Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Hamare Pas Un Ginat Gobials Hain

    Hamare Pas Un Ginat Gobials Hain

    پال جوزف گوئبلزاپنی ابتدائی زندگی میں مکمل طور پرناکام انسان تھا۔ صحت خراب ہونے کے علاوہ اوائل عمری میں ایک ناکام آپریشن کی بدولت اس کی ایک ٹانگ دوسری سے چھوٹی ہوگئی تھی۔ توازن رکھنے کے لیے خاص قسم کے جوتے پہننے پڑتے تھے۔

    گوئبلزقسمت آزمانے کے لیے مختلف کام کرتارہا۔ صحافت سے منسلک ہوکر ایک مقامی اخبارمیں کام کرناشروع کردیا۔ مگراس کے لکھے ہوئے اداریے مکمل طورپر بے جان تھے۔ اخبار کو گوئبلز کی بدولت کافی نقصان ہوااور بالآخر بند ہوگیا۔ گوئبلز دوبارہ بیروزگارہوگیا۔ اس نے پرائیویٹ ٹیوشن پڑھانی شروع کردی۔ مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی۔ پھر ناول لکھنے شروع کردیے۔ یہ 1921کازمانہ تھا۔ اس کے ناول اور ڈرامے بھی بے تاثیر ثابت ہوئے۔ اس کے ڈرامے اس قدرادنیٰ قراردیے گئے کہ کوئی بھی فروخت نہ ہوسکا۔

    گوئبلزاسٹاک ایکسچینج میں ہاکربھرتی ہوگیا۔ زور زورسے تاجروں کوحصص کی قیمت بتاتا تھا۔ محنت زیادہ مگرتنخواہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس نوکری کوچھوڑ کر گوئبلزایک بینک میں کلرک بھرتی ہوگیا۔ ناقص کارکردگی کی بدولت اسے ملازمت سے برخواست کردیاگیا۔ گوئبلزاب ناکام اور غربت میں ڈوباہواانسان تھا۔ روزانہ اپنی ڈائری لکھتا تھا۔ جرمن تاریخ نویس پیٹرلونگریچ (Peter Longerich)نے اس کی ڈائریاں پڑھنے کے بعد لکھاکہ وہ ایک نامرادانسان کی مایوس کن تحریریں تھیں۔

    1924 میں ایک ایساواقعہ ہواجس نے گوئبلز کوقلیل عرصے میں جرمنی کااہم ترین شخص بنادیا۔ اس سال ہٹلراپنے انقلابی خیالات کی بدولت جیل میں تھا۔ گوئبلز مقدمہ کی ہرتاریخ پرخودجاتاتھا۔ ہٹلرکے خیالات سے متاثرہوکر نازی تحریک کاحصہ بن گیا۔ ہٹلرجیل سے باہرآیاتوگوئبلزاسکاقابل اعتمادساتھی تھا۔ ہٹلر ہراہم بات میں گوئبلزسے مشاورت کرتاتھا۔ گوئبلزنے اپنے جسمانی نقص کوفن تقریرمیں چھپالیاتھا۔ ہٹلرکے ساتھ ہرجگہ تقریریں کرتاتھا۔ تقریرکرنے سے پہلے گھنٹوں شیشے کے سامنے اس کی مشق کرتاتھا۔ ہاتھ کہاں اُٹھانا ہے۔ میز پرمکاکب مارناہے۔ نعرے کس طرح لگانے اور لگوانے ہیں۔

    مسلسل مشق نے اسے ایک پُر تاثیر مقرر میں تبدیل کردیا۔ ہٹلربھی بہترین مقررتھااورگوئبلزبھی فن تقریر میں اپنے لیڈرسے پیچھے نہیں تھا۔ یہ دونوں جلسوں میں لوگوں کودیوانہ کردیتے تھے۔ 1932 کے الیکشن کے نتیجہ میں نازی پارٹی کامیاب ہوئی۔ 1933 میں ہٹلر جرمنی کا چانسلر مقرر ہوگیا۔ گوئبلز، چانسلر ہٹلر کو جینئس کہا کرتا تھا۔ زبان کے بہترین استعمال کی بدولت ہٹلر کاسایہ بن چکا تھا۔ گوئبلزکوہٹلرنے پروپیگنڈے کی وزارت تھمادی۔ اس نے پروپیگنڈے کوایک ایسی سائنس بنادیا جس میں آج تک اسکاکوئی ثانی نہیں ہے۔

    دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پرجرمن افواج ہرجگہ شکست کھارہی تھی۔ مگر گوئبلز انھیں "وقتی نقصان" قرار دیتاتھا۔ اس نے لوگوں کو یقین دلا دیا تھا کہ جرمنی کو شکست دیناناممکن ہے۔ لوگ، اس کی ہر بات پرسردھنتے تھے۔ اس وقت ریڈیو نیا نیا ایجاد ہوا تھا۔ گوئبلزنے ریڈیو پروپیگنڈے کے ذریعے ثابت کردیاکہ ہٹلرسے عظیم لیڈردنیامیں کوئی بھی نہیں ہے۔

    اوریہ جرمن قوم کی خوش قسمتی ہے کہ ہٹلر ان کا قائد ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے آخری دن تک گوئبلزلوگوں کویہی بتاتارہاکہ فتح بالکل نزدیک ہے۔ روس اور دیگر افواج، برلن پرقبضہ نہیں کر سکتیں۔ مگرواقعات مختلف سمت میں چل رہے تھے۔ جرمنی کوعبرتناک شکست ہوئی۔ ہٹلر اور گوئبلز بے نام و نشان ہوکررہ گئے۔

    گوئبلزکہتاتھاکہ کوئی بھی حکومتی سچ نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی ریاستی جھوٹ ہوتاہے۔ یہ کسی بھی حکومت کی اہلیت پرمبنی ہوتاہے کہ وہ جھوٹ کوحقیقت بناکرپیش کر دے اورسچ کومعدوم کردے۔ گوئبلزکے بقول عوام کی اکثریت کاذہن خام ہوتاہے۔ پروپیگنڈے کی طاقت سے عوام کاذہن کسی بھی طرف لیجایا جا سکتا ہے۔ نعرے، جذباتیت، پُرجوش تقاریر، فلموں، ڈراموں، ریڈیو اور اخبارات سے بڑی کوئی طاقت نہیں ہوتی۔ حقیقت کا صرف اس وقت پتہ چلتاہے جب ہرچیزبربادہوچکی ہوتی ہے۔ آپ بھی زندہ نہیں ہوتے۔ لہٰذا، آپکو جھوٹ بولنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ عام لوگ لاعلمی میں آپکو ہیروکادرجہ دیتے ہیں۔

    اس کے علاوہ بھی گوئبلزنے بہت کچھ لکھا اورکہا۔ طالبعلم کوگوئبلزکے کردارسے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ ایک دروغ گواورنسلی دہشت گرد تھا۔ یہودیوں کے قتلِ عام میں اسکابہت ہاتھ تھا۔ مگرآج بھی گوئبلزکے کسی بھی حکومت کے متعلق حقائق، سچ اور جھوٹ کی تھیوری بالکل درست ہے۔ ہرریاست کا اپنا سچ ہے۔ ہر حکومت کااپناایک حقیقی بیانیہ ہے۔ سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین بھی بالکل اسی طرح کے ہیں۔ ہرایک کااپنااپنامخصوص سچ ہے۔ جسکے سامنے حقیقت کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہمیں بتایاجاتاہے کہ حالتِ جنگ میں رہناہماری بقاء کاواحدسچ ہے۔ لہٰذاآپ اس کو فوراً مان جاؤ۔ اگرآپ خدانخواستہ کوئی سوال کریں، توآپ کہیں کے نہیں رہیں گے۔ انسان کے روپ میں بھیڑیوں کاایک گروہ آپکی تکہ بوٹی کردیگا۔

    حالیہ واقعات کی مثال سامنے رکھیں۔ بلکہ تھوڑا سا ماضی سے استفادہ کرلیں۔ پاکستان میں پہلامارشل لاء کسی جرنیل نے نہیں لگایاتھا۔ بلکہ سولین صدر سکندر مرزانے7اکتوبر1958کوآئین پامال کر دیا تھا۔ مارشل لاء لگاتے ہوئے سکندرمرزانے جوتقریرکی تھی۔ اس میں کہاگیاتھاکہ " سیاسی حکومت مکمل طورپرناکام ہوچکی ہے۔ امن عامہ کی صورتحال حددرجہ نازک ہے۔

    سیاستدان ہرطرح کی کرپشن میں ملوث ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں اتنی اہلیت ہی نہیں کہ ملک کاکوئی بھی مسئلہ حل کر سکیں "۔ سیاستدانوں کوناکام یاکامیاب قراردینے سے کوئی عملی فرق نہیں پڑتا۔ یہ اقتدارکے کھیل کاحصہ ہے۔ مگرکیایہ حددرجہ عجیب بات نہیں کہ جب بھی کسی بھی سیاسی حکومت کوختم کیاگیاتوبالکل ویسے ہی الزامات لگے جو1958میں لگائے گئے تھے۔ صدرسکندرمرزاصرف تین ہفتے اپنے عہدے پرقائم رہ سکے۔

    گزشتہ چھ دہائیوں سے تمام اہم لوگ ایک دوسرے پرایک جیسے الزامات لگارہے ہیں۔ رَتی برابر بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ خیریہ توچھ دہائیاں پہلے کی بات ہے۔ اس پرکون غورکریگا۔ مگرصرف چاردن پہلے، لندن ہائیکورٹ جسٹس میتھیونکلن(Justice Mathew Nicklin)نے شہبازشریف اورڈیلی میل اخبارکی خبرکے متعلق جوکچھ حددرجہ ابتدائی طور پر کہاہے۔ اسے ہرسیاسی فریق، مکمل سچ بناکرپیش کر رہا ہے۔ حدتویہ ہے کہ کسی لکھے ہوئے فیصلے کے بغیرتمام فریق خوشیاں منارہے ہیں۔ مٹھائیاں تقسیم کی جارہی ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے اکابرین بھرپورطورپرپریس کانفرنس فرمارہے ہیں کہ شہبازشریف بے قصورثابت ہوچکے ہیں۔ اس کے بالکل متضاد، مشیربرائے احتساب فرمارہے ہیں کہ ابھی توکوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ یہ توابتدائی ریمارکس ہیں۔ ابھی توعدالت کے سامنے ثبوت پیش کیے جائینگے۔ پھر طویل مدت سماعت کے بعدبرطانوی عدالت فیصلہ کریگی۔ مسلم لیگ ن سے منسلک لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ شہبازشریف کوبرطانوی عدالت نے کلین چٹ دیدی ہے۔ تحریک انصاف اس کے بالکل اُلٹ بات کررہی ہے۔ آج تک کسی بھی فریق کے پاس لکھاہواعدالتی فیصلہ موجودنہیں ہے۔ ثابت تو یہی ہوتا ہے کہ جسطرح گوئبلزسیاسی معاملات میں جھوٹ اورسچ کی تفریق کوتسلیم نہیں کرتاتھا۔ بعینہ یہی حال ہمارے سیاسی معاملات کاہے۔

    ساٹھ برس میں ہماری کسی بھی حکومت کاعوامی مسائل سے رابطہ تقریباًنہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ بلندوبانگ دعوے سنیں تولگتاہے کہ پاکستان راکٹ کی رفتار سے ترقی کررہاہے۔ مگرایساکچھ بھی نہیں ہورہا۔ ترقیاتی کاموں کی ڈگڈگی بجاکرکوئی ناجائزپیسے کے انبار لگارہاہے۔ کوئی جمہوریت کواتناپختہ کررہاہے کہ ملک کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔

    کوئی تبدیلی کے نام پرلوگوں کی اقتصادی روح قبض کررہاہے۔ کوئی مذہبی روپ دھار کر لوگوں کومنتشراورفرقہ پرست بنارہاہے۔ یہ تمام لوگ، اپنے اپنے گروہوں کے لیے مکمل طورپرصادق اور امین ہیں۔ ان سے اختلاف کرنے والے بھرپورطریقے سے دروغ گواورکازب ہیں۔ جرمنی میں تو پروپیگنڈے کا بادشاہ، گوئبلزصرف ایک تھا۔ یہاں توہراہم گروہ اور جماعت کے پاس درجنوں گوئبلز موجود ہیں۔ جو سارا دن اپناسچ فروخت کرتے ہیں۔ ملک جہاں تھا، وہیں کھڑاہے۔ باتی آپ خودسمجھدارہیں؟