ہارون رشید بنو عباس کے دور کا ایک کامیاب ترین حکمران تھا۔ اہل علم کی سرپرستی، حاجت مندوں کی رواداری اور ساتھ ساتھ بے مثال فتوحات اس کے دور کے درخشندہ کارنامے رہے۔ خزانہ، ذاتی دولت، جاہ و جلال اور شخصیت بے مثال تھی۔ بہر حال وہ ایک انسان ہی تھا۔
عام انسان کی مثبت اور منفی جبلتیں اس میں بھی موجود تھیں۔ ہارون رشید ہی کے دورمیں دربار سے منسلک برمکی خاندان بھی تھا۔ اس زمانہ کی تاریخ پڑھیں تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ دربار کا کوئی ایسا عہدہ نہیں تھا جو اس خاندان کے پاس نہ ہو۔ جعفر برمکی وزیراعظم ہونے کے ساتھ ساتھ فوج کا سپہ سالار بھی تھا۔
اسی طرح یحییٰ برمکی اور فضل برمکی، خلیفہ کے دربار میں سب سے مقدم شخصیات تھے۔ برامکہ، بادشاہ سے نسبت کی بدولت حد درجہ امیر اور شان و شوکت کے مالک تھے۔ ان کے محلات اسی پر شکوہ سطح کے تھے جو ہارون کے پاس تھے۔
لاکھوں افراد پر مشتمل فوج ان کے اشارہ ابرو کی منتظر رہتی تھی۔ جاگیریں، زرخیز ترین تھیں۔ قصیدہ خانوں کے گروہ، برامکہ کی فیاضی سے فیض یاب ہوتے تھے۔ ہارون رشید برامکہ کے بغیر سانس نہیں لیتا تھا۔ مگر پھر وہی ہوا جو تاریخ میں اکثر اوقات ہوتا آیا ہے۔ متعدد وجوہات کی بدولت، ہارون رشید اپنے ہی وفادار برمکی خاندان سے بدگمان ہوگیا۔ طویل عرصہ تک سوچتا رہا کہ برامکہ سے جان کیسے چھڑوائے۔
اس کے پاس ایک سفاک ترین جلاد تھا جس کا نام مسرور تھا۔ اور وہ خلیفہ کا وفادار بھی تھا۔ رات کے پچھلے پہر، ہارون رشید نے مسرور کوطلب کیا۔ حکم دیا کہ اسے ایک حد درجہ راز داری والا کام سونپنا چاہتا ہے۔ مسرور نے خنجر نکلا اور خلیفہ کے ہاتھ میں دے دیا۔
اپنی گردن پیش کر دی کہ آپ کے لیے جان حاضر ہے۔ بادشاہ نے حد درجہ خاموش آواز میں حکم دیا کہ جاؤ اور جعفر برمکی کا سرکاٹ کر میرے پاس لے آؤ۔ مسرورجلاد، ایک دم سن ہوگیا۔ گمان میں بھی نہیں تھا کہ خلیفہ، اپنے وقت کے طاقتور ترین شخص کو قتل کرنے کا حکم دے گا۔ بہر حال، ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت مسرور، جعفر کو ایک خیمہ میں لے گیا۔ جعفر اس وقت نہتا تھا۔
"مسرور نے کہا تم اس معاملہ کو خود خوب جانتے ہو، اب تمہارا وقت آخر آ پہنچا۔ امیر المومنین نے حکم دیا ہے کہ میں تمہارا سر کاٹ کر ان کے حضور میں فوراً پیش کروں۔ جعفر یہ سن کر رونے لگا اور مسرور کے ہاتھ اور پاؤں چوم کر کہا کہ اے برادر اے مسرور! تم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہو کہ شاہی غلاموں میں اور خاندان شاہی میں مجھے تمہاری خاطر سب سے زیادہ منظور تھی اور تم مجھ سے جو کہا کرتے تھے میں ہمیشہ تمہارے سب کام چاہے دن ہو یا رات ہو کر دیا کرتا تھا۔ تم جانتے ہو کہ میرا کیا رتبہ ہے اور امیر المومنین پر میرا کس قدر اقتدار ہے۔
امیر المومنین سے میری چغلی کھائی ہے اگر تم مجھ کو یہاں سے صرف چلے جانے کی اجازت دے دو تو میں تم کو دو لاکھ دینار ابھی لا کر دے دوں گا۔ مسرور نے کہا کہ نہیں میں اجازت نہیں دے سکتا۔ تب جعفر نے کہا کہ اچھا مجھے خلیفہ کے سامنے ہی لے چلو۔ شاید مجھے دیکھ کر اس کو رحم آ جائے اور معاف کر دے۔ "مسرور نے خیمہ میں جعفر کی گردن اڑا دی۔ اور سر لے کر ہارون رشید کے کمرے میں پیش ہوگیا۔
خلیفہ نے سر دیکھ کر ایک بڑا سانس بھرا اور زارو قطار رویا۔ خلیفہ بولتا جاتا تھا اور ایک ایک لفظ پر اپنی لکڑی سے زمین کھودتا جاتا تھا اور بعض وقت لکڑی کو اپنے دانتوں سے کاٹتا تھا۔ پھر سر کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ اے جعفر! کیا تجھے میں نے اپنے برابر نہیں کر لیا تھا؟
اے جعفر تو نے میرا حق نمک بھلا دیا اور تو نے ان سب باتوں کے نتیجہ پر خیال نہیں کیا اور یہ بھی خیال نہیں کیا کہ زمانہ ایک دم میں بدل جاتا ہے اور انسان کی حالت دگر گوں ہو جاتی ہے اور قسمت ذرا کی ذرا میں پلٹ جاتی ہے۔ اے جعفر تو نے مجھ کو دھوکا دیا اور تمام آدمیوں کے سامنے مجھے کلمات نا سزا کہے۔ اے جعفر تو نے اپنے تئیں اور مجھ کو بھی دونوں کو برابر کر دیا۔
اس کے بعد یحییٰ برمکی اور فضل کو بھی پابند سلاسل کر دیا گیا۔ ایک ہی رات میں برمکی خاندان کے تقریباً ایک ہزار لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ ان کے محلات پر بادشاہ قابض ہوگیا۔ ان کی خواتین کو دھکے مار مار کر محلات سے بے گھر کر دیا گیا۔ برامکہ قلیل عرصہ میں رزق خاک بن گئے-
یحییٰ نے ستر برس کی عمر میں ماہ نومبر 805ء میں جیل خانہ میں قضا کی۔ یحییٰ کے مرنے کے بعد بستر پر سے ایک کاغذ کا پرچہ ملا جس میں ذیل الفاظ تحریر تھے۔ مستغیث عدالت کے روبرو جاتا ہے اور مستغاث علیہ بھی اس کے پیچھے بہت جلد آنے والاہے۔ اس عدالت کا مجسٹریٹ ایسا شخص منصب (خدائے تعالی) ہے جو کبھی غلطی نہیں کرتا۔ یحییٰ کے انتقال کے تین برس کے بعد فضل بھی قید خانہ میں پھوڑا نکل آنے سے مر گیا۔
گزارش کرنے کا مقصد صرف ایک ہے۔ بادشاہ یا اس کو کوئی بھی نام دے دیجیے۔ کبھی بھی سوائے اپنے تخت اور اقتدار کے کسی کا بھی نہیں ہوتا۔ بادشاہ کا کوئی دوست نہیں ہوتا اور وہ بھی کسی کا دوست نہیں ہوتا۔ ہر انسان سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہر حکمران کی سرشت میں شامل ہوتا ہے۔ ہزاروں برس سے کوئی بھی اس سے مفر حاصل نہیں کر سکا۔
برصغیر کی تاریخ بھی ہارون رشید کی سفاکی اور برامکہ کے انجام جیسے متعدد المناک واقعات سے اٹی ہوئی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی بعینہ یہی حال ہے۔ بلکہ یہ عرض کرونگا کہ، پسماندہ ملکوں میں حکمرانوں کاکامل رویہ ایک جیسا ہے۔ اسی تناظر میں ملکی تاریخ کے ستر سال دیکھیے تو آپ کو اکثر واقعات سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ کسی قسم کی حیرت بھی نہیں ہوتی۔ اب ایک سنجیدہ نکتہ کی طرف آتا ہوں۔ کسی آئینی یا قانونی بحث کے بغیر عرض کرونگا کہ پاکستان اور ہمارے جیسے تمام ممالک میں وہ ریاستی ادارے جن کے پاس طاقت ہے۔ اختیار خودبخود انھی کے پاس چلا جاتا ہے۔ یہ ایک قدرتی اصول ہے۔
قدیم زمانے میں یہ کھل کر سب کے سامنے ہوتا تھا۔ مگر اب اسے جمہوریت کے لبادے میں چھپا لیا جاتا ہے۔ یعنی جو اصل حاکم نہیں، ان کا نام ہر کسی کو معلوم ہوتا ہے۔ مگر ان کا حق حکمرانی بالکل برہنہ نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں اصل بادشاہ یا حکمرانی ہمیشہ سے انھیں کے پاس رہی ہے۔ ذہین سیاست دان وہ ہیں، جو اس باریکی کو سمجھ جاتے ہیں۔ اور اپنی ثانوی حیثیت کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ شاید آج کے دور میں یہ عملیت پسندی اعلیٰ مثال سمجھی جاتی ہے۔
خلیفہ ہارون رشید اور برمکی خاندان کو ایک استعارے کے طور پر استعمال فرمایے کہ بادشاہ یا اصل حکمران اور سیاست دانوں کااصل رشتہ کیا ہے۔ سیاست دان جو بظاہر حکومت کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر جس دن وقت کے ہارون رشید یا بادشاہ کے ذہن میں بدگمانی آجائے۔ اسی وقت، کسی بھی مضبوط ترین سیاسی خانوادہ کا حال، برامکہ جیسا کر دیا جاتا ہے۔ زیادہ دور ماضی میں نہ جائیے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے متعلق جب یہ محسوس کیا گیا کہ یہ طاقت کے منبع کو چیلنج کر سکتا ہے۔ اسی دم، نہ صرف اسے اقتدار سے نکال دیا گیا بلکہ ہارون رشید کے سفاک جلاد مسرور کے طرز عمل کے برعکس جدید طریقے سے مار دیا گیا۔ لازم ہے کہ بھٹو کو اندرونی نظام پر قابض بادشاہ کے احکامات پر قتل کیا گیا۔
بھٹو خاندان کا نام و نشان مٹانے کی بھرپور ریاستی کوشش ہوئی۔ یہی سب کچھ آل شریف کے ساتھ ہوا۔ جیسے ہی نواز شریف نے مقتدر قوتوں کے سامنے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔ حکومتی جبر کے تحت جلاوطنی تک ہوگئی۔
مگر آل شریف ایک لحاظ سے خوش قسمت تھے، کہ سعودی فرماں روا کی سفارش پر ان کی جان بخشی کر دی گئی۔ جب اس وقت کا بادشاہ، جسٹس چوہدری کے حق میں چلنے والی وکلاء کی مہم کے سبب کمزور ہوگیا۔ توپھر منظر نامہ بدل گیا۔ پنجاب کے صوبہ کا اقتدار آل شریف کو سونپا گیا۔ اس کے بعد کے حالات سب کے ذہنوں میں کنداں ہیں۔
خان صاحب کے ساتھ بالکل وہی ہوا جو ہماری سیاسی تاریخ میں ہوتا آیا ہے۔ جس طاقت نے انھیں حکومت عطا کی تھی۔ ہارون رشید کی طرح وہ بھی ان سے خفا ہوگئی۔ ان سے آل برامکہ والا سلوک، خاص ڈھکے چھپے انداز میں جاری ہے۔ جاننے والے سب جانتے ہیں۔ سیاست دانوں میں زرداری نے طاقت کے اصل سرچشمہ کو پہچان لیا ہے۔
اپنی ثانوی حیثیت قبول کرلی ہے۔ نتیجہ یہ ملکی سیاست میں اہم کردار بن چکا ہے۔ ہر دور کا خلیفہ، بادشاہ، ظل الٰہی یا نظر نہ آنے والے شہنشاہ کا عملی رویہ حیرت انگیز طور پر یکساں ہے۔ وہی درباری سازشیں، مخصوص خواتین کی باہمی حسد، وہی درباریوں کی باہی چشمک اور وہی گردن کاٹنے کا عمل۔ طاقت کے اصول کم از کم آج تک ہمارے خطے میں نہیں بدلے۔ اور شاید آنے والی صدیوں میں بھی ایسے ہی رہیں گے!