگا۔ پورے ملک میں ایک جیسی گراوٹ تھی۔ ان الیکٹیبلز نے ہماری پوری سیاست کو روند ڈالا۔ 1999ء کے بعد، جب ق لیگ بنی تو ان کی اکثریت اپنے مفادات کے تحت اس کے ساتھ جا ملی۔ 2002ء کے الیکشن میں پی ایم ایل ن تقریباً ختم ہو گئی۔ اور یہ چیدہ چیدہ لوگ حکومت میں آگئے۔ 2002ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی ان کی چراہ گاہ بن گئی۔
اسی طرح 2013ء میں ن لیگ نے ان کو چھتر چھایہ فراہم کی۔ 2018ء کے الیکشن سے پہلے سب کو اندازہ تھا کہ اب تحریک انصاف آگے آنے والی ہے۔ لہٰذا یہ لوگ، پی ٹی آئی کے جھنڈے تلے جمع ہو ئے۔ ایک اضافی جملہ لکھنا بہت ضروری ہے۔
ان خاص "بندوں " کو خفیہ ہاتھ بھی ایک پارٹی سے دوسری سیاسی جماعت میں لے جاتے رہے۔ یہ لوگ تو اپنی جگہ برائے فروخت تو تھے ہی مگر اس رواج سے سیاسی روایات حد درجہ ضعیف ہو گئیں۔ قومی سطح کی مضبوط قیادت پنپنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ اب یہ تمام لوگ وہ سیاسی عذاب ہیں جو ہمارے پورے نظام کی شہ رگ سے دولت زدہ خون چوسنے میں مصروف ہیں۔ انھیں کسی اخلاقیات یا نظریہ کے بغیر زندگی گزارنے کا فن آ چکا ہے۔ یہ بھرپور ڈھٹائی اور بغیر کسی ندامت کے سیاسی درخت بدلتے رہتے ہیں۔
اب ہوتا کیا ہے۔ کہ یہ سو کے قریب افراد، جب ایک خاص پارٹی کو چھوڑ کر دوسری شاخ پر منتقل ہوتے ہیں تو پرانے سیاسی گھونسلے والے جمہوریت اور روایات کا رونا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ یعنی اگر یہ گھاک لوگ مسلم لیگ سے نکل کر پیپلز پارٹی میں چلے جائیں۔ تو مسلم لیگ کی قیادت قوم کو جمہوریت پر ایک بھاشن دینا شروع کر دیتی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کو "گناہ" بتایا جاتا ہے۔ اور یہی لوگ جب پی ٹی آئی میں چلے جاتے ہیں تو تحریک انصاف کے نزدیک یہ جمہور کی مضبوطی ہے۔
حقیقت میں دیکھا جائے تو اس سے بڑا قومی فراڈ اور کوئی بھی نہیں ہے۔ جس نے زیادہ پیسے یا مراعات یا عہدوں سے نوازا، یہ اس کے گھر کی باندی بن گئے۔ جب یہ قبیل خان صاحب کے پاس پہنچی تو بڑی خوشی سے ایجاب و قبول کا رشتہ قائم ہو گیا۔ مگر خان صاحب، یہ تاریخی بات فراموش کر گئے۔ کہ یہ ہرگز ہرگز نظریاتی لوگ نہیں ہیں۔
یہ صرف اس لیے ان کی جماعت میں آئے یا لائے گئے ہیں کہ انھیں اقتدار، تحریک انصاف کو ملتا نظر آ رہا تھا۔ یہ بدقسمتی آج بھی بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ آپ اخلاقی گراوٹ کا اندازہ لگایئے کہ اب ان میں سے اکثریت نئی چراگاہ کی طرف جانے کو تیار ہے۔ کیونکہ یہ پیشہ ور سیاست دان ہیں۔ طالب علم کو تو خیر ان کے آنے جانے سے کوئی سروکار نہیں۔ لیکن خان صاحب ان لوگوں کے مرہون منت ہو گئے۔ ویسے ہی جیسے پہلے حکمران تھے۔
مگر سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کرنے کے بعد سیاسی تاریخ میں پہلی بار یہ خطرہ پیدا ہو چکا ہے کہ الیکٹیبلز کو پارٹی بدلنے پر تگڑی سزا مل سکتی ہے۔ اس خدشہ کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتیں حد درجہ بدحواس ہیں۔ سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر فریق بننے کے لیے بے چین ہیں۔ کہ کہیں ان کی لوٹ مار کا سیاسی سرمایہ، مٹی میں نہ مل جائے۔ رضا ربانی صاحب نے تو عدالت میں درخواست تک دے ڈالی کہ وہ کورٹ کی معاونت فرمائیں گے جو عدالتی نظام کے مطابق خارج کر دی گئی۔ اب سیاسی داؤ پیچ میں وکلا کی مختلف تنظیموں کو استعمال کرنے کی کوشش جاری و ساری ہے۔
پیسے کا لین دین عروج پر ہے۔ ایک گروہ تو یہاں تک کہہ رہا ہے کہ پچاس ارب کے لگ بھگ بیرونی سرمایہ، ملک میں مختلف سیاستدانوں اور بااثر گروہوں کو دیا گیا ہے، جو پورے معاشرے میں سیاسی بے چینی پھیلانے میں کوشاں ہیں۔ یہ بات درست ہے یا غلط۔ اس کے متعلق وثوق سے کہنا کافی مشکل ہے۔ مگر یہ بات طے ہے کہ کسی بھی حکومت کو گرانے میں بیرونی امداد کا عمل دخل لازم رہا ہے۔ بھٹو صاحب کو تخت سے محروم کرنے کے لیے بھی ڈالر کا استعمال کیا گیا تھا۔ چند دانشور، تحریک عدم اعتماد کو اندرونی اور بیرونی اسٹیبلشمنٹ کے مابین جنگ کا روپ بھی فرما رہے ہیں۔ بہر حال یہ بات طے ہے کہ ہمارے جیسے باعث عبرت معاشروں میں سیاسی روایات کی بجائے پیسے کا راج حد درجہ طاقتور ہے۔
اب صدارتی ریفرنس، عدالت عظمی میں موجود ہے۔ اس پر ہر فریق کے وکلاء آئینی اور قانونی بحث جاری رکھے ہوئے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر سارا دن فاضل جج صاحبان کے پوچھے ہوئے سوالات"ٹکرز" کی حیثیت سے چلتے رہتے ہیں۔ جج صاحبان کے پوچھے گئے ہر سوال کو مختلف سیاسی فریق اپنے اپنے موقف کے حساب سے مباحثہ کے طور پر بار بار بیان کرتے ہیں۔ اس صدارتی ریفرنس سے ہر جماعت کے سیاسی مفادات وابستہ ہیں۔
اگر پارٹی کی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر تاحیات نااہلی ہو جاتی ہے تو یہ فیصلہ، عدالت کی ہمارے نظام کی تطہیر کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ دولت کے ہاتھ بدلنے یعنی ہارس ٹریڈنگ پر پہلی بار ایک کاری ضرب پڑنے کا امکان واضح ہو جائے گا۔ شائد اس سے ہمارا سیاسی نظام بہتری کی جانب چل پڑے۔ ویسے مجھے تو بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔
شاید اب الیکٹیبلز کے مسائل میں پہلی بار اضافہ ہو جائے۔ یہ قوم کے لیے بڑی خوش خبری ہو گی۔ تمام آنکھیں عدالت کے اوپر مرکوز ہیں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ مختار رانا جیسے نظریاتی کارکن اب ہر سیاسی جماعت میں معدوم ہو چکے ہیں۔ سیاست ذاتی مفادات، اقربا پروری اور دولت کمانے کا ایک ادنیٰ طریقہ بن چکا ہے۔ شاید عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد کوئی فرق پڑ جائے۔