عمران خان کی حکومت قطعاً مثالی نہیں تھی۔ پونے چار سال کے دور اقتدار میں غلطیاں کیں یا کروائی گئیں۔ اردگرد اس قبیل کے لوگ جمع تھے۔ جنھیں اس امر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ خان صاحب اپنے دور حکومت کے بعد سیاسی اعتبار سے کسی نیچی جگہ پر براجمان ہوتے ہیں۔
یہ وہ درباری تھے کہ انھوں نے ہر وہ کام کروایا جس کی زبانی مخالفت تحریک انصاف اپنی پوری سیاسی زندگی میں شدومد سے کرتی رہی ہے۔ سانحہ یہ بھی تھا کہ خان صاحب کو گورننس کا کوئی عملی تجربہ نہیں تھا۔ صرف گورننس کی بات عرض کر رہا ہوں۔ اچھی یا بری گورننس کی تو خیر بات کرنی ہی عبث ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عام سے سیاسی ورکر کو بھی اچھی طرح اندازہ تھا کہ خان صاحب بنیادی فیصلے حد درجہ ادنیٰ کر رہے ہیں۔ مثلاً، پنجاب، پاکستان کی سیاست کی چابی ہے۔ جو یہاں کامیاب ہے وہی مرکزی حکومت میں تخت پر بیٹھے گا۔
یہ سچ گلی محلہ کے کونسلر تک کو معلوم تھا۔ مگر خان صاحب نے نامعلوم وجوہات کی بدولت، پنجاب جیسے اہم ترین صوبہ پر ایک ایسا شخص براجمان کر دیا جس کی نواز شریف کی طاقت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں تھی۔ حقیقت میں، پانچ برس پہلے بزدار صاحب سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ کبھی اقتدار کے اعلیٰ مقام پر فائز کر دیے جائیں گے۔ یہاں ایک سنجیدہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ تحریک انصاف نے جو اعتماد بزدار صاحب کی ذات پر کیا تھا۔
کیا وہ واقعی، اس اعتماد پر پورا اترنے کے قابل تھے۔ خاکسار تو یہی عرض کرے گا کہ وہ ہرگز ہرگز اس سطح پر کام نہیں کر سکے، جس کی خواص کو توقع تھی۔ مقتدر اداروں نے بار ہا خان صاحب کو سمجھایا کہ بزدار صاحب کو وزارت اعلیٰ سے ہٹایئے۔ مگر خان صاحب نے ضد سی پکڑ لی۔ کسی ادارے، کسی معتدل شخص کی صائب بات سننے سے بھی انکار کر دیا۔ بلکہ وزارت اعلیٰ کے متوقع امیدوار گرفتار تک ہوئے۔ علیم خان، اس کی ایک زندہ مثال ہے۔
خان صاحب نے اپنی سیاست تباہ کر لی مگر بزدار کو ہٹانے سے انکار کر ڈالا۔ اداروں کے لیے یہ بات حد درجہ تعجب کی تھی کہ بالآخر عثمان بزدار صاحب کو کن وجوہات کی بنا پر رکھا جا رہا ہے۔ تمام مقتدر اداروں نے یہ کڑولی گولی نگل تو لی۔ مگر ان کے ذہن میں خان صاحب کے فیصلوں کے متعلق سوالات کھڑے ہو گئے۔ تمام اہم لوگ جانتے ہیں کہ مقتدر قوتوں کے خان صاحب سے تعلقات کس نکتہ پر بگڑنے شروع ہو گئے۔ مگر اس کا ایک اور نتیجہ بھی نکلا جس کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی۔ بزدار صاحب نے کھل کر کھیلنا شروع کر دیا۔ مطلب آپ سمجھ چکے ہونگے یعنی خان صاحب کو سیاسی اعتبار سے دوگنا نقصان پہنچنا شروع ہو گیا۔
آج سے ٹھیک چھ ماہ پہلے تحریک انصاف کے یہ حالات ہو چکے تھے کہ گمان ہوتا تھا کہ آنے والے الیکشن میں حد درجہ غیر موافق حالات ہونگے۔ سچی بات لکھ رہا ہوں۔ سیاسی اکابرین سے نہ چاہتے ہوئے بھی رابطوں میں تھا اور ہوں۔ قلیل مدت پہلے تحریک انصاف اپنی مقبولیت میں حد درجہ نچلے درجہ پر فائز تھی۔ خان صاحب کو سب کچھ بتایا جا رہا تھا۔ بہت سی ایسی چیزیں جانتا ہوں جو لکھ نہیں سکتا۔ صرف اشارہ کے اعتبار سے بات کرونگا۔ خان صاحب نے کل و ھُم، بیورو کریسی کے بارے میں تمام اختیار ایک ایسے سرکاری ملازم کو دے ڈالا جس کو پنجاب جیسے اہم ترین صوبے کی نوکر شاہی کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔
مگر حیرت یہ ہوئی کہ پنجاب جیسے صوبے سے مکمل طور پر ناواقف انسان کو سرکاری عمال کی مکمل بساط بچھانے کا کام سونپ دیا گیا۔ لازم ہے کہ اس نے ناکام ہونا تھا۔ موصوف نے نااہل ترین سرکاری عمال پر ہاتھ رکھ دیا۔ ہاں ان میں سے کچھ لوگ پیدا گری کے فن میں بھی یکتا تھے۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ یعنی حد درجہ ناقص کارکردگی اور پھر بیورو کریسی میں مکمل عدم توازن، یہ زہر قاتل طرز حکومت تھا۔
ہمارے ادارے سب کچھ جانتے تھے۔ انھوں نے سابقہ وزیراعظم کو بار ہا سب کچھ بتایا مگر وہ کسی کی بات سننے کے موڈ میں نہیں تھے۔ بلکہ اس سے ناراض ہو جاتے تھے۔ خان صاحب نے تمام مقتدر حلقوں سے اپنے تعلقات خراب کر لیے۔ مگر اس کے ذمے دار لوگوں کو قطعاً اپنی پوزیشنوں سے نہیں ہٹایا۔ خان صاحب ایک عجیب سے ذہنی اور فکری دوراہے سے گزر رہے تھے۔ اسی مدت میں عمران خان نے ایک ناقابل یقین فیصلہ کرنے کی بھی ٹھان لی۔ یہ بات ان کے مشیروں اور دوستوں کو معلوم تھی۔ خان صاحب کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کے قریب ترین حلقے بھی حساس ترین بات باہر کر سکتے ہیں۔
بالکل یہی ہوا۔ اور جب یہ معاملہ سامنے آیا تو سوائے پسپائی کے کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہ اسی طرز کا فیصلہ تھا جو نواز شریف اپنے دور اقتدار میں کر چکے تھے۔ بہر حال، گزارش صرف اتنی ہے کہ فقط پانچ ماہ پہلے خان صاحب سیاسی اعتبار سے شدید تنہائی کی طرف جا چکے تھے۔ وہ تمام ادارے جو ان کو طاقت میں لائے تھے۔ ان کے خلاف ہو چکے تھے۔ اگر خان صاحب کو پانچ برس پورے کرنے دیے جاتے، تو غیر متعصب سطح پر عرض کر رہا ہوں کہ تحریک انصاف کو الیکشن میں بہت معمولی پذیرائی ملنی تھی۔ صاف نظرآ رہا تھا کہ ان کا اقتدار ڈوب رہا ہے۔
مگر اس سطح پر ایک محیر العقول واقعہ ہوا۔ کسی دانا شخص نے مقتدر حلقوں سے یہ بات منوا لی کہ خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کروائی جائے۔ اس ایک واقعہ نے تمام منظر بدل ڈالا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خان صاحب کو معلوم تھا کہ ان کے خلاف تمام مقتدر حلقے یکسو ہو چکے ہیں۔ لہٰذا اب ان کے لیے مسائل بڑھ چکے ہیں۔ انھیں یہ بھی علم تھا کہ اب ان کی حکومت ختم کر دی جائے گی۔
اس مقام پر عمران خان نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کر دیا۔ اپنی کمزوریوں سے لوگوں کی نظر ہٹوا ڈالی۔ بیرونی سازش کا ایک ایسا بیانیہ قائم کیا جس کا وجود ہمیشہ سے ہر دور میں ہوتا ہے۔ مگر اس پر کبھی بات نہیں کی جاتی۔ یعنی ملکی سیاست میں سپر پاور کا اثر و رسوخ۔ ویسے بینظیر بھٹو بھی سرعام امریکا کے متعلق بات کرتی تھیں۔ انھیں معلوم تھا کہ امریکا ہماری ہر حکومت کے آنے اور جانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ خان صاحب کے علاوہ تمام مقتدر حلقے اس مداخلت پر خاموش رہتے تھے۔ عوام میں بھی اس اہم ترین نکتے پر بات کم ہی ہوتی تھی۔
یہ خواص کا قصہ تھا۔ مگر خان صاحب نے فیصلہ کیا کہ اس بات کو عوام تک لے جائیں گے۔ ویسے بھٹو نے یہ غلطی ضرور کی تھی اور اس کا خمیازہ بھی بھگتا تھا۔ خان صاحب کا ڈومیسائل کیونکہ درست تھا اور ہے۔ لہٰذا انھیں اندازہ تھا کہ انھیں بھٹو کی طرح سولی پر لٹکانا ناممکن ہے۔
لہٰذا انھوں نے بیرونی سازش کا واشگاف الفاظ میں اعلان کرنا شروع کر دیا۔ ان کا یہ فیصلہ غیر متوقع اور مشکل تھا۔ مگر جس اعتماد سے خان صاحب نے اس دقیق امر کو عام کیا۔ اسے عوامی پذیرائی ملنی شروع ہو گئی۔ ساتھ ساتھ مذہب اور خودداری کا بھی اہتمام کر دیا گیا۔ یہ بیانیہ لوگوں کے دل کے قریب تھا۔ عوام میں اس بیانیے نے لوگوں پر جادو کا سااثر کیا بلکہ یہ عرض کرونگا کہ عام انسانوں کے دل کی آواز بن گیا۔ کون پاکستانی ہوگا۔ جو مذہب اور خود داری کے لفظی طلسم سے متاثر نہیں ہوتا۔ وہی ہوا، خان صاحب کے اردگرد لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہونا شروع ہو گیا۔ اور آج وہ ملک کے مقبول ترین سیاست دان ہیں۔
مگر یہاں ایک نکتہ توجہ طلب ہے۔ جن سیاست دانوں کو حکومت دی گئی۔ ان کی سیاسی ساکھ حد درجہ منفی تھی۔ کرپشن کے الزامات رہنے دیجیے۔ ان کے دیگر معاملات بھی بہت زیادہ پسندیدہ نہیں ہیں۔ مگر اداروں کے پاس کوئی اور حل نہیں تھا۔ ادنیٰ ساکھ والے غیر مقبول موجو دہ حکمرانوں نے تمام قوانین صرف اپنے لیے ترتیب دے ڈالے۔ آنے والے الیکشن میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے انکار کرنا دراصل دھاندلی کو تسلیم کرنے والی بات ہے۔
موجودہ سیاسی سیٹ اپ حد درجہ کمزور ہے۔ یہ کسی صورت میں عوامی سطح پر سہولت دینے سے بھی عاری ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ ملکی تاریخ کا سب سے نحیف متبادل ہے۔ خان صاحب ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مقتدر ادارے پریشان ہیں۔ دراصل ہوا یہ ہے کہ مرض کا علاج ناقص ٹھہرا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ علاج نے تو سیاسی مرض کو مزید تکلیف دہ بنا ڈالا ہے۔