Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Indian Chronicals

    Indian Chronicals

    انڈیاٹوڈے(India Today)ہندوستان میں دیکھے جانے والاایک وسیع چینل ہے۔ گمان تھاکہ سنجیدہ اورمعتبرخبریں دکھانے والا ادارہ ہے۔ کم ازکم ریپبلک ٹی وی سے بہتر۔ جسے دوہفتے پہلے برطانیہ میں پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈاکرنے پربیس ہزار پاؤنڈجرمانہ ہواہے۔ مگرچنددن پہلے، انڈیاٹوڈے کا ایک پروگرام دیکھ کرانتہائی افسوس ہوا۔

    پروگرام میں دو ریٹائرڈ ہندوستانی جنرل اورایک پاکستان خاتون صحافی تھی۔ یاد پڑتاہے کہ خاتون صحافی کانام شائدموناتھا۔ اکثرنام ذہن نشین نہیں کرسکتا۔ بہرحال صحافی خاتون نے انتہائی پُراعتماد طور پر ہمارے ملک کے خلاف منفی پروپیگنڈے کامقابلہ کیا۔ اینکراوردونوں ہندوستانی جرنیل کیا فرما رہے تھے۔ یہ اصل نکتہ ہے۔

    پاکستان میں خانہ جنگی ہو رہی ہے۔ پٹرول ختم ہوچکاہے اورملکی دفاعی اداروں کے خلاف وسیع پیمانے پرجلوس ہورہے ہیں۔ ملک کچھ عرصے کے بعدختم ہوجائیگا۔ نشریات کے ساتھ ساتھ، پاکستان میں ایک جلسہ دکھایاجارہاتھا جوپی ڈی ایم کے فورم سے لاہورمیں ہواتھا۔

    اس میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ کوثبوت کے طورپرباربار دکھایا جا رہا تھا۔ صدمہ ہواکہ ہمارے جید سیاستدان، کس تواترسے ہندوستانی ہاتھوں میں کھیل جاتے ہیں۔ قطعاًعرض نہیں کررہاکہ وہ غیرمحب الوطن ہیں۔ صرف سنجیدہ بات کرونگا کہ ملکی سطح کے سیاستدانوں کوحددرجہ سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے۔ کوئی ایسی تقریر، جودشمن ملک کا میڈیا، اپنے جھوٹ میں استعمال کرسکے، گریزکرنا چاہیے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اکثر ملکی سیاستدان، اپنے ہی ملک کے خلاف بولناایک فخرکی بات گردانتے ہیں۔

    مشورہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو بھی یہ پروگرام دیکھنا چاہیے کہ ان کی تقریرکوہندوستان میں کیسے پیش کیا جارہا ہے۔ مگر صاحب، کوئی بھی نہیں دیکھے گا۔ ہر سیاستدان اور ہرجماعت اپنے مفادکے داؤپیچ میں مصروف ہے۔ اس کے بالکل برعکس ہمسایہ ملک میں اپنے ریاستی اداروں پرکبھی بھول کر بھی تنقید نہیں کی جاتی۔ مگرہماری ہربات شروع ہی اداروں پرتبصرے سے ہوتی ہے اورختم اس بات پرہوتی ہے کہ مخالف جماعت اقتدارمیں کیوں ہے۔

    پاکستان اورانڈیاکے باہمی تعلقات حددرجہ بہتر ہونے چاہئیں۔ اسی میں ہماراقومی مفادہے۔ مگریہ ہو نہیں سکتا۔ اس لیے کہ ہمیں اندازہ نہیں ہے یا شائد حددرجہ کم شعورہے کہ ہندوستان کس منظم طریقے سے ہمارے ملک کے خلاف جعلی اورجھوٹاپروپیگنڈاکرنے میں ہردم مصروف ہے۔ خدارا، اس نکتے پربطورمحب الوطن ضرورغورکیجیے۔ ہندوستان کاپرنٹ اورالیکٹرونک میڈیا، ایک بات پریکسوئی اختیارکرچکاہے کہ پاکستان کوہرقیمت پرنقصان پہنچاناہے۔ اسکاعملی ثبوت انڈین کرونیکلز (Indian Chronicles)ہے۔ ای یو میں مقیم ایک تجزیاتی ادارے، Disinfolabنے ایک ہوشربا تحقیقاتی رپورٹ شایع کی ہے۔

    دوسال کی کل وقتی تحقیق کے بعدشایع ہونے والی رپورٹ میں درج ہے کہ ہندوستانی ادارے، ایک سوسولہ ممالک میں سات سو پچاس جعلی میڈیانیٹ ورکس چلارہے ہیں۔ ان میں پانچ سوپچاس سے زیادہ ویب سائٹس استعمال ہورہی ہیں۔ دنیامیں وفات پائے ہوئے دانشوروں کے نام سے جعلی پیغامات شایع کیے جاتے ہیں۔ یورپین یونین میں بھی جعلی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ بالکل اسی طرح جعلی این جی اوزکاایک جال بنا گیاہے جویورپین یونین اوراقوام متحدہ جیسے معتبر اداروں میں صرف اورصرف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

    اس پورے نیٹ ورک کاہدف پاکستان ہے۔ ہاں، چین کے خلاف بھی یہی پالیسی اختیارکی گئی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں درج ہے کہ کس طرح نوجوان طلباء اورطالبات کوجعلی این جی اوز، پاکستان کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔ کس طرح انکواقوام متحدہ اوردیگرذیلی اداروں میں مفت دورے کروائے جاتے ہیں۔ کس طرح پاکستان کامنفی تاثر کامیابی سے پیداکیاجاتا ہے۔ Disinfolab کے مطابق کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہونے والا یہ دنیاکاسب سے بڑاجعل سازی پرمبنی نیٹ ورک ہے۔ یہ2005سے مسلسل کام کررہا ہے۔ ہندوستان خبررساں ایجنسیANIاس میں پیش پیش ہے۔

    سری واستوگروپ بھی اسی کاحصہ ہے۔ یعنی ایک طرف بین الاقوامی سطح پرمکمل طورپرجعلی ادارے، این جی اوز، ویب سائٹس کام کررہی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے خلاف غیرملکی نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کومفت معلوماتی ٹوورکروائے جارہے ہیں۔ تیسری طرف، ایسے پلیٹ فارم قائم کیے گئے ہیں جوبین الاقوامی خبررساں اداروں کوپاکستان کے خلاف منفی معلومات مہیاکرتے ہیں۔ انکوہندوستان کے مختلف ادارے اپنے نام سے معتبر اور قابل اعتمادبناتے ہیں۔ سوشل انجینئرنگ کایہ نیٹ ورک پاکستانی اداروں اورہمارے سماج کے متعلق صرف اور صرف ادنیٰ باتیں کرنے کاخطرناک ترین ذریعہ ہے۔

    یہ سب کچھ اس چالاکی سے کیاجاتاہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس سازش کاادراک بھی ایک حیرت انگیزطریقے سے ہواہے۔ امریکا میں لوئی جی سو ہم بین الاقوامی قانون کاایک معتبرنام ہے۔ یہ 2005 میں فوت ہوگیاتھا۔ لوئی نے1970میں ایک این جواو بنائی تھی جوکہ اقوام متحدہ سے منسلک تھی۔ لوئی نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی۔ مگراس کی وفات کے چندماہ بعدیک دم اس ادارے میں ایک دم جان پڑگئی۔ نامعلوم ہاتھوں نے اس این جی اوکوہائی جیک کرلیا۔ فوت شدہ دانشورکے مرنے کے بعدیعنی2007میں پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق شعبہ میں تقاریر دکھائی گئیں۔

    فکرانگیزبات یہ بھی ہے کہ"Friends of Gilgit Baltistan"نام کے ایک فورم میں اس کی شمولیت بھی دکھائی گئی۔ یہ2011کی بات ہے۔ اسی طرح بلوچستان ہاؤس، ساؤتھ ایشیاء ڈیموکریٹک فورم اور دیگربے نامی ادارے قائم کیے گئے۔ ان میں فوت شدہ دانشوروں کے پاکستان کے خلاف اعلانات شامل کیے گئے۔ جنیوااوربرسلزمیں قائم شدہ جعلی اداروں کو ہمارے ملک کے خلاف منفی پروپیگنڈامیں حددرجہ فعال کیا گیا۔ تحقیقات میں دیگرمحیرالعقول معاملات بھی سامنے آئے۔ کھانے اوردیگراشیاء کوڈبے میں بندکرنے والوں کی ایک کمپنی ہے۔

    اسےCanners Permanent International Committee کا نام دیا گیا ہے۔ یہ2007میں بندہوچکی تھی۔ چند سال پہلے، ڈبوں کے اس فورم سے حددرجہ اہم تقاریراورپیغامات نشرہونے شروع ہوگئے۔ مگران میں کوئی معاملہ بھی اس کے فنی کام کے متعلق نہیں تھا۔ یہ جنیوامیں مقیم طالبعلموں کونیویارک میں اقوام متحدہ کے دفاترمیں بھجواتاتھا۔ شرط صرف ایک کہ پاکستان کے خلاف بولناہے۔ ڈبے بنانے والے اس فورم نے دنیا کے تمام اداروں کے ساتھ روابط قائم کرکے، میٹنگز اور کانفرنسوں کاانعقادبھی کیا ہے۔ پاکستان کے متعلق جعلی اورمنفی معلومات فراہم کی جاتی رہیں۔ یعنی مردہ دانشوروں کے نام سے لے کرمختلف تجارتی اداروں کے فورم کوبھی استعمال کیاجاتارہاہے۔ ان تمام کے پیچھے شری واستوگروپ اورANIہے۔ اسی گروپ نے یورپین پارلیمنٹ کومالی وسائل مہیاکیے۔

    ان کے ممبران کوکشمیرکے دورے کروائے گئے ہیں۔ ساتھ ساتھ، جعلی میگزین اور رسالے بھی باقاعدگی سے شایع کیے جاتے رہے۔ جیسے E.P Today۔ ان میں پاکستان کے خلاف تربیت شدہ اداروں کے بیانات پرنٹ کیے جاتے رہے۔ گھٹیا اورجھوٹے حقائق چھپتے رہے۔

    بھارتی حکومت کے وسائل کے ذریعے ان جرائد کو بطور ثبوت پوری دنیاکے سامنے پیش کیاجاتارہا۔ نفسیاتی طورپر پورایورپ، اقلیتوں اورخواتین کے حقوق کے متعلق فکرمند رہتا ہے۔ ایسے پلیٹ فارم ترتیب دیے گئے جوان دونکات پرپاکستان کے خلاف حددرجہ تلخ باتیں کرتے رہے۔ مگر ہندوستان، اپنے ملک میں اقلیتوں پرمظالم اورخواتین پرظلم کی باتوں کوبھرپورطریقے سے چھپاتارہا۔ بالکل اسی طرح، مختلف دانشوروں کانام لے کرجعلی آرٹیکلزکوان سے منسوب کیاجاتارہا۔"انڈین کرونیکلز"کے نام سے مکراورفریب کے اس نیٹ ورک کوجب دنیاکے سامنے رکھاگیاتوبین الاقوامی ادارے ششدررہ گئے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اتنی منظم طریقے سے جعل سازی کی جاسکتی ہے۔ ہندوستانی ریاستی ادارے اس کی پشت پر کھڑے تھے۔

    اس سے زیادہ ثبوت کیادیے جاسکتے ہیں۔ جس درجہ کے ثبوت Disinfolabنے مہیاکیے ہیں۔ پاکستان دشمنی کی مثال اورکیاواضح طریقے سے دی جاسکتی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہمارے کئی ملکی سیاستدان، دانشور، محققین اس پاکستان دشمن بیانیہ کا غیرمحسوس طریقے سے حصہ بن جاتے ہیں۔ انھیں معلوم ہی نہیں ہوتاکہ ان کے بیانات پاکستان کے خلاف کس طرح ہندوستانی حکومت اور میڈیااستعمال کرتا ہے۔ گزارش ہے کہ ملک کے خلاف بیانیے میں استعمال نہ ہوں۔ یہ نامناسب ہی نہیں، خطرناک بھی ہے۔ انڈین کرونیکلزاس کی ایک زندہ مثال ہے!