مین ہیٹن، نیویارک کا دل ہے۔ اور سینٹرل پارک مین ہیٹن کا قلب ہے۔ اس علاقے میں دنیا کی مہنگی ترین جائیداد قدم قدم پر بکھری نظر آتی ہے۔ تین چار ملین ڈالر جسے وہاں معمولی رقم سمجھا جاتا ہے۔
اس سے لے کر چارسو سے پانچ سو ملین ڈالرکے گھر اور اپارٹمنٹ موجود ہیں۔ نیویارک کے اردگرد ہڈسن دریا میں کشتی کا گائیڈڈ ٹور لیں تو امریکی فخر سے بتاتے ہیں کہ مین ہیٹن میں دنیا کی قیمتی ترین جائیدادیں موجود ہیں جنھیں عام آدمی خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ویسے خاص آدمی بھی شاید خریدنے کا تصور نہیں کر سکتا۔ یہ صرف اور صرف دنیا کے امیر ترین لوگوں کا مشغلہ ہے جس سے عام انسان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
سینٹرل پارک کے بالکل سامنے پلازہ اور اسی سطح کے تین ہوٹل موجود ہیں۔ یہ دنیا کے قدیم ترین ہوٹل ہیں۔ مگر جو بات ان کو ہوٹل انڈسٹری میں ممتاز کرتی ہے۔ وہ کمروں کے نرخ ہیں۔
گوگل پر جا کر پلازہ ہوٹل کے عام کمرے کا کرایہ باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ کم و بیش ہزار ڈالر سے شروع ہو کر یہ اٹھارہ بیس ہزار ڈالر یومیہ تک جاتے ہیں۔ اس ہوٹل میں ایسے پر تعیش کمرے بھی موجود ہیں جن میں ڈرائنگ روم، اسٹڈی، ڈائننگ روم اور حد درجہ آسائشیں موجود ہیں۔ خیرمیرے جیسے مزدور لوگ تو پلازہ ہوٹل کو صرف باہر سے دیکھنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر پلازہ ہوٹل کے باہر ایک امریکی نژاد پاکستانی نے ایک وڈیو کلپ پوسٹ کیا ہے۔ وڈیو کلپ میں یہ صاحب جو خود کو پاکستانی کہہ کر متعارف کرا رہا ہے، سینٹرل پارک کے سامنے کھڑا ہے۔ پلازہ ہوٹل تقریباً اس کے عقب میں نظر آتا ہے۔
بقول اس شخص کے، پاکستان کے وزیراعظم اور ان کے ساتھی اس ہوٹل کے مہنگے ترین کمروں میں قیام پذیر ہیں۔ وزیر خارجہ بھی نزدیک ہی ایسے ہی ایک مہنگے ہوٹل میں مقیم ہیں۔
ان کمروں کا اوسط کرایہ اس شخص کے بقول چار سے پانچ ہزار ڈالر یومیہ ہے۔ اگر ہم حساب کریں تو وزیراعظم اور ان کے وفد کا مکمل مالی خرچہ لاکھوں ڈالر بنتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جو کچھ وائرل ہوتا ہے یا کرایا جاتا ہے۔
اس میں جھوٹ اور پراپیگنڈے کی ملاوٹ بہت زیادہ ہوتی ہے لہٰذا جس وڈیو کلپ کا اوپر ذکر ہوا ہے اس کے مصدقہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ پاکستان میں چونکہ سیاسی محاذآرائی انتہائی خوفناک سطح پر پہنچ چکی ہے، اس محاذآرائی میں سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ عام سوشل میڈیا صارف یہاں وائرل ہونے والی ہر خبر اور وڈیو پر بغیر سوچے سمجھے ایمان لے آتا ہے۔
وزیراعظم اقوام متحدہ کے دورے پر اس نازک وقت میں تشریف لے گئے ہیں۔ جس وقت ملک کو سیلاب کی بدولت خوفناک قیامت کا سامنا ہے۔ جس میٹنگ میں وہ گئے ہیں۔ اس میں باآسانی وڈیو لنک پر اسلام آباد سے شمولیت کی جاسکتی تھی کیونکہ مقصد میٹنگ میں شامل ہونے کے علاوہ دنیا کے امیر ممالک کے سربراہان کی نظروں میں آنا تھا۔ چلیے تسلیم کر لیجیے کہ امریکا جانا حد درجہ ضروری تھا مگر یاد پڑتا ہے کہ ہمارے موجودہ وزیراعظم تو ہمیشہ فرماتے تھے کہ وہ کبھی بھی سرکاری خرچہ پر بیرون ملک سفر نہیں کرینگے بلکہ اپنے گرہ خاص سے خرچ کرینگے۔
ممکن ہے ایسا ہی ہوا ہو۔ ویسے مجھے توکوئی اعتراض نہیں ہے۔ کیونکہ ملک تو بنا ہی جعلی اشرافیہ کے لیے ہے۔ بھلا ہم کیوں معترض ہوں۔ ملک تو اس وقت بربادی اور موت کے شکنجہ میں ہے۔ اور بتایا یہی جا رہا ہے کہ وزیراعظم امیر ممالک سے امداد لینے کے لیے سر بکفن ہیں۔ اس حساب سے تو وزیراعظم کو سادگی اور کم خرچ کی ذاتی مثال قائم کرنی چاہیے تھی۔ انھیں یا تو اپنے کسی دوست کے گھر قیام پذیر ہونا چاہیے تھا۔ یا سو سے دو سو ڈالر والے ہوٹل میں باآسانی سما جانا چاہیے تھا۔
اگر میری یادداشت درست ہے جو کہ الحمدللہ مکمل درست ہے تو چند ماہ پہلے مذہبی جماعتوں نے فرانس کے متعلق ایک مضبوط ترین بیانیہ دیا تھا۔ جس میں فرانس کی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ، فرانس سے سفارتی تعلقات کا خاتمہ اور کافر ملک سے ہر طرح کے معاملات کا خاتمہ کرنا تھا۔
اگر کسی کو یاد نہ ہو تو طالب علم تھوڑا عرصہ پہلے کی وڈیو کلپ اور اخبار کے تراشے پیش کر سکتا ہے۔ تمام مذہبی جماعتیں غم و غصے کی بدولت لال پیلی ہو رہی تھیں۔ ہنگامہ اٹھا دیا گیا تھا۔ گاڑیاں، بسیں اور رکشے جلا کر اپنے جذبات کا اظہار پوری قوت سے کیا جا رہا تھا۔ مگر کسی نے یہ نہیں سوچا کہ یہ معاملات ایسے طے نہیں ہوتے، اب یہ مثبت پیش رفت ضروری ہو گئی ہے کہ موجودہ وزیراعظم اور ان کا وفد تو فرانسیسی صدر سے ڈائیلاگ کر رہا ہے۔
ان کے ساتھ خوش گوار ماحول میں ملاقاتیں جاری و ساری ہیں۔ تصاویر ٹی وی پر بھی موجود ہیں اور پرنٹ میڈیا پر بھی حاوی ہیں۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ کسی ایک حضرت صاحب نے ان ملاقاتوں کے متعلق ایک بھی منفی بات تک نہیں کی۔ ویسے طالب علم کی ادنیٰ فہم کے مطابق، مذہبی سیاسی جماعتیں ماضی قریب میں صرف ادنیٰ سیاست کر رہی تھیں۔ کیونکہ اب کرم فرماؤں نے آنکھیں بند کر لی ہیں۔ اس لیے حالات درست جا رہے ہیں۔ اس لیے ہر معاملہ بالکل درست ہے۔
اب آپ کی توجہ ایک اور نکتہ کی طرف مبذول کروانے کی جسارت کرتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم، گورنر، وزراء اعلیٰ کو سرکاری سطح پر جہاز استعمال کرنے کی قانونی اجازت ہے۔ مگرکوئی بھی ایسا بزرجمہر نہیں جس نے حکومتی وسائل پر اللے تللے نہ کیے ہوں۔ جب ملک میں سیلاب نے موت برپا کر دی ہوں۔ معیشت آخری دموں پر ہو، عام لوگوں کے لیے بجلی، پٹرول اور استعمال کی روز مرہ کی اشیاء آزار کا باعث ہوں۔
کیا بہتر نہ ہوتا کہ وزیراعظم فرماتے کہ میرا وفد، سرکاری جہاز سے نہیں بلکہ عام کمرشل فلائٹ سے امریکا جائے گا۔ کیا اس طرح سفر کرنے سے ہمارے اخراجات میں کمی نا برپا ہوتی۔ کیا، اس طرح سفر کرنے سے قومی وقار میں اضافہ نہ ہوتا۔ یقین فرمائیے کہ سیلاب ہمارے ملک کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم اس سے نبرد آزما ہو سکتے تھے۔ اصل مسئلہ وہ چند سو خاندان ہیں جنھوں نے ملکی سیاست، معیشت اور سماج کو اژدھے کی طرح جکڑ رکھا ہے۔ جب تک اس عفریت کا سر نہیں کچلا جائے گا۔ حالات مزید ابتر ہونگے!