انصاف ایک ہمہ جہت صفت ہے۔ صرف عدالت کے نظام کو انصاف کرنے کے لیے مختص کرنا، اس عظیم فلسفہ کی حد درجہ تحقیر ہے۔
غور سے دیکھا جائے تو انصاف سماج کے ہر پہلو کا بے لاگ احاطہ کرتا ہے۔ اس میں طرز حکمرانی، حکومت کرنے کا بھرپور نظام، عوام کا کسی بھی حکومت پر اعتماد، لوگوں کی زندگی کو آسان بنانے کا چلن، ملکی دفاع اور سرکاری اور غیر سرکاری اخراجات، سب کچھ آ جاتا ہے۔ دوبارہ گزارش کرونگا کہ انصاف کسی بھی ملکی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے اور اگر یہ ہڈی کمزور یا ٹیڑھی ہو جائے، تو پورا ملکی نظام اور رعایا کی حالت برباد ہو جاتی ہے۔
ہم سارا دن سیاست دانوں اور اہم اداروں کو کوستے رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں پورے نظام میں "صفت انصاف" پر غور کرنے کے لیے وقت ملتا ہی نہیں ہے۔ تاریخ کے طالب علم کے طور پر عرض کر رہا ہوں۔ فراعین مصر سے لے کر رومن حکومت تک، عیسائی بادشاہوں سے لے کر مسلمان سلاطین تک، قدیم چینی شہنشاہیت سے لے کر برصغیر کی ملی جلی ریاستوں تک، سوسائٹی کے عظیم ترین وصف کو تلاش کرنا حد درجہ مشکل ہو جاتاہے۔ ناراض نہ ہوئیے گا۔ بادشاہ یا حکمران صرف بادشاہ ہی ہوتا ہے۔
اسے مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے سے کچھ ذہنی سکون تو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مگر قدیم زمانے سے لے کر آ ج تک حکمران صرف مطلق العنان حاکم ہی ہوتے ہیں۔ ہر طرح کے احتساب سے مبرا۔ ایک ایسی اشرافیہ، جس تک پہنچنے میں انصاف یا کسی بھی قانون کے پر جلتے ہیں۔ مگر آپ حیران رہ جاتے ہیں۔ جب آپ اسلام کا ابتدائی دور اور خلفاء راشدین کے نظام حکومت کو پرکھتے ہیں۔
ہزاروں یا شاید لاکھوں برسوں میں آقا ﷺ اور ان کے خلفاء کا محض دہائیوں کا دور ہر لحاظ سے حیرت انگیز بلکہ محیر العقول ہے۔ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ وہ لوگ جو کسی بڑی تعلیمی درسگاہ کے فارغ التحصیل نہیں تھے، کسی مدرسے سے بھی نہیں پڑھے تھے، وہ انسانی کردار کی بلند ترین عظمت تک کیسے جاپہنچے۔ جہاں انھوں نے پوری دنیا کے لیے جدید ترین نظام حکومت ترتیب دے ڈالا۔ دلیل سے عرض کرونگا کہ یہ اعجاز ان عظیم لوگوں کا آقا ﷺ کی تربیت اور اسلام کے اصولوں پر چوں چراں کیے بغیر عمل کرنا تھا۔
طالب علم مکمل طور پر مغربی درسگاہوں کا فارغ التحصیل ہے۔ مگر آقاؐ ﷺ اور خلافت راشدہ کے دور جیسا دور، علمی طور پر تلاش کرنے کے باوجود کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ مغرب نے انصاف کے کلیے کو سماج میں پروان چڑھایا اور آج وہ ہمارے اسلاف کی طرح دنیا پر حکومت کر رہے ہیں۔
حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے کا ایک واقعہ، جناب شبلی نعمانی نے اپنی کتاب "الفاروق" میں تحریر کیا ہے۔ ذرا پڑھیے۔ آپ حیران رہ جائیں گے کہ چودہ سو برس پہلے کتنا بہترین طرز حکمرانی تھا۔ حضرت عمرؓ کو انصاف کا اس قدر اہتمام تھا کہ اس کے تجربہ اور امتحان کے لیے متعدد دفعہ خود عدالت میں فریق مقدمہ بن کر گئے۔
ایک دن ان میں اور ابی ابن کعب میں کچھ نزاع تھی۔ ابی نے زید بن ثابتؓ کے ہاں مقدمہ دائر کیا۔ حضرت عمر ؓ مدعا علیہ کی حیثیت سے حاضر ہوئے۔ زید نے تعظیم دی۔ حضرت عمرؓنے فرمایا یہ تمہارا پہلا ظلم ہے۔ یہ کہہ کر ابی کے برابر بیٹھ گئے۔ ابی نے قاعدے کے موافق حضرت عمرؓ سے قسم لینی چاہی لیکن زید نے ان کے رتبے کا پاس کر کے ابی سے درخواست کی کہ امیر المومنین کو قسم سے معاف رکھو۔ حضرت عمرؓ اس طرف داری پر نہایت رنجیدہ ہوئے۔ زید کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ"جب تک تمہارے نزدیک ایک عام آدمی اور عمر برابر نہ ہوں تو منصب قضاء کے قابل نہیں سمجھے جاسکتے۔
موجودہ حالات میں اپنے ملک میں معاملات کو منطقی انداز میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یقین کیجیے ماتم کرنے کو دل چاہتاہے۔ یہ مت سمجھیے کہ ہمارا کوئی بھی حکمران اسلام کے آفاقی اصولوں کی پیروی کرتا تھا۔ بالکل نہیں۔ ہرگز ہرگز نہیں۔ مثال دینا چاہتا ہوں کہ پورے ملک میں اقتصادیات کے شعبہ سے وابستہ حکومتی اور غیر حکومتی افراد، گلا پھاڑ کر فرما رہے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ ڈالر نہیں ہیں۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ ملک کی معاشی صورت حال حد درجہ مشکل ہے۔
لیکن کیا موجودہ اور سابقہ حکومتوں کے عمال کے وطیروں سے کوئی اندازہ کر سکتا ہے کہ ہم کسی طرح بھی ایک غریب بلکہ مفلس ملک ہیں۔ واشنگٹن سے ایک دوست نے کوئی سال پہلے فون کیا۔ ہمارے قلاش ملک کے سابقہ وزیر خزانہ، وہاں قرضہ لینے کی ناگوار مہم پر تشریف لے گئے تھے۔ یقین فرمائیے۔ وہ واشنگٹن کے مہنگے ترین ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ کمرے کا کرایہ دو سے تین ہزار ڈالر یومیہ تھا۔ سفر کرنے کے لیے مہنگی ترین گاڑیاں کرائے پر حاصل کی گئی تھیں۔
لگتا تھا کہ وہ، امریکا کو مالی امداد دینے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ بالکل یہی معاملہ نواز شریف صاحب، زرداری صاحب کے بیرونی دوروں کے اخراجات کا ہے۔ امریکا، برطانیہ کے لا حاصل دوروں پر کروڑوں ڈالر اڑا دینا بالکل معمولی بات تھی۔ ماضی کی لکیر کو کیا پیٹنا۔ ذرا موجودہ وزیراعظم کے لندن، سعودی عرب اور ترکی کے دوروں پر اخراجات کا تخمیہ لگائیں۔ قلاش ملک کے حکمران، ان ملکوں میں کتنے شاہانہ طریقے سے گئے اور رہے ہیں۔ کیا ہمارے وزیراعظم پاکستانی سفارت خانوں میں نہیں ٹھہرسکتے۔ پاکستانی سفیروں کے گھروں میں ٹھہرنے سے کیا ہمارا قیمتی زرمبادلہ نہیں بچے گا۔
اس کو بھی رہنے دیجیے۔ کیا بیرون ملک کسی متمول پاکستانی کے گھر ٹھہرنے سے ان کی شان گھٹتی ہے۔ نہیں صاحب نہیں۔ یہ ہمیں یہی بھاشن دینگے کہ ملک دیوالیہ ہو گیا ہے۔ مگر اپنی شاہ خرچیوں پر کوئی قدغن نہیں آنے دینگے۔ ہمارے موجودہ وزیر خارجہ ابھی چند ممالک میں تشریف لے گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے چند معتبر وزراء بھی ساتھ تھے۔ سوئٹزرلینڈ کا شمار یورپ کے مہنگے ترین ممالک میں ہوتا ہے، وہاں جو اخراجات ہوئے ان کا حساب لگا لیں۔ سوئٹزرلینڈ سے ایک پاکستانی نے مجھے فون کیا کہ جناب، یہ تو اس طرح یہاں رہ رہے ہیں جیسے سوئٹزرلینڈ کو قرضہ دینے آئے ہوں۔ سرکاری خرچ پر بیوروکریسی کے بابوؤں کی عیاشیاں بھی بالکل اسی طرز کی ہیں۔ سادگی کا دور دور تک کوئی نام و شان تک نہیں ہے۔
دور مت جائیے۔ ہمارے ہاں ایک ایسے شخص کواہم ترین مقام پر لگایا گیا جس کی اخلاقی حالت کے بارے میں ثبوت موجود تھے اور ہیں لیکن وہ صاحب عہدہ بھی انجوائے کرتے رہے اور اخلاق بھی بہتر بناتے رہے بلکہ سرکاری تقریبات میں اخلاقیات کا درس بھی دیتے رہتے تھے۔ مسئلہ بالکل سادہ سا ہے۔ یہ دو چار ہزار لوگ، پورے ملک کو غلام بنا چکے ہیں۔ ان کے لیے نہ لوڈشیڈنگ ہے اور نہ ہی پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت کوئی مسئلہ ہے۔ اب اس کا حل کیا ہے۔ میرے بتائے ہوئے چند واقعات تو تقریباً سبھی کے علم میں ہونگے۔ مگر مسئلے کے حل کی طرف بہت کم لوگ آتے ہیں۔
طالب علم نے سوشل ازم اور دیگر نظام حکومت، ترتیب سے پڑھے ہیں۔ مغربی ممالک کو بھی نزدیک سے دیکھا ہے۔ مغرب کا مروجہ نظام، ہمارے ملک کے لیے قابل عمل نہیں ہے۔ ہم نے ہر طرح کے انتظامی تجربات بھی کر کے دیکھ لیے ہیں۔ اسلامی سوشل ازم سے لے کر ضیاء الحق کی مذہب کی تشریح، پرویز مشرف کی جعلی روشن خیالی، سب کچھ ہمارے سامنے موجود ہیں۔ کسی طرح بھی ملک کامیابی اور بلندی کی طرف نہیں جاسکا۔ اب معاملہ بالکل سادہ ہے۔ حل بھی مکمل طور پر موجود ہے۔
ہمیں اسلام کے آفاقی اصولوں کی طرف لوٹنا چاہیے۔ اسلامی طرز حکومت جو خلافت راشدہ تک جاری و ساری رہا، اس سے اپنا نظام کشید کرنا پڑے گا۔ اگرچودہ سو برس پہلے، آقاؐ اور خلفائے راشدین، حد درجہ سادگی سے رہ سکتے تھے۔ تو ہم تو ان کی پیروں کی خاک بھی نہیں ہیں۔ پھر اسلامی اصول، اجتہاد کے ساتھ ہم لاگو کیوں نہیں کر سکتے؟ ہمارے پاس تمام بلند ترین قوانین موجود ہیں۔ قرآن مقدس میں بھی اور عملی طور پر بھی۔ پھر ہمیں اردگرددیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں حد درجہ کے لالچی گروہ، عوام کے پیسوں پر پل رہے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہمارا خون چوس رہے ہیں۔ ایسے ایسے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ جسے لوٹ مار کہنا غلط ہو گا۔ عوام کو ڈاکوؤں اور بحری قزاقوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
ہر ادارہ اب اسی کج عملی کا شکار ہے۔ کسی میں بھی عملی طور پر رتی برابر بھی کوئی فرق نہیں۔ ہمیں قطعاً ایسے نظام حکومت اور نظام انصاف کی ضرورت نہیں جو عام آدمی کے لیے بوجھ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ لوگ دعائیں مانگتے ہیں کہ تھانہ، کچہری سے کبھی واسطہ نہ پڑے یہ بے بسی کی انتہا ہے۔ اوریہی ہمارے بالائی طبقہ کی زندگی کا جواز ہے۔ سب کچھ آزما کر دیکھ لیا۔ کچھ بھی حاصل نہ ہو پایا۔
لہٰذا اب قرآن حکیم، آقاؐ کی سیرت اور خلفاء راشدین کے طرز حکمرانی سے اصول مستعار لیجیے۔ انھیں من و عن رائج کر دیں۔ مغربی دنیا اگر چیخیں مارتی ہے تو انھیں واویلہ کرنے دیں۔ آپ دیکھیں گے کہ مختصر ترین مدت میں حالات عوام کے لیے بہترین ہوجائیں گے۔ اور اشرافیہ کے لیے قیامت برپا ہو جائے گی۔ آگے بڑھیے اور یہ فیصلہ کر لیجیے۔