Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Islamophobia Barh Sakta Hai?

Islamophobia Barh Sakta Hai?

اسلام کے خلاف منفی جذبات، یعنی Islamophobiaجیسے الفاظ اس وقت ہرجگہ، ہرسطح پربے دریغ استعمال کیے جارہے ہیں۔ ہمارے جیسے نیم خواندہ ممالک کے سیاستدان، تاریخی تناظرکے بغیر، سوچ سمجھ سے عاری، اس انتہائی مشکل لفظ کواپنی گفتگو کا باقاعدہ حصہ بناچکے ہیں۔

کوئی غیرملکی گورا رہنما یا لیڈر قابوآجائے، توالفاظ کی یہ ترکیب ضروربرتی جاتی ہے۔ سیاستدانوں کے علاوہ ہمارے مذہبی دانشوروں کے گروہ درگروہ ہیں جنھیں دنیاکے ہرخطے میں ہمارے عظیم مذہب کے خلاف سازش نظرآتی ہے۔ کوئی بھی شخص، بالخصوص لکھاری یادانشور، خوف کی بدولت ان لوگوں کے متعلق کوئی منفی بات نہیں کرتا۔ بالخصوص جس ملک میں ہم سانس لے رہے ہیں۔

اس میں ہرحکومت، ہمارے مقامی مذہبی حلقوں سے ڈرکرکوئی بات نہیں کرتی۔ مگرسماج میں خوفزدہ ہوکرایک خاص ڈھب سے سوچنااورلکھناناممکن ہے۔ کوئی بھی ایسی متعصب تلوارنہیں جوآپکوسوچنے کے عمل سے منقطع کردے۔ بہرحال مغرب میں موجود، اسلام کے خلاف منفی جذبات پربات کرناوقت کااہم ترین تقاضہ بھی ہے اورایک فرض بھی ہے، شائدقرض بھی۔

1918میں ایک فرانسیسی مصورالفانسوڈینٹ اور ایک الجیرین مسلمان دانشور، سلمان بن ابراہیم نے یہ لفظ یعنیIslamopobiaاپنی تصانیف میں پہلی بار استعمال کیا۔ آپ حیران رہ جائینگے کہ اسلام کے خلاف منفی رجحانات، ان دانشوروں نے غیرمسلموں سے نتھی نہیں کیے۔ بلکہ یہ کہاکہ اس عظیم مذہب کودراصل، لبرل اورخواتین کے حقوق پربے دریغ لکھنے والے، مسلمانوں سے خطرہ ہے۔ یہ بات، مجھے بھی اَزحد عجیب لگی کہ اسلاموفوبیامیں غیرمسلموں کاکہیں گمان اوربیان تک نہیں تھا۔ اگرآج کے معاملات دیکھے جائیں تویہ بالکل متضادبات نظرآتی ہے۔

مسلمانوں کے عقائداوران کے خلاف امتیازی سلوک پرسب سے زیادہ علمی اورفکری کام بھی مغرب میں ہواہے۔ متعددرپورٹس میں فرنگی اورکافر اداروں نے اس پرافسوس کااظہارکیاہے کہ مغربی ممالک میں مسلمانوں کو اپنے دینی عقائدکی بدولت حددرجہ نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ 1996میں رنی میڈ نٹرسٹ نے برطانوی مسلمانوں اور اسلاموفوبیا پر ایک کمیشن بنایا۔ اس کی سربراہی سیکسیس Sussex یونیورسٹی کے وائس چانسلر Gordon Conway کررہاتھا۔

کمیشن کی رپورٹ 1997، برطانیہ کے ہوم سیکریٹری جیک اسٹرانے شایع کی۔ اس میں سرکاری سطح پرپہلی بار تسلیم کیاگیاکہ مسلمانوں کوہرجگہ اپنے عقائدکی بدولت توہین کانشانہ بنایاجاتا ہے۔ ان کی تضحیک کی جاتی ہے۔ اس رپورٹ میں یہاں تک لکھاگیاکہ اسلام ایک امن پسندمذہب ہے اور اس کے متعلق منفی پروپیگنڈابے بنیادہے۔ آپ نے کبھی بھی اس رپورٹ کاذکرنہیں سناہوگا۔ اسکاسرکاری نام Runnymede Reportہے۔ پاکستانی سرکار سے درخواست ہے کہ اسکوملک کی تمام درسگاہوں اور لائبریریوں میں رکھوایاجائے تاکہ اسلاموفوبیاکے محرکات اورمعاملات کوسنجیدگی سے سمجھاجاسکے۔

2001میں 9/11کے ہولناک واقعے کے بعد ہرچیزتبدیل ہوگئی۔ امریکی صدرجارج بش نے ایک انتہائی ادنیٰ بات کی کہ امریکا صلیبی جنگوں کے دورانیہ میں داخل ہوچکاہے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ ورلڈٹریڈسینٹرکو تباہ کرنے والے تمام لوگ مسلمان تھے اوراکثریت کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ بعدازاں، مغربی ممالک میں ہر جگہ مسلمان شہریوں کونفرت، تضحیک کانشانہ بنایا گیا۔ عالمی جنگوں کاایک سلسلہ شروع ہواجوآج تک جاری ہے۔ پاکستان کے خلاف ایک انتہائی سوچی سمجھی عالمی تحریک شروع کی گئی اورہمیں عالمی دہشت گردی کا مرکز قراردیاگیا۔

اُسامہ بن لادن کے ہمارے ملک میں قیام پذیراوراس پرامریکی حملے نے تمام ترمسائل، ہماری ٹوکری میں ڈال دیے۔ ہمارے دشمن ممالک نے اس واقعے کا اتنافائدہ اُٹھایا، جس کااندازہ تک نہیں لگایا جاسکتا۔ عالمی صف بندی میں ہمارے حلیف، ہمارے مخالف بن چکے ہیں۔ ہندوستان، امریکا اوردنیاکے طاقتور ملکوں کا ساتھی بن گیااورہم تنہارہ گئے۔ اس عالمی تنہائی کوہماری کوئی بھی حکومت ختم توکیا، کم تک نہیں کرسکی۔

بہرحال، اسلاموفوبیاپوری مغربی دنیامیں جڑ پکڑ گیا۔ کینیڈا اور نیوزی لینڈجیسے ممالک نے اس کی مخالفت ضرور کی، مگر اسے کم نہیں کرپائے۔ مگراب میں اس ساری صورتحال کے ایک انتہائی متضاد پہلوکی طرف آتاہوں۔ جس پرکم ازکم ہمارے ملک میں کبھی بات نہیں ہوئی۔ اس موضوع پر بات کرنااَزحدمشکل بنا دیا گیا ہے۔

وہ ہے کہ ہمارے تارکین وطن کامغربی ممالک میں سماجی رویہ کیا ہے؟ اس کاجواب تلاش کرنا بہت زیادہ ضروری ہے۔ میری نظرسے کوئی ایسی مستندرپورٹ نہیں گزری، جس کا سہارا لے کرمیں مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کے مقامی ممالک پر رویوں کی بات کرسکوں۔ پاکستانی حکومت کی شایع کردہ کئی ایسے دستاویزات ہیں، جو اسلاموفوبیا پر توبات کرتی ہیں، مگر ہمارے سماجی، لسانی، مذہبی رویوں کے متعلق بات کرنا شائدان کے بس کی بات نہیں ہے۔

اکثرملک سے باہرجاتارہتاہوں۔ دنیاکے تمام برِاعظموں میں جاچکاہوں۔ سب سے زیادہ امریکا جانے کا اتفاق ہواہے۔ پورے یورپ میں مسلمان تقریباً ہرملک میں موجودہیں۔ برطانیہ میں اگرجانے کااتفاق ہو تو آپکو مسلمان ہرجگہ نظرآئینگے۔ امریکا میں بھی یہی حال ہے۔ مگرگراں بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثریت مقامی گورے لوگوں سے میل جول اَزحدکم رکھتے ہیں۔ مقامی تقریبات میں شراکت بھی کافی کم درجہ کی ہے۔ مگر یہ اَمر دیکھ چکاہوں کہ جہاں مسلمان گھربناتے یا کرایہ پرلیتے ہیں۔ تھوڑے عرصے کے بعد، مغربی لوگ وہاں سے کسی اوربستی میں منتقل ہوجانابہترسمجھتے ہیں۔

بہت سی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہماری سماجی علیحدگی ہے۔ آسٹریلیا جانے کااتفاق ہوا۔ چارسال پہلے کی بات ہے۔ ایک انتہائی اخلاص والے پاکستانی تاجر نے دعوت کاانتظام کیا۔ وہاں بیس پچیس پاکستانی بھی تشریف لائے۔ گفتگوکے دوران ایک نوجوان نے بتایا کہ نوبرس سے ایک بین الاقوامی شہرمیں ٹیکسی چلاتا ہے۔ مگراس نوجوان کادوسرافقرہ چونکادینے والاتھا۔"میں نے آج تک کُرتے شلوارکے علاوہ کوئی اورلباس نہیں پہنا۔ آج تک پینٹ کوٹ نہیں پہنا"۔ جب میں نے پوچھاکہ کیوں، توموصوف نے بات بدل لی اورکوئی اور موضوع چھیڑدیا۔

خود سوچیے۔ اگر سڈنی میں جاکر، آپ وہاں کے مقامی لباس کو پہننا پسند نہیں کرتے، تولوکل آبادی آپکے متعلق کیاسوچے گی؟ مطلب توسادہ ساہے کہ آپ مغربی ممالک میں انھی شرائط پررہناچاہتے ہیں جوپاکستان کے شہروں اوردیہاتوں میں مروجہ ہے۔ ہمارے نناوے فیصدلوگ، مغرب میں رہتے ہیں مگر وہاں کی مغربی تہذیب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لندن چلے جائیے۔ ساؤتھ ہال کے علاقے میں تشریف لے جائیے۔ سری پائے، نہاری، ہڑیسہ اورتمام پاکستانی کھانوں کی دکانیں نظرآئینگی۔ فٹ پاتھ پرمرداور خواتین، خوانچے لگاکربیٹھے ہونگے۔ مختلف مقامات پر دیواروں پرہرطرح کے جملے، لکھے نظرآئینگے۔ انڈین اورپاکستانی ہر طرف گامزن ہونگیں۔ وہاں گورے لوگ بہت کم رہتے ہیں۔ مقامی آبادی اکثریت تعدادمیں لندن کے ان علاقوں میں منتقل ہوچکی ہے جہاں کم سے کم مسلمان ہوں، یاغیرملکی ہوں۔ یہ تکلیف دہ سچ ہے جس پرکم ازکم ہمارے ملک میں بہت کم لکھاجاتا ہے۔

نیویارک کی مثال سامنے رکھیے۔ امریکا میں مذہبی اورنسلی تعصب بہت کم تھا۔ مگراب وہاں بھی اسکاتناسب حددرجہ بڑھ چکاہے۔ ہمارے اکثر لوگ نیویارک میں یلوکیب چلاتے ہیں۔ جواَزحدمشکل کام ہے۔ یہ محنت کش لوگ ہمارے لیے قابل فخرہیں۔ اور پیشوں میں بھی کافی لوگ ہیں۔ مگر اکثریت، امریکا میں اپنی اپنی مقامی گوری آبادیوں میں بہت کم فعال نظرآتے ہیں۔ مقامی الیکشنوں، تقریبات، میل جول میں بہت کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ مہنگی جگہوں پرواقع ہوٹلوں اورریسٹورنٹ میں بھی حددرجہ کم دکھائی دیتے ہیں۔

مغربی دنیا میں ہمارے رویے اجنبیت پرمبنی ہیں۔ جب ہم مقامی لوگوں سے میل جول اتناکم رکھیں گے، توانھیں اپنے عظیم مذہب کی پُرامن تعلیمات کے متعلق کیا بتا پائینگے۔ یہ سماجی فاصلہ کم ہونے کے بجائے، اب پُرتشددطریقے سے بڑھ رہاہے۔ مسلمان ممالک کی حکومتوں سے بڑھ کرہمارے مقامی مسلمان، اسلاموفوبیاکوکافی حدتک کم کرسکتے ہیں۔

یہ ایک تہذیبی پل کاکردارادا کرسکتے ہیں۔ جس سے مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کو بہتر طریقے سے سمجھ پائیں۔ مگر ایساہوتا ہوانظر نہیں آرہا۔ دوری کایہ رویہ، سماجی، لسانی، مذہبی فرق اور اسلاموفوبیا کو مزید بھڑکائے گا۔ اگلے چندسالوں میں اس کے ہولناک نتائج سامنے آسکتے ہیں!مگرہمیں تو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔ بھلافرنگی معاشرے اور کافروں کے ذہن کوسمجھنے سے ہماراکیاکام؟