بہادر شاہ ظفر آخری تاجدار ہند تھا۔ فیل خانے میں ایک سفید ہاتھی بھی تھا۔ بادشاہ خاص موقعوں پر اس پر سواری کرتا تھا۔ اسے وہ ہاتھی بہت عزیز تھا۔ سفید ہاتھی بھی بادشاہ سے بہت انس رکھتا تھا۔ غدر مچا۔ بادشاہ دربدر ہو گیا۔ اب باری تھی، بہادر شاہ ظفر کے اثاثے فروخت کرنے کی۔ آہستہ آہستہ یہ دردناک کام بھی شروع ہوگیا۔ جب سفید ہاتھی کی باری آئی۔
یعنی نیلام ہونے کی۔ تو ایک پنساری نے سب سے زیادہ بولی لگا ڈالی۔ پنساری پکا بنیا تھا۔ مگر خاندانی نہ تھا۔ حسب نسب کا کچھ معلوم نہیں تھا۔ نجیب الطرفین ہونا تو دور کی بات، وہ تو اپنی پیڑھی کا پہلا امیر آدمی تھا۔ جب ہاتھی نیلامی میں خرید لیا۔ نئے مہاوت کو حکم دیا کہ جلد اسے میرے گھر لے چلو۔ مگر سفید فیل ٹس سے مس نہ ہوا۔ اسے زبردستی آگے پیچھے کیا گیا۔ مگر ساکت کھڑا رہا۔ مہاوت کس کس کے جانور کے سر پر لوہا مارتا رہا۔ مگر ہاتھی تھا کہ بالکل چپ چاپ خاموش تھا۔ اب پنساری کو غصہ چڑھا اور اس نے ہنٹر سے ہاتھی کو پیٹنا شروع کر دیا۔ پرانا مہاوت ساتھ کھڑا تھا۔ ہاتھی نے اپنے پرانے مہاوت کو غور سے دیکھا۔ پھرچنگھاڑ ماری اور زمین پر گر گیا۔ وہ دم توڑ چکا تھا۔
مرتے مرتے مر گیا مگر پنساری کے گھر نہیں گیا۔ وہ بادشاہ کو سواری کرواتا تھا۔ اس کی نظر میں جب اچھا مالک ہی نہ رہا تو ادنیٰ مالک کی کیا حیثیت! عرض کرنی تھی کہ حالات صرف ہمارے اوپر اثر نہیں کرتے بلکہ پرندوں اور جانوروں کو بھی زیر بار کر دیتے ہیں۔ اب ملک میں صرف سیاست رہ گئی ہے۔ وہ بھی حد درجہ ادنیٰ درجہ کی۔ آگے کیا ہو گا۔ اس کا سوچتے ہوئے بھی خوف ذہن پر منڈلانے لگتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ سیاست پر کچھ نہ لکھوں۔ مگر کیا کروں۔ حالات سے ہر ذی شعور متاثر ہوتا ہے۔ ویسے جانور بھی اتنے ہی متاثر ہوتے ہیں۔
ذرا غور فرمائیے۔ ایف اے ٹی ایف نے صرف یہ کہا ہے کہ پاکستان نے گرے لسٹ میں سے نکلنے کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں۔ حد درجہ اچھی خبر ہے۔ مگر ذرا ہلکا پن دیکھیے کہ ہر کوئی اس کامیابی کو اپنے زمرے میں ڈال کر قوم سے داد وصول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 2018 میں جس وقت پاکستان اس عذاب کا شکار ہوا، تو حکومت سو فیصد مسلم لیگ ن کی تھی۔ اس ابتری کی ذمے داری آج وہ لینے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ اس کے بعد ایک سال کاوقت تھا۔ جس میں تمام نکات پر پیش رفت ہونی تھی۔ اس وقت تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ ایک سال کے طویل عرصے میں وہ بھی کچھ نہ کر پائے۔ پھر بتدریج تمام نکات پر کام مجبوری میں شروع کیا گیا۔ پھر خان صاحب کے دل میں معلوم نہیں کیا خیال آیا کہ امریکا کے در پے ہو گئے۔
دنیا کے طاقتور ترین ملک کے لتے لینے شروع کر دیے۔ نتیجہ یہ کہ کمزور تر ہونے کی بدولت حکومت سے نکالے گئے۔ پھر وہی لوگ حکومت میں آ گئے۔ جن کی وجہ سے پاکستان گرے لسٹ میں آیا تھا۔ اب فرق صرف اتنا تھا کہ امریکا انھیں اپنے لیے بہتر سمجھتا تھا۔ لہٰذا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس سے چند دن پہلے واشگاف الفاظ میں کہا کہ پاکستان کے ساتھ ہم اپنے تعلقات بہتر کر رہے ہیں۔ لازم ہے کہ امریکی سفارت کاروں نے پس پردہ تمام ہوم ورک بھی مکمل کیا ہو گا۔ جس کی بدولت ہمارے متعلق اعلان ہوا کہ پاکستان نے تمام شرائط پر عمل درآمد کر لیا ہے، مگر ہر باخبر انسان جانتا ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کی اکثریت آج بھی کن خفیہ ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں۔
کراچی میں تشدد سے یہ بھی نکتہ سامنے آتا ہے کہ ان جماعتوں کے پاس اسلحہ بھی موجود ہے۔ عرض کرنے کا مقصد سادہ سا ہے۔ ہمارے ملک میں زمینی حقائق بالکل وہی ہیں جو پہلے تھے۔ آج بھی کرنسی کے ڈیلر، آپ کو دس روپے زیادہ ادا کرنے پر کوئی بھی مغربی کرنسی، بغیر کچھ پوچھے ہوئے بیچ رہے ہیں۔ بس فرق صرف ایک ہے کہ اب دنیا کی واحد سپر پاور ہمارے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔ باقی سب کچھ عبث ہے۔ وہی پی ڈی ایم جس نے صرف چند ماہ پہلے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کی تمام قانون سازی کے خلاف تقاریر فرمائیں تھیں۔ قومی اسمبلی سے واک آوٹ کیا تھا۔ آج وہ بھی ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ جناب یہ تو ہماری دو ماہ کی محنت ہے جس کی بدولت آج ملک اس فہرست سے تھوڑا سا باہر آیا ہے۔ لازم ہے ہندوستان بھی موجودہ حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ حقیقت میں امریکی لابی نے ہمیں یہ سہولت دلوائی ہے۔ باقی نعرے بازی اور سیاسی ہنگام تو ہمیشہ کی طرح چلتا ہی رہے گا۔
اگر سچائی سے حالات کو پرکھا جائے تو یہ 1970 سے بھی زیادہ دگر گوں ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن کی وہ تقریر جو انھوں نے جنرل یحییٰ سے ملنے کے بعد ڈھاکا میں کی تھی۔ ہر لحاظ سے آفاقی تھی۔ اسے د نیا کی سو موثر ترین تقاریر میں شامل کیا گیا ہے۔ اس تقریر کے آخر میں مجیب الرحمن نے "پاکستان زندہ باد" کا نعرہ لگایا تھا۔ یعنی اس عظیم سیاست دان نے پاکستان کے ساتھ رہنے کی بات کی تھی۔ عوامی لیگ کی نشستیں پیپلزپارٹی سے دگنی تھیں۔
مگر اکثریتی پارٹی کو سازش کے تحت اقتدار دینے سے انکار کر دیا گیا۔ نتیجہ سب کو معلوم ہے۔ جو ہزیمت اٹھانی پڑی جو آج بھی ہماری تضحیک کا باعث ہے۔ ہندوستان کے تمام اہم دفاتر میں جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کی تصویر نمایاں جگہ پر لگی ہوئی ہے۔ وجہ کیا تھی۔ اصل نکتہ کیا تھا۔ سازش کے تحت، اکثریتی سیاسی جماعت کو اقتدار نہیں دیا گیا تھا۔ سوال ہے کہ اس وقت کیا ہو رہا ہے۔
قومی اسمبلی میں آج بھی تحریک انصاف کی اکثریت ہے۔ تھوڑے سے حوصلہ سے بات سنیے۔ عمران خان کی طرز حکمرانی حد درجہ ناقص تھی۔ اس میں تکبر اور غرور بھی غالب تھا۔ ان کی سرکار غیر مقبولیت کی آخری حدیں چھو رہی تھی۔ مگر نکالنے سے خان صاحب کی مقبولیت حد درجہ بڑھ چکی ہے، اگر الیکشن شفاف طور پر ہوئے تو تحریک انصاف جیت بھی سکتی ہے۔ مقتدر حلقوں سے غلطی ہوئی۔ وہ خان کو حد درجہ متضاد طور پر مقبول کر چکے ہیں۔ یہ تجزیہ کی وہی غلطی ہے جو یحییٰ خان اور ان کے حواریوں نے کی تھی۔ جنرل یحییٰ کو بتایا گیا تھا کہ الیکشن کروا دو۔ کوئی بھی سیاسی فریق کامیابی حاصل نہیں کر سکے گا۔ اور صدارت آپ کے پاس ہی رہے گی۔
یہ مشورہ اس وقت کے تمام حساس اداروں کی جانب سے دیا گیا تھا۔ شاید اس بار بھی یہی ہوا ہے۔ یہ غلطی ملک کو حد درجہ مہنگی پڑ چکی ہے۔ ہر چیز تو دور، ملک تک کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔ نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ باخبر ترین حلقے یہ بتاتے ہیں کہ موجودہ سیاسی سیٹ اپ کو اگلے پانچ سال بھی دیے جائیں گے۔
ممکن ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر، آنے والے چناؤ میں ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے۔ یہ سب کچھ لوگ غور سے دیکھ رہے ہیں۔ پنجاب میں بھی صورت حال بہت خوفناک ہے۔ کسی بھی غیر متعصب فریق کو معلوم نہیں کہ موجودہ وزیراعلیٰ کے پاس کتنے ووٹ ہیں۔ ان کی عددی اکثریت کتنی ہے۔ بجٹ پیش کرتے ہوئے بھی صوبائی اسمبلی کو چھوڑ کر ایک غیر مناسب جگہ پر اجلاس کرنا کسی طور پر کوئی اچھی روایت نہیں۔ یہ سب کچھ کس کی ایماء پر ہو رہا ہے۔ سب کو معلوم ہو چکا ہے۔ مگر تمام لوگ بے بس ہیں۔ کڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔
خان صاحب کا سیاسی مستقبل آج کے حالات کے مطابق مخدوش تر ہے۔ مگر ترپ کا پتہ اسی شخص کی جیب میں ہے۔ اگر اس نے حقائق بتانے شروع کر دیے۔ اگر اس نے لوگو ں کو حکومت سے نکالنے والے کردار کھولنے شروع کر دیے۔ تو عوامی نفرت کا سیلاب سب کچھ بہا کر لے جا سکتا ہے۔ یہ وہ باریک بات ہے جو مقتدر حلقوں کو سمجھنی چاہیے۔ اگر حالات اسی طرح رہے تو اداروں اور عام لوگوں کے درمیان خلیج بڑھ جائے گی۔ ملک کی سالمیت کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پاکستان کو بہادر شاہ ظفر کے اس سفید ہاتھی کی طرح نہ بنائیے۔ جس نے پنساری کے ہاں جانے سے انکار کر دیا تھا۔ ہمارے قیمتی ترین عوام کو مت ماریے۔ یہ نہ ہو کہ ان کی چنگھاڑ سے سب کچھ فنا ہو جائے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ ہاتھی بھی مر جائے اور مہاوت بھی اس کے بوجھ تلے دب جائے۔ یہ سب کچھ تباہ کن ہو سکتا ہے۔