دوسری جنگِ عظیم، برطانیہ کوآہستہ آہستہ نگل رہی تھی۔ ہٹلرتیزی کے ساتھ یورپ کی اینٹ سے اینٹ بجا رہا تھا۔ فرانس، پولینڈ، ہالینڈاوردوسرے یورپین ممالک کو طاقت کے سہارے فتح کرچکاتھا۔ 1940 کا یہ وقت، یوکے کی حکومت پربہت بھاری تھا۔ ملک کا وزیراعظم، چیمبرلین استعفیٰ دے چکاتھا۔ اتنے مشکل وقت میں کوئی بھی سیاستدان تاریخ کے ہاتھوں رسوا ہونے کے لیے تیارنہیں تھا۔
اس نازک ترین دورمیں قرعہ فال ونسٹن چرچل کے نام نکلا۔ طاقت کے ایوانوں میں چرچل ایک ناپسندیدہ انسان تھا۔ منہ پھٹ، ضدی اور اپنے سیاسی مخالفین کے متعلق ادنیٰ فقرے کہنااس کا معمول تھا۔ ساتھ ساتھ ہروقت مے نوشی میں مصروف یہ انسان، کسی صورت میں جنگ کے دوران وزارتِ عظمیٰ کاحقدارنہیں تھا۔ مگرحالات اورواقعات پرکسی کاضبط نہیں ہوتا۔ چرچل، وزیراعظم بن گیا۔ مگرایک انتہائی نازک مرحلہ باقی تھا۔ بادشاہ وقت، جارج، ادھیڑ عمر چرچل کاجانی دشمن تھا۔ چرچل، اس کے بھائی کا مددگار تھا جس نے امریکی بیوی کی بدولت، بادشاہت چھوڑنا زیادہ اہم سمجھاتھا۔ مگر بادشاہ انکارنہیں کرسکتاتھا۔ اس لیے کہ چرچل تمام سیاسی جماعتوں کا تقریباًمتفقہ اُمیدوار تھا۔ بادل ناخواستہ، قاعدے کے مطابق، بادشاہ نے چرچل کوبکھنگم پیلس مدعوکیا۔
یہ ملاقات ہرگز ہرگز خوشگوارنہیں تھی۔ رسمی سی گفتگومیں جارج نے چرچل سے پوچھاکہ روایات کے مطابق، اسے ہرہفتہ کھانے پر آنے کے لیے کون سا وقت بہترمحسوس ہوگا۔ بادشاہ کے ذہن میں دوپہرکاوقت پہلے سے موجودتھا۔ مگر چرچل نے فوراً انکار کردیاکہ دوپہرکووہ ایک گھنٹہ سوتا ہے۔ لہذااس کے لیے دوپہرکالنچ تھوڑا سا مشکل ہے۔ جارج اَزحد ناراض ہوگیا۔ مگروہ کچھ کرنہیں سکتا تھا۔
میٹنگ ختم ہونے کے بعد بادشاہ نے ذاتی اسٹاف کوبلاکرکہاکہ چرچل کااس وقت، برطانیہ کا وزیراعظم بنناملکی اَبتری ہے۔ یوکے میں خالص جمہوریت تھی، اس لیے بادشاہ، وزیراعظم کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ آہستہ آہستہ جنگ کے بادل گہرے ہوتے چلے گئے۔
ہٹلرنے لندن اوراردگرد کے علاقوں پر فضائی حملے کر کرکے قیامت برپاکردی۔ شہر کوراکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ چرچل، ہرحملے کے بعدباہرنکلتا۔ وی کا نشان بناتے ہوئے لوگوں کے پاس جاتااوران کی ہمت بڑھانا شروع کردیتا۔ مگریہ سب کچھ کافی نہیں تھا۔ سابقہ وزیراعظم چمبرلین، ہیلی فکس، لارڈ ایٹلی تمام سیاسی حریف جنگی کابینہ کاحصہ تھے۔ انکاخیال تھاکہ چرچل ایک دیوانہ ہے اوربرطانیہ کوہٹلرکے ہاتھوں فنا کروا دیگا۔
یہ گھاگ سیاستدان، ہٹلر سے صلح کرناچاہتے تھے۔ ان کے سامنے، صرف ایک ضدی آدمی کھڑاتھا، جس کانام چرچل تھا۔ وہ ہروقت کہتاتھاکہ یوکے کبھی بھی ہتھیار نہیں ڈالے گا۔ صلح بھی نہیں کریگا۔ معاملہ اس قدرسنجیدہ ہوگیاکہ چرچل کولگاکہ کہیں وہ غلط فیصلے تونہیں کر رہا۔ بار بار ذہن میں خیال آتاتھاکہ کہیں مسلسل جنگ کے فیصلے سے برطانیہ ختم نہ ہوجائے۔ رات کے ہرلمحہ میں سوچتا رہتا تھا کہ اسے کیاکرناچاہیے۔ ایک طرف پوری برطانوی سلطنت کی بقاء اوردوسری طرف صرف اور صرف اسکاصلح نہ کرنے کافیصلہ۔ چرچل حددرجہ ذہنی مشکل سے گزر رہا تھا۔
اسی دورانیہ میں، ایک رات کوچرچل سونے کی ناکام کوشش کررہاتھاکہ اسٹاف نے آکربتایاکہ ایک انتہائی غیرمتوقع مہمان آیاہے۔ رات کے تین بجے کا وقت تھا۔ چرچل پریشان ہوگیا۔ اس وقت، مہمان، کون ہوسکتا ہے۔ بیوی خواب گاہ سے پریشانی کے عالم میں باہرگئی اورمزیدپریشانی میں بھاگتی ہوئی واپس آئی۔ برطانیہ کا شہنشاہ جارج ملاقات کے لیے آیا ہوا ہے۔ چرچل، سونے والے کپڑوں میں ملبوس تھا۔ بیوی نے کہاکہ بادشاہ کمرے کی طرف آرہاہے۔ ابھی باتیں ہوہی رہی تھیں کہ جارج خواب گاہ میں داخل ہوگیا۔
چرچل نے معذرت سے کہاکہ اس نے مناسب کپڑے نہیں پہنے ہوئے۔ بادشاہ کا استقبال بھی نہیں کرسکا۔ جارج نے کوئی بات نہیں کی۔ پلنگ پرچرچل کے ساتھ بیٹھ گیا۔ پوچھاکہ کیاتم جانتے ہو، کہ میں اس وقت کیوں آیاہوں؟ چرچل نے نفی میں جواب دیا۔ ویسے چرچل کے ذہن میں تھاکہ جنگ میں شکست دیکھ کربادشاہ ملک سے فرارہونا چاہتا ہے۔ مگر ایساکچھ بھی نہیں تھا۔ بادشاہ نے یکسوئی سے کہا " ونسٹن، میں کبھی نہیں چاہتاتھاکہ تم جیساانسان، برطانیہ جیسی عظیم مملکت کاوزیراعظم بنے۔ یقین تھاکہ تمہارے جیسے لوگ ملکوں کوبربادکردیتے ہیں۔ مگرآج میں تمہیں انسانی حیثیت میں کچھ بتانے آیا ہوں۔
ناپسندیدگی سے بالاتر ہوکر مشورہ دینے آیا ہوں "۔ چرچل خاموشی سے باتیں سرجھکاکرسن رہاتھا۔ بادشاہ نے کہا، چرچل، تم نے جرمنی کے نیچے نہیں لگنا۔ صلح نہیں کرنی اوراستعفیٰ نہیں دینا۔ کسی بھی صورت میں کسی دباؤمیں نہیں آنا۔ وزیراعظم دم بخود تھا۔ مگرکیوں، چرچل نے انتہائی سنجیدگی سے پوچھا۔ میری کابینہ کی اکثریت اب صلح کا مشورہ دے رہی ہے۔ بادشاہ نے حیران کن جواب دیا۔ ونسٹن، تم واحدبرطانوی وزیراعظم ہو، جسکے نام سے ہٹلر کے دل میں خوف پیدا ہوتا ہے۔ جب تم وزیراعظم بنے تو برطانیہ کے تمام دشمن ممالک کے سربراہان گھبراگئے تھے کہ یہ شخص حددرجہ ضدی، غصیل اورہٹ دھرم ہے۔ سیاسی قدکاٹھ بھی رکھتا ہے۔
مشکل فیصلے بھی کرنے کی ہمت رکھتاہے۔ اسے کسی صورت میں وزیراعظم نہیں بنناچاہیے۔ ہٹلرنے تمہارے وزیراعظم بننے کے بعد، لندن پربمباری کرکے قیامت برپاکردی ہے۔ کیوں، صرف اس لیے کہ تمہارے جیسا انسان ہی وہ ہمت رکھتا ہے کہ مشکل ترین حالات میں اعصاب پر قابو پاکر ناممکن فیصلے کرسکتا ہے۔ لہذادوست کی حیثیت سے مشورہ ہے کہ اپنے فیصلوں پرڈٹے رہو۔ یہ سب کچھ کہہ کر بادشاہ، واپس چلاگیا۔ چرچل کے ذہن سے گومگو کی کیفیت بھرپورطریقے سے ختم ہوگئی۔ ساری رات جاگ کرگزاری۔ صبح اعلان کردیا، کہ برطانیہ ہرقیمت پر جنگ جیتے گا۔ اسے ہٹلر ہرگز ہرگز ہر انھیں سکتا۔ جارج اور چرچل کی صرف ایک ملاقات نے جنگ کاپانساپلٹ دیا۔ دو سے تین سال کے عرصے میں برطانیہ نے ہٹلر کو شکست فاش دی۔
جنگ میں مصروف برطانیہ اورآج کے پاکستان میں چند عناصر، حیرت انگیزطورپریکساں ہیں۔ خیر، دوسری جنگِ عظیم تونہیں ہورہی۔ مگرہمارے ہمسائے ممالک، ہندوستان اورافغانستان، ہرصورت میں ہماری سالمیت کے خلاف ہیں۔ ان کی طرف سے مالی اورجنگی امدادسے بلوچستان اورکے پی کے اہم ترین حصے مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ فاٹامیں ہم کافی حدتک جیت چکے ہیں۔
ہماری طاقتورفوج نے دہشتگردی کے جن کوممکنہ حدتک بوتل میں بندکررکھاہے۔ کراچی جیسے نازک شہرمیں بھی امن قائم ہوچکاہے۔ اس وقت تمام دشمن ممالک کی ایک ہی تمناہے۔ اپنی مرضی کا وزیراعظم۔ دوسرا، فوج اورسیاسی حکومت کے مابین چپقلش۔ بھارت، اسرائیل، افغانستان کوعلم ہے کہ جب تک یہ دوکام نہیں کیے جاتے، پاکستان کومکمل طورپربربادکرنا ممکن نہیں۔ انھیں ایسا وزیراعظم چاہیے ہی نہیں جو آزادانہ فیصلے کرسکے اور اس کے ریاستی اداروں سے بہترین تعلقات ہوں۔ اس عجیب وغریب لمحے میں، وزارتِ عظمیٰ عمران خان کے پاس ہے۔ چرچل کی طرح وہ بھی ایک ضدی، ہٹ دھرم اور اَنا پرست انسان ہے۔ اس کی مشاورت کاعمل بھی مناسب نہیں لگتا۔ مگروہ آزادانہ فیصلے کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔
ریاستی اداروں کے ساتھ بیٹھ کروہ ایسے ہمت والے کام کرنے کی استطاعت رکھتاہے جواس کے سیاسی حریفوں کے پاس ہرگز ہرگزموجودنہیں ہے۔ اس کے دل میں یہ بھی موجود نہیں ہے کہ اس کی اولاد، وقت کے ساتھ ساتھ حکومت سنبھالے۔ قرائن ہیں کہ وہ یکسوئی کے ساتھ ملکی منفعت کے لیے کام کرناچاہتاہے۔ جنگِ عظیم دوم کی طرح، وہ ایسا شخص ہے جونازک حالات میں مشکل فیصلے کرنے کی جرات رکھتا ہے۔ ہرگزیہ عرض نہیں کر رہاکہ وہ ایک مثالی سیاستدان یامثالی وزیراعظم ہے۔ بلکہ اس کے بعض غلط فیصلے کرنے کی صلاحیت اسے سیاسی ہزیمت کا سامنا کر وا رہی ہے۔
ویسے ایک نکتہ اوربھی ہے۔ یہ"نازک حالات" کااستعارہ ہماری قومی بدقسمتی رہاہے۔ 1947 سے لے کرآج تک ہروقت ہمیں یہی بتایاجاتاہے کہ حالات بہت زیادہ نازک ہیں۔ خیریہ ہمارامقدرہے کہ تہتربرس سے ہم ایک عذاب سے نکلتے ہیں تودوسرا عذاب، جبڑے کھولے ہمارے انتظارمیں ہوتاہے۔ قحط سالی پر قابو پانے کی کوشش ختم نہیں ہوتی، توسیلاب ہماری خوشحالی اورخوابوں کوبہاکرلیجاتاہے۔ عجیب بات ہے کہ عوام کی فلاح کے لیے خزانہ ہروقت خالی رہتا ہے۔ مگر سیاسی رہنماؤں کی دولت میں بھرپوراضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایک سابقہ وزیراعظم کے بیٹے کے اکاؤنٹ سے یک دم، سوکروڑ کی رقم آجاتی ہے۔
ان اکابرین کے ساتھ ساتھ، ان کے چیلے چانٹے سائیکل سے لینڈکروزر کا سفر، صرف اور صرف دس سال کے جمہوری عذاب میں طے کرلیتے ہیں۔ فٹ پاتھ سے اُٹھ کریہ مصاحبین ہاؤسنگ کالونیوں، پلازوں اور بیش قیمت زمین کے مالک بن جاتے ہیں۔ مخصوص افراد، بجلی، کھاد اور چینی کے کارخانوں سے ناجائزدولت کے پہاڑکھڑے کر لیتے ہیں۔ ان محیرالعقول معجزوں سے قوم کامستقبل اور حال بربادہوکررہ چکاہے۔ اس وقت، ان تمام قائدین اورحواریوں کوایک نرم وزیراعظم چاہیے۔
جوان کے دباؤمیں آکرفیصلے کرے۔ انھیں ماضی کی طرح، ہرجرم کی معافی ملتی رہے، مگریہ ضدی، ہٹ دھرم عمران خان ان کے ہرمنصوبے کے سامنے کھڑاہوجاتا ہے۔ تمام سیاسی مسائل ایک طرف، تمام جماعتیں ایک طرف، یہ واحدسیاستدان ہے جسکے وزیراعظم بننے سے ہمارے دشمن ممالک کے دلوں میں خوف محسوس ہوا ہوگا۔ بڑے عرصے کے بعد ان کے ذہنوں میں آیاہوگا، کہ یہ ہٹ دھرم وزیراعظم، ملک کومستحکم کرنے کے لیے مشکل سے مشکل فیصلہ کرسکتاہے۔ اصل مسئلہ ہی اب یہ ہے!آگے آپ خود سوچ سکتے ہیں۔