اسرائیل میں ہفتہ وار چھٹی اتوارکی بجائے جمعہ کو ہوتی ہے۔ آج سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے، اتوار والے دن، یروشلم کی ضلعی عدالتوں میں ایک مقدمہ پیش ہونا تھا۔ عدالتیں شہر کے مشرقی حصے میں واقع ہیں۔ عدالتی احاطہ کے اردگرد کسی قسم کے کوئی غیر معمولی حفاظتی انتظامات نہیں تھے۔
زندگی معمول کے مطابق تھی۔ دس بجے کے قریب، عدالت کے احاطہ کے باہر، کالے رنگ کی سرکاری گاڑی رُکی۔ اس میں سے سفید بالوں والا، ایک ستر سالہ بوڑھا آدمی قرینے سے باہر نکلا۔ پیدل چلتا ہوا عدالت میں چلا گیا۔ وہاں وکلاء کی ٹیم موجود تھی۔ اس شخص کو عدالت میں کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ عام سی کرسی پربیٹھا۔ جج نے روایتی طریقے سے اس کا نام پوچھا۔ پروسیکیوٹرنے چارج شیٹ پڑھی۔ جس کا انکار کیا گیا۔ انیس جولائی اگلی تاریخ پڑی۔ وہ شخص جس متانت سے عدالت میں حاضرہواتھا، اسی طریقے سے چپ کرکے خاموشی سے واپس چلاگیا۔
کوئی نعرے بازی، ہلڑبازی، کوئی جذباتی مناظر، کسی قسم کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ یہ اسرائیل کاموجودہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو (Benjamin Netanyahu)تھا۔ دنیاکاسب سے طاقتورانسان۔ جس کے ایک اشارے سے امریکا جیسی سُپرپاور، لرزجاتی ہے۔ اس کا دیا ہوا ہر حکم پوری دنیامیں سرِتسلیم خم ماناجاتاہے۔ مگردنیاکایہ موثرترین آدمی، اسرائیل کے نظامِ انصاف کے سامنے بے حیثیت ہے۔ ضلعی جج یعنی سیشن جج کی عدالت میں اونچی آوازمیں بات کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ عام ملزمان کی طرح جج کے سامنے پیش ہوتاہے۔
نیتن یاہو، جن الزامات کا سامنا کر رہا ہے۔ انکو جاننااورسمجھنابھی اتناہی اہم ہے جتنااسرائیل کے بہترین نظامِ انصاف کو۔ موجودہ وزیراعظم، اس ملک میں طویل ترین مدت کاسیاسی رہنماہے۔ 2009 سے آج تک اپنے ملک کاوزیراعظم رہاہے۔ بلکہ اس سے بھی پہلے، 1996 سے لے کر1999تک بھی تین سال حکمرانی کرتا رہاہے۔ دیکھاجائے توچودہ برس سے مسلسل وزارت عظمیٰ اس کے پاس ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، لکڈپارٹی کاسربراہ بھی ہے۔ ان الزامات کی مالیاتی حیثیت دیکھیے، تواس سے کہیں زیادہ، ہمارے کئی اداروں کے کلرک، محکمہ کے پٹواری اورپولیس کے تھانیدارکمالیتے ہیں۔
نیتن یاہو پر پہلاالزام یہ ہے کہ ہالی وڈکے ایک فلم ساز، ارنان ملچن(Arnan Milchan)اورآسٹریلوی ارب پتی جیمزپیکرسے سگارکے ڈبے اور شراب کے کریٹ تحفے میں لیے ہیں۔ وزیراعظم پرالزام ہے کہ ان تحفوں کے عوض اس نے ملچن کوفائدہ دینے کی کوشش کی ہے۔ لفظ کوشش پرغورکیجیے۔ یعنی فائدہ دیانہیں ہے۔ ان تحفوں کی مالیت ایک لاکھ، اٹھانوے ہزارڈالرہے۔ یعنی پاکستان کے بے قدرروپوں کے حساب سے تقریباًتین کروڑبنتے ہیں۔ یہ تحفے2011ء سے لے کر2016ء تک کے دورانیے میں دیے جاتے رہے۔ ملچن اورپیکر، دونوں نے تحقیقاتی اداروں کوبیان دیاہے کہ ان کی نیتن یاہوسے ذاتی دوستی ہے۔ ان کے عوض، انھوں نے کوئی کاروباری سہولت یافائدہ حاصل نہیں کیا۔
دوسراالزام بھی عجیب وغریب طرزکاہے۔ ہمارے جیسے ملک میں توخیراسے جرم سمجھاہی نہیں جاتا۔ ارنون موزز(Arnon Mozes)اسرائیل کے ایک مشہور روزنامہ کامالک ہے۔ اس کے میڈیاگروپ کانام Yedioth Ahronothہے۔ یہ نیتن یاہو پر شدید تنقیدکرتاہے۔ الزام یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نے تین بار، اخبارکے مالک کوبلاکرکہاکہ اس پر تنقید بند کردے۔ اس کاامیج بہتربنانے کی کوشش کرے۔
الزام میں یہ بھی شامل ہے کہHayomنام کے ایک اسرائیلی اخبارپرپابندی لگادی جائے گی جوایک مالیاتی جریدہ ہے۔ اس وقت، اسرائیل کی اسمبلی میں یہ بحث ہورہی تھی کہ کچھ وجوہات کی بنیادپرایک قانون بنایا جائے جوہیوم جیسے اخبارات پرپابندی لگاسکے۔ یہ بحث کبھی بھی قانونی شکل اختیارنہ کرسکی۔ مگرپروسیکیوٹرجنرل کے مطابق، ہو سکتاتھا، کہ اسرائیلی وزیراعظم نے اپناتشخص بہتر کرنے کے لیے ارنون سے اس معاملے پربات کی ہو۔ ارنون نے لکھ کردیاہے کہ اس نے اسرائیلی وزیراعظم سے کوئی ایسی بات نہیں کی۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ اگربات ہوئی بھی تھی، تواس کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ نے کوئی قانون منظورنہیں کیا۔ مگرآپ ایمانداری کااندازہ لگائیے کہ صرف شبہ ہے کہ وزیراعظم نے ذاتی امیج کوبہتربنانے کے لیے، سرکاری حیثیت سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ہو۔ تیسراالزام بھی حددرجہ دلچسپ ہے۔ شیول ایلرورچ (Shaul Eloritch)اسرائیل کے ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹرکابے تاج بادشاہ ہے۔
اس کی ایک خبررساں ویب سائٹ بھی ہے۔ جس کانام والا (Walla) ہے۔ الزام یہ ہے کہ وزیراعظم نے ایلرورچ کوکہاہے کہ وہ اپنی نیوزکمپنی "والا"پراثراندازہو۔ اس کی حکومت کے متعلق مثبت خبریں شائع کرے۔ والا کمپنی کے مالک نے صاف صاف کہاہے کہ اس کی ویب سائٹ نے کبھی بھی نیتن یاہوکامثبت تاثردینے کی کوشش نہیں کی۔ کمپنی مکمل طورپرخودمختارتھی اوراس کے فیصلے بورڈآف ڈائریکٹر کرتا تھا۔ مالک ہونے کے باوجود، وہ کبھی بھی بورڈ کو نہیں کہہ سکتاتھاکہ یہ کام کرو اوروہ کام نہ کرو۔ ان تینوں الزامات کوملاکر دیکھیے۔ تونیتن یاہوپرصرف اور صرف پاکستانی تین کروڑ روپے کے تحائف ذاتی حیثیت میں لینے کے الزامات ہیں۔
وہ بھی قیمتی شراب اور سگارلینے کے۔ اسرائیلی وزیراعظم اپنے ماتحت کسی ادارے کویہ حکم نہیں دے سکاکہ اس کے خلاف تحقیقات نہ کریں یااسے کلین چٹ دے دے۔ کیا یہ اَمر عجیب نہیں لگتاکہ دنیاکا طاقتور ترین سیاسی شخص اپنے نظامِ انصاف کے سامنے مکمل طورپربے بس ہے۔ ایک باربھی ماتحت تحقیقاتی اداروں کو اپنے فائدے کے لیے کسی قسم کاکوئی حکم دینے کی جرات نہیں کی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ اسی کا تعینات کیا ہوا، پروسیکیوٹر جنرل، دباؤمیں آکر اس کے حق میں کچھ مثبت بات لکھ دے۔ مگر صاحب، یہ سب کچھ آج کے اسرائیل میں ہورہا ہے۔
اسرائیل کانام لیناہمارے ملک میں پسندنہیں کیا جاتا۔ وہاں جاناتودورکی بات، ہمارے پاسپورٹ میں اس ملک کانام ہی درج نہیں ہے۔ کچھ مسلمان ممالک، اسرائیل کوتسلیم بھی کرتے ہیں اوراس کے ساتھ تجارتی روابط بھی رکھتے ہیں۔ جن عرب ممالک کے لیے، ہم ہمہ وقت اسرائیل کے وجودکوتسلیم نہیں کرتے، وہ تمام، اس ملک کے ساتھ قریبی ترین سفارتی تعلقات رکھتے ہیں۔ سوچیے کہ ہمارے ملک کانظام انصاف کیا ہے۔ نوے فیصدایف آئی آرزجھوٹی ہوتی ہیں۔ عدالتوں کوسب کچھ معلوم ہوتاہے۔ مگرسالہاسال، ان جھوٹے کاغذی پلندوں پربحث کی جاتی ہے۔ اکثروکلاء کوبھی سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ مگرہمارے عدالتی نظام میں، سچ کوجھوٹ اور جھوٹ کوسچ ثابت کرنابہت آسان ہے۔ بے گناہ آدمی پھانسی کے تختے پرلٹکادیے جاتے ہیں۔
اگر بین الاقوامی انصاف کے معیارسے پرکھاجائے تو ہماراپور انظامِ انصاف، حددرجہ ناقص نظرآتاہے۔ لیکن یہاں ایک بات کا ذکر ضرورکرونگا۔ ماتحت عدلیہ، یعنی سول جج سے سیشن جج تک کے لوگ، ایک انتہائی کٹھن عمل سے گزرکرسامنے آتے ہیں۔ ان میں حددرجہ محنتی اوربہترین جج پائے جاتے ہیں۔ مگرنناوے فیصدماتحت عدلیہ کے لوگ، کبھی بھی میرٹ پرآگے تک نہیں پہنچ پاتے۔ ان کے لیے نظام عدل میں بھی کوئی انصاف موجودنہیں ہے۔ کیا ہمارے یہاں، تصوربھی کیاجاسکتا ہے کہ ملک کے مضبوط ترین طبقے کوقانون کے سامنے پیش کیا جاسکے۔
مگر یہاں، قیامت برپاکردی جائے گی۔ ایسی ایسی تاویلیں پیش کیجائینگی کہ معلوم ہوگا، کہ اگراس طاقت ورطبقے کوہاتھ ڈالاجائے تو ملک ہی نہ بچ سکے۔ ہمارے ہاں، تو کھربوں روپے کے قانونی اورغیرقانونی فراڈہوتے ہیں۔ ان پربات کرنا ناممکن کردی جاتی ہے۔
پچھلے تین سال، بلکہ سترسال کے معاملات کودیکھ لیجیے۔ حالات جوں کے توں ہیں۔ بلکہ بگڑچکے ہیں۔ کسی حکومت میں کوئی فرق نہیں نظر آتا۔ صرف باتیں، اعلانات اور پریس کانفرنسوں سے، لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ غیرجذباتی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں نہ کبھی انصاف تھااورنہ کبھی ہوگا۔
ہمارا گلاسڑا نظامِ انصاف، ہمارے ملک کی طرح کمزور ہے۔ اس سے کسی بھلائی کی توقع نہیں۔ اگرنیتن یاہو کو پتہ چل جائے تو شائدوہ دعاکرے، کہ اسے بھی ہمارے جیسا رموٹ کنٹرول نظام مل جائے، تاکہ اسرائیلی طاقتور طبقے پر کوئی انگلی نہ اُٹھاسکے۔ لیکن دیکھیے، کہ نیتن یاہو، دنیا کا سب سے طاقتور وزیراعظم، اپنے ہی ملک کے نظام کے سامنے کتنابے بس ہے۔ کیا ہمارے ملک میں اس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ شائد کبھی نہیں!خواب میں بھی نہیں۔