گزشتہ پانچ دہائیوں سے لے کر، ملک میں سیاسی ابتری اور سیاسی انجینئرنگ آج بھی، قیامت خیز رفتار سے جاری ہے۔ اس سے پہلے کہ طالب علم، اس نکتہ کو گہرائی سے سامنے رکھے۔
ذہن میں صرف اور صرف ایک سوال ہے کہ ہم اپنے ملک کو کس جانب لے جانا چاہتے ہیں اور ایسا سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ پوری دنیا میں پاکستان کے متعلق، محققین اور باخبر لوگوں نے ان گنت کتابیں لکھی ہیں۔ مگر ہم سب کچھ جانتے ہوئے، سمجھتے بوجھتے ہوئے، ایک ایسے المناک عملی جمود میں جا چکے ہیں جس سے کوئی بھی خیر برآمد ہونی مکمل طور پر ناممکن ہے۔ کہا تو یہی جاتا ہے کہ مایوسی کفر ہے مگر انسان کی شعوری جبلت کا انحصار، اردگرد کے حالات سے جڑا ہوتا ہے۔ جب ملک میں اس قدر مایوسی کا راج ہو، تو کون سا ذی شعور شخص ہے جو جزوی یا مکمل طور پر مایوس نہیں ہوگا۔ یہ معاملہ آج کا نہیں ہے۔ پاکستان کے اوائل کے معاملات سے، آج تک سیاسی تنزلی کا سفر جاری و ساری ہے۔
یہ معاملہ کسی طرح بھی رکتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ ایسے معلوم پڑتا ہے کہ ادنیٰ دائروں کا ایک سفر ہے جو تسلسل سے جاری ہے اور یہ ملک کو نیچے کی طرف کھینچتا چلا جا رہا ہے۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ حالات اب زیادہ خراب ہیں۔ غیر متعصب طریقے سے پرکھا جائے تو بدحالی کا یہ سفر، بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ مگر نہ ان سیاسی شخصیات کو کٹہرے میں لایا گیا، جنھوں نے یہ سب کچھ کیا یا اس کھیل میں شامل رہے اور نہ ہی کبھی معاملات کی تصحیح کی طرف کوئی ٹھوس قدم اٹھایا گیا۔ ایسا سب کچھ کیوں ہے۔ اب سب کو سمجھ آ رہا ہے۔ کون سی غیر سیاسی شخصیات اس کھیل میں شامل تھیں اور آج بھی اسی چلن کی حامل ہیں، یہ سب کچھ اب ہر خاص و عام کے سامنے کھل کر آ چکا ہے۔
نازک سیاسی معاملات، جن کا تعلق ملک کی بقا سے ہو۔ ان پر تجزیہ مکمل طور پر بے لاگ ہونا چاہیے۔ لکھا ری کے قلم کا زاویہ صرف اور صرف سچ کی طرف جھکا رہنا چاہے۔ اس لیے کہ قلم کی طاقت میں اگر کسی بھی وجہ سے سقم آ جائے تو تمام ماحول، گدلا ہو جاتا ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور سوشل میڈیا وہ دیو ہے جو ہر جھوٹ کو مزید جھوٹ اور سچ کو بھرپور سچ بنانے کی قوت رکھتا ہے۔
نتیجہ یہ کہ اب اہم معاملات کو چھپانا ممکن نہیں رہا۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ حکومت اور اس کے مخالفین کے اپنے اپنے سچ ہیں۔ بہر حال میں اصل نکتہ کی طرف آتا ہوں۔ جنرل ایوب وہ پہلا شخص تھا، جو سیاست دانوں کی کمزوریوں اور قباحتوں سے واقف ہوا۔ وہ سیاست دانوں کے بلند بانگ دعوؤں کی اصلیت کو بھی سمجھ چکا تھا۔ غلام محمد اور سکندر مرزا، اس قد کاٹھ کے لوگ نہیں تھے جو ملک کو توانا قیادت دے پاتے۔ وہ بذات خود، حد درجہ کمزور کردار کے مالک تھے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی المیہ تھا کہ قائداعظم کے قریبی ساتھیوں کو سوچی سمجھی اسکیم کے تحت بے توقیر کر دیا گیا تھا۔ ملک کو اس وقت حد درجہ سنجیدہ مسائل کا سامنا تھا۔ مگر اس وقت بھی درباری سازشوں اور ذاتی فوائد کا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔
اس صورت حال کے بالکل متضاد، ہندوستان میں اقتدار ان سیاست دانوں کے پاس تھا۔ جنھوں نے ذاتی طور پر برطانوی تسلط کے خلاف سیاسی جدوجہد کی تھی۔ دہائیاں جیلوں میں گزاری تھیں۔ ان کی قیادت سادہ رہن سہن کی عادی تھی۔ انھوں نے ستر برس پہلے ہندوستان کی اساس پختہ بنیادوں پر رکھی۔ مگر ہمارا معاملہ بالکل الٹ تھا۔ ایوب خان کے سیاسی مقاصد سب کو معلوم تھے۔ مگر اس کی بیخ کنی کے بجائے، اسے بھرپور طور پر پھلنے پھولنے دیا گیا۔ درباری ریشہ دوانیوں سے تنگ، عوام نے یہ سمجھا، کہ مارشل لاء وہ امرت دھارا ہے، جس سے ان کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔
ویسے جزوی طور پر یہ ہوا بھی۔ اگر طویل المدت تناسب سے دیکھا جائے تو ملک کے اندر عدم استحکام کی بنیاد اسی جعلی طور پر مستحکم نظام ہی سے برآمد ہوئی۔ ویسے تو مشرقی پاکستان کے سانحہ کو یحییٰ، بھٹو اور مجیب سے منسوب کیا جاتا ہے اور اس میں حقیقت کا عنصر بھی ہے۔ مگر تنقیدی نظر سے دیکھا جائے تو یہ معاملہ ایوب خان کے دور سے ہی جڑا ہوا ہے۔ ایوب خان نے کبھی مشرقی پاکستان کی عوامی سیاسی قیادت کی عزت نہیں کی بلکہ کٹھ پتلی قسم کے گماشتوں سے مشرقی حصہ کو ایک کالونی کی طرح چلانے کی کوشش کی۔ بہرحال ملک تو دو لخت ہوگیا۔ مگر قیامت یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی اور غیر سیاسی عنصر نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
یحییٰ خان کا اقتدار، ابتلا کا وہ دور ہے جس سے ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ مگر اس کے ساتھی کون تھے؟ بھٹو اور مذہبی جماعتیں۔ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بہر حال، پاکستان کو مکمل طور پر برباد کرنے کے باوجود بھی کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی۔ بھٹو کا اقتدار مکمل طور پر غیر آئینی تھا۔
کیونکہ ان کے پاس پاکستان پر حکومت کرنے کا مینڈیٹ تھا ہی نہیں۔ حق حکمرانی تو شیخ مجیب کے پاس تھا۔ مگر اسے حکومت نہ دی گئی ملک کا بٹوارہ قبول کر لیا گیا۔ میرا مقصد قطعاً یہ نہیں ہے کہ وہ حقائق آپ کے سامنے رکھوں جو تقریباً ہر ایک کے علم میں ہیں۔ مگر میرا سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ ہم تیس چالیس برس پہلے کیا چاہتے تھے اور آج کیا چاہتے ہیں؟ مجھے اپنے اس سوال کا کسی قسم کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ جتنا مرضی مطالعہ کروں، کچھ بھی پلے نہیں پڑتا کہ مقتدرہ دراصل چاہتی کیا ہے؟
تھوڑا سا آگے چلیے تو آپ کو ضیاء الحق جیسا کردار ملک کے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ دراصل، ہمارا آج کا پورا نظام، ضیاء الحق کے پیروکاروں کے قبضے میں معلوم پڑتا ہے۔ پنجاب میں ایک ایسے کاروباری خانوادے کو بڑھاوا دیا گیا جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پنجاب کی حد تک تو مجھے یہ نکتہ صائب نظر آتا ہے کہ ایک ایسی قیادت کو تخلیق کیا گیا جو اس کی میرٹ پر اہل نہیں تھی۔ اس پر دو آراء ہو سکتی ہیں۔ اب اس حقیقت کو بیان کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ پنجاب جو کہ اقتدار کا اصل مرکز ہے وہاں اقتدار، اسی خانوادے کی دوسری پیڑھی کو سونپ دیا گیا ہے۔
معاملہ جو پہلے تھا، وہ جوں کا توں آج بھی ہے۔ پرویز مشرف نے بھی سیاسی نظام کو بے حد نقصان پہنچایا اور اس کے دور میں بھی سیاست دانوں کو بے وجہ تذلیل کا نشانہ بنایا گیا۔ ستر سال کے منفی معاملات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ چہرے بدل جاتے ہیں مگر مکروہ کھیل ویسے ہی جاری و ساری رہتا ہے۔
دراصل سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لیڈر یا قائد، مصنوعی طور پر پیدا نہیں کیے جا سکتے۔ جعلی نرسری میں لیڈر ٹائپ مخلوق کی نمو تو ہو سکتی ہے مگر جمہوری نظام کو مضبوط کرکے، اصل عوامی قیادت ہی مہیب مسائل کا حل ہے۔ بلکہ یہ واحد حل ہے۔ اندازہ ہے کہ میری اس بات یا تجویز کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ریاستی اداروں اور عام لوگوں کے درمیان ذہنی خلیج بڑھتی چلی جا رہی ہے، اسے مصنوعی طریقوں سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ بین الاقوامی سطح پر معاملہ اور بھی سنگین ہے۔
امریکا کی نئی انتظامیہ ہمارے ملک کے متعلق کس سوچ کی حامل ہے یہ سب کو معلوم ہے اور اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ امریکا سے جو فکر اور سوچ، ہمارے متعلق برملا ظاہر کی جا رہی ہے اس کا جواب بالکل نہیں دیا جا رہا، آنے والے دنوں میں یہ معاملہ مزید بگاڑکی طرف جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ بین الاقوامی دباؤ، حد درجہ نقصان پہنچا دے۔ ہمیں خود، نازک ترین معاملات پر، افہام و تفہیم سے کسی منطقی حل کی طرف جانا چاہیے۔ ہمارے ہمسایہ ملک اندرونی خلفشار کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ قرائن بھی یہی ہیں کہ ہندوستان اور ٹی ٹی پی ہمارے خلاف متحد نظر آتے ہیں۔ حل صرف اور صرف ریاستی اداروں کے پاس ہے۔ بہت زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ گھاؤ بہت گہرے ہیں ان پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔ معاملہ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اس کا فیصلہ، آنے والا وقت ہی کرے گا!