مشن اسکول گوپال گنج میں طلباء کی ایک عام سی سیاسی تقریب تھی۔ حسین شہید سہروردی اور اے کے فضل الحق مہمان خصوصی تھے۔ دونوں جید مسلمان رہنما تھے۔ وہاں ان کی ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی جس کا نام شیخ مجیب الرحمن تھا۔ مجیب کی باتوں میں حد درجہ جذباتیت اور مسلمانوں کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ تھا۔ انگریزوں کی غلامی کے بھی حد درجہ خلاف تھا۔ حسین شہید سہروردی نے مجیب کو بلایا اور ایک چٹ دی۔
جس پر کلکتہ میں اس کے گھر کا پتہ درج تھا۔ مجیب کو کہا کہ اگر واقعی تم مسلمانوں کے حق کے لیے سیاسی جدوجہد کرنا چاہتے ہوں تو فوری طور پر کلکتہ آ کر سنجیدہ بات چیت کرو۔ یہ 1938 کا وقت تھا۔ یعنی برصغیر اس وقت غلام تھا اور انگریزوں کے رحم و کرم پر تھا۔ مجیب حسب حکم کلکتہ چلا گیا۔ سہروردی سے ملاقات ہوئی۔ طے پایا کہ مسلم لیگ کا اسٹوڈنٹ ونگ بنایا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مجیب آل انڈیا مسلم لیگ کے طلباء ونگ کا جنرل سیکریٹری بن گیا۔
1940میں شیخ مجیب نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں بھی شمولیت اختیار کر لی۔ قائداعظم نے جب مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا تو شیخ مجیب کو ایسے لگا کہ یہ اس کے دل کی بات ہے۔ دیوانہ وار پاکستان حاصل کرنے کے لیے بنگالیوں میں قومی جذبہ جگانا شروع کیا۔ وسائل حد درجہ کم تھے۔ سائیکل پر سوار قائداعظم کے پیغام کو دیہاتوں تک لے کر جاتا تھا۔ سیکڑوں میل سائیکل چلا کر ہر مشکل جگہ پہنچتا تھا۔ لوگوں کو بتاتا تھا کہ محمد علی جناح، مسلمانوں کے عظیم لیڈر ہیں۔ اور پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہرقیمت پر اس عظیم شخص کا ساتھ دینا چاہیے۔ مجیب کی شدید محنت رنگ لائی۔
قائد کے ایک سپاہی کی حیثیت سے اس نے اپنا فرض نبھانے کی بھرپور کوشش کی اور کامیاب رہا۔ 1947 میں ڈھاکا منتقل ہو گیا اور اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ڈھاکا یونیورسٹی میں داخلہ ملنے تک مسلمان طلباء کا سب سے قد آور رہنما بن چکا تھا۔ پاکستان بننے کے تھوڑے عرصے بعد مجیب اور مسلم لیگ کے راستے جدا ہو گئے۔ اس نے عوامی مسلم لیگ تشکیل دی اس کے بعد کا سیاسی سفر حد درجہ عجیب تھا۔ شیخ مجیب جیسے محب وطن شخص کو قید و بند کی لا تعداد صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ مگر اس نے اپنے وطن کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ صرف بنگالی زبان اور ثقافت کو اپنے ملک کے آئینی فریم ورک میں قانونی شناخت دلوانا چاہتا تھا۔
1966 کو مجیب لاہور آیا اور اپنے چھ نکات پیش کیے۔ ان میں پارلیمانی طرز حکومت، صوبوں کے لیے اختیارات اور مرکز کے اختیار کو محدود کرنا شامل تھا۔ مگر کسی ایک جگہ بھی یہ نہیں کہا کہ اسے پاکستان نہیں چاہیے۔ مجیب کسی صورت میں پاکستان سے علیحدہ ہونے کا تصور تک نہیں کرتا تھا۔ اس کی تمام تقاریر، الیکشن کی سیاسی باتیں، مشرقی پاکستان کے لیے زیادہ اختیارات تک محدود تھی۔ مگر پھر کیا ہوا۔ مجیب اسٹیٹس کو کے خلاف تھا۔
اسٹیٹس کو قائم رکھنے والی تمام قوتوں نے اسے "غدار" قرار دے دیا۔ اسے قید کر لیا گیا۔ مکتی باہنی بنی۔ ہمارے ازلی دشمن ہندوستان نے لشکر کشی کر کے مشرقی پاکستان کا وجود ختم کر دیا مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شیخ مجیب قید کے دوران بھی پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ مغربی پاکستان کے مقتدر طبقے کی غلط پالیسیوں نے ملک توڑ کر رکھ دیا۔ باقی سب کچھ ہر ایک کے علم میں ہے۔ بنیادی نکتہ صرف ایک ہے۔
ایسا شخص جس نے قائد کے جھنڈے تلے پاکستان حاصل کرنے کے لیے مثالی جدوجہد کی، اسے باغی کیونکر بنایا گیا۔ وہ ریاست کا دشمن کیسے قرار پایا۔ یہ وہ سوالات ہیں، جن پر ہمارے ملک میں بہت کم بحث ہوتی ہے۔ مگر طالب علم کی دانست میں ان اہم ترین سوالوں کے جواب میں ہی موجودہ پاکستان کی بقا شامل ہے۔ ویسے عرض کرتا چلوں۔ اگر آپ اٹھارویں ترمیم ملاحظہ فرمائیں، تو وہ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات سے بہت آگے کی چیز ہے۔ مجیب تو اٹھارویں ترمیم جیسی صوبائی آزادی مانگنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
مگر ایک فرق ہے۔ پیپلزپارٹی نے صوبہ کی اکائی کو وسائل کے ذاتی استعمال پر ترتیب دیا۔ مگر مجیب اپنے چھ نکات کے ذریعے صرف وہ مراعات مانگ رہا تھا۔ جن سے مشرقی پاکستان، اپنے مغربی حصے کے ہم پلہ ہو سکے۔ مگر پیپلز پارٹی نہیں نہیں، موجودہ پارٹی قیادت کے نزدیک صوبائی وسائل کو ذاتی استعمال کرنے کا ہر جواز موجود ہے۔
بنیادی نکتہ کی طرف واپس آتا ہوں۔ مقتدر طبقے کے غلط سیاسی فیصلوں سے ملک ایک بار ٹوٹ چکا ہے، اور دوسری بار پورا ملک ایک بے یقینی کی کیفیت میں جا چکا ہے۔ کسی سیاسی جماعت سے مجھے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ صرف سیاست کا ایک غیر متعصب تجزیہ کار ہوں۔ میرے لیے کسی بھی جماعت کی کوئی اہمیت نہیں۔ اہمیت ہے تو صرف وطن عزیز کی۔ عشق ہے تو صرف پاکستان سے۔ جب اس ملک کے متعلق منفی معاملات دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پاکستان کی سالمیت اور ترقی کے لیے ایک بے لاگ قلمکار ہوں۔ یہی میری پہچان ہے اور رہے گی۔
موجودہ حالات میں پاکستان کے معاملات کو ہر سیاسی فریق اپنی اپنی سیاسی عینک کے عدسے سے دیکھ رہا ہے۔ پارٹی اور ذاتی مفادات سے بڑھ کر کوئی بھی بات کرنے کو تیار نہیں۔ ریاستی ادارے دباؤ میں کام کر رہے ہیں۔ تمام نظریں انھیں پر مرکوز ہیں۔ صرف ان میں ہی یہ صلاحیت ہے کہ ملک کو موجودہ بھنور سے نکال لیں۔ خان صاحب کی حکومت ہرگز ہرگز مثالی نہیں تھی۔ مسلسل لکھ رہا ہوں کہ وہ انا پرستی کا شکار ہیں اور کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ان کے تجربے اور تجزیہ سے بہت سے صاحب الرائے لوگوں کو اختلاف ہے۔ مگر جس طرح عمران خان کو ہٹایا گیا ہے۔ اس سے بہت سنجیدہ سوالات، سامنے آن کھڑے ہیں۔
ن لیگ کے اکابرین کے خلاف کرپشن کے الزامات عدالتوں کے ذریعے حل ہو جاتے اور انھیں بری کر دیا جاتا تو ان کی عزت میں اضافہ ہوتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ نیب کے قوانین کو شخصی فائدے کے لیے تبدیل کرنا، سابقہ حکومت کے بیرونی ووٹ بینک کو حق رائے دہی سے محروم کرنا، الیکشن میں ٹیکنالوجی کے ذریعے شفافیت لانے کے عمل کو برباد کرنا خطرناک فیصلے ہیں۔ صاف بات یہ ہے کہ اس سے یہ نقشہ ابھر کر سامنے آیا ہے کہ ملکی مفاد سے شخصی مفاد ہر طور پر مقدم ہے۔ دو ماہ کے سیاسی فیصلوں سے ملک عدم استحکام کی آخری دہلیز تک پہنچ چکا ہے، اور ریاستی اداروں کے علم میں تمام جزئیات ہیں۔
سیاسی عدم استحکام اور شخصی قانون سازی سے پورے ملک میں عمومی طور پر ایک یاسیت اور بے بسی کی کیفیت پھیل چکی ہے۔ لوگوں کی آنکھوں میں غصہ صاف نظر آتا ہے۔ ان میں مرنے مارنے کا رجحان بھی عروج پر ہے۔ یہ درست ہے کہ خان صاحب کی تبدیلی حسب روایت بین الاقوامی قوتوں کے احکامات پر ہوئی۔ درست اور غلط کا فیصلہ بہر حال تاریخ کرے گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ ریاستی اداروں کے فیصلوں سے اب ملک کے مستقبل کا فیصلہ ہو گا۔ ویسے یہ بھی ہماری خوش بختی ہے کہ ہمارے پاس کم از کم ایک ایسا ادارہ موجود ہے جس پر ہم یقین بھی کر سکتے ہیں اور فخر بھی۔ درست ہے کہ ان سے بھی ماضی میں غلطیاں ہوئی ہیں۔ مگر انھوں نے اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس وقت پورا ملک نزاع کی کیفیت میں ہے۔
دو صوبوں یعنی بلوچستان اور کے پی میں باقاعدہ جنگ ہو رہی ہے۔ کے پی میں تو بحریہ کے علاوہ ہر قوت کا استعمال کیا جا چکا ہے۔ اور تقریباً یہی حال بلوچستان کا ہے۔ ہندوستان اس جنگ میں مالی اور عسکری وسائل مہیا کر رہا ہے۔
ان کے آرمی چیف کے مطابق، آزاد کشمیر پر وہ حملہ کر سکتے ہیں۔ یعنی اس وقت ہم لوگ ہر طرف سے مصائب میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہم کسی صورت میں اندرونی بدامنی، سیاسی اور معاشی عدم استحکام برداشت نہیں کر سکتے۔ ہماری جغرافیائی سالمیت تک حد درجہ خطرات کاشکار ہے۔ اس وقت ٹھوس، سنجیدہ اور غیر متعصب فیصلے کرنے کے علاوہ کسی ادارے کے پاس بھی کوئی دوسری آپشن میسر نہیں ہے۔
معاملہ فہمی کا اب صرف ایک رخ باقی رہ گیا ہے۔ شفاف ترین الیکشن فوری طور پر کروا کر جیتنے والے فریق کو حکومت سونپ دی جائے۔ خدانخواستہ یہ نہ ہو کہ کوئی قومی لیڈر، شیخ مجیب الرحمن کی طرح عمل کرنا شروع کر دے۔ الیکشن اب واحد بے لاگ حل رہ گیا ہے۔ باقی سب کھوکھلے نعرے ہیں۔