چند دن پہلے، رات ساڑھے گیارہ بجے ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ قریبی دوست جو ایف بی آر میں اعلیٰ ترین عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے، بات کر رہے تھے۔ خیریت، ہاں بالکل خیریت۔ پھر اتنی رات گئے فون! بتانے لگے کہ آج تحریک انصاف کی کال تھی۔
لبرٹی چوک میں نماز تراویح کے بعد جمع ہونے کی۔ وہاں گیا تھا۔ عجیب سا لگا۔ کیونکہ میرا یہ محترم دوست مکمل طور پر غیر سیاسی ہے۔ تفصیل سے بات ہوئی، بیگم، بیٹیاں، بہو اور بھائی کی فیملی بھی پرامن احتجاج میں شامل تھے۔ ہم سب وہاں دو ڈھائی گھنٹے موجود رہے ہیں۔ میرے لیے یہ سب کچھ حد درجہ عجیب سا تھا۔ کیونکہ میرا دوست ریٹائرمنٹ کے بعد کاروبار کر رہا ہے۔ خدا کا ہر طور پر فضل ہے۔
لاہور کے بہترین علاقے میں رہتا ہے۔ پھر احتجاج کیوں۔ ہزاروں لوگ تھے۔ پورا لبرٹی چوک، گرد و اطراف کی سڑکیں اور گلیاں۔ ہر طرف انسان ہی انسان تھے۔ گھر واپس آتے ہوئے بہت وقت لگ گیا۔ میرے ایک سوال پر جواب بہت ہی خاص تھا۔ اگر پولیس گرفتار بھی کر لیتی تو کیا ہوتا۔ تھوڑے عرصے کے بعد باہر آ جاتا۔ پینسٹھ برس کا ہوں۔ اب کس چیز کا خوف، نکتہ صرف ایک کہ عمران خان کی حکومت کو غیر قانونی طریقے سے ختم کیا گیا ہے اور اس کی جگہ جو سیاست دان لائے گئے ہیں ان کی ساکھ خراب ہے۔
فون پر بات ختم ہوئی تو کافی دیر تک سوچتا رہا کہ ایک مکمل غیر سیاسی شخص کے یہ جذبات ہیں تو ان کی پارٹی کے اراکین کیا سوچ رہے ہونگے۔ پھر سوچا کہ ابھی زخم نیا ہے۔ تھوڑے دن میں سیاسی حالات بہتر ہو جائیں گے۔
اب مزید عرض کرتا ہوں جہاں کبھی کبھی گالف کھیلنے جاتا ہوں۔ وہاں ایک عام سا مالی گھاس کی تراش خراش کر رہا تھا۔ خیال آیا کہ اس سے سیاسی حالات پوچھتا ہوں۔ اندازہ ہو جائے گا کہ عوام کی سوچ کیسی ہے۔ ویسے ہی سوال کیا کہ حکومت کی تبدیلی کیسی نظر آتی ہے۔ یقین کیجیے۔ وہ بندہ پھٹ پڑا۔ خان، اللہ اور رسول کا نام لیتا تھا۔ اس کے خلاف بیرونی طاقتوں نے سازش کی ہے۔
ملکی اداروں نے اس کے ہاتھ پیر باندھ کر بھیڑیوں کے سامنے پھینک دیا تھا۔ وہ بے چارہ کیا کرتا۔ اس کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو ایک خوددار اور غیرت مند قائد کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسے دشمنوں نے نہیں بلکہ اپنوں نے مارا ہے۔ صاحب، یقین کریں۔ پہلے ووٹ ہمیشہ نواز لیگ کو دیتا رہا ہوں۔ مگر اب ووٹ خان کو دونگا۔ مالی کی باتیں سن کر حیران رہ گیا۔
تین دن قبل ایک بزنس مین ملنے کے لیے آئے۔ گھر کے نزدیک رہتے ہیں۔ باتیں کر رہے تھے کہ ان کا ملازم اجازت لے کر گھر کے اندر آ گیا۔ شام کی چھٹی چاہیے۔ رات گئے واپس آجاؤں گا۔ دوست نے سوچے سمجھے بغیر کہا کہ ٹھیک ہے۔ ملازم واپس جانے لگا تو ویسے ہی پوچھ لیا کہ برخوردار کہاں جا رہے ہو۔ جواب تھا کہ آج یادگار پاکستان پر خان صاحب کا جلسہ ہے۔ وہاں جا رہا ہوں۔ میرے ساتھ محلے کے دس بارہ ملازم اور بھی ہیں۔ جلسہ گاہ پہنچتے ہوئے بھی تین چار گھنٹے لگ جائیں گے۔
سوال کیا کہ بیٹا، آپ کا خان صاحب سے کیا تعلق ہے۔ جذباتی جواب ملا کہ وہ مسلمانوں کی غیرت تھا۔ اسے سپر پاور کے حکم پر نکالا گیا ہے۔ یہ ہمارے ملک کی عزت سے کھلواڑ ہوا ہے۔ الیکشن آنے دیں، خان کو ہم دوبارہ واپس حکومت میں لے کر آئیں گے۔ گھریلو ملازم کا یہ جواب کم از کم میرے لیے خلاف توقع تھا۔ ذہن میں آہستہ آہستہ یہ خیال جڑ پکڑنے لگا کہ کہیں عمران خان کا سازش والا بیانیہ مقبول تو نہیں ہو گیا۔ انتہائی غیر جذباتی طریقے سے اس پر کام شروع کر دیا۔
ہر طبقہ فکر کے لوگوں سے گفتگو کی۔ کیا سرکاری ملازم، کیا رکشہ والا، کیا دہاڑی دار مزدور، کیا صفائی کرنے والے لوگ۔ کیا گھریلو خواتین اور کیا کارپوریٹ شعبہ میں کام کرنے والے سنجیدہ لوگ، کیا ریٹائر عسکری اعلیٰ افسران اور کیا کلب کے ویٹر۔ میں حیران ہوں کہ عمران خان کا بیرونی سازش والا بیانیہ کامیاب ہو چکا ہے۔
کیڈٹ کالج حسن ابدال میں پڑھنے کی بدولت، ان گنت سینئر ریٹائرڈ فوجی افسران سے واٹس اپ گروپس میں بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ یہ تمام لوگ صاحب الرائے ہیں۔ ان میں سے چند تو ملک کی اعلیٰ ترین عسکری سطح سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثریت اس نکتہ پر متفق ہے کہ خان صاحب کی حکومت کو بیرونی سازش کے تحت فارغ کیا گیا ہے اور ان کی جگہ جو پرانے سیاست دانوں کی کھیپ کو گھر بلا کر حکومت عطا کی گئی ہے وہ داغدار ماضی کے حامل ہیں۔ ان پر کرپشن کے کیس ہیں۔ اور ان کی حکومت عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔
یہاں عرض کروں گا کہ خان صاحب کی چار سالہ حکومت کسی طور پر مثالی نہیں تھی۔ انھوں نے اپنے قریب ترین دوستوں کی پگڑی سر بازار اچھالی ہے۔ سب کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان کے پرنسپل سیکریٹری اورمشیر برائے احتساب کے نام پر حد درجہ عامیانہ کام کرتے رہے ہیں۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ کا ہونا نا ہونا ایک جیسا تھا۔ خان صاحب کی ٹیم کی اکثریت پر کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات لگ رہے تھے۔ اس کے علاوہ، خان صاحب ہر ادارے سے بے سبب لڑنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
جو بھی ان کے نزدیک سے گزرا، اس کو سینگ مارنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ مگر یہ سب کچھ ان کے حالیہ بیانیہ کے سامنے چھپ کر رہ گیا ہے۔ ان کی مقبولیت پاکستان کے کسی بھی سیاسی لیڈر سے زیادہ ہے۔ ان کے تمام گناہ دھل گئے ہیں۔ غلط یا صحیح کی بات نہیں کر رہا۔ مکمل غیر جانبداری سے عرض کر رہا ہوں۔ خان صاحب ملک کے ہر حصے اور صوبے میں مقبول ہیں۔
اگر یہ عرض کروں کہ ان کے علاوہ ملکی سطح کا ایک بھی قائد موجود نہیں تو یہ بے جا نہ ہوگا۔ تحریک انصاف اگر اس وقت کوئی عوامی تحریک چلائے گی، تو اسے عوامی پذیرائی ملنے کے واضح امکانات موجود ہیں۔ ہاں ایک اور بات۔ اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جس نے بھٹو کی حکومت کو جاتا ہوا دیکھا ہے۔ ذمہ داری سے عرض کرونگا کہ بھٹو جیسا عظیم لیڈر بھی، اس سطح کی عوامی تائید حاصل نہیں کر سکا۔ جو وزارت عظمی سے نکلنے کے بعد عمران خان کو نصیب ہو رہی ہے۔ یہ غیر معمولی صورت حال ہے۔ آپ کو نواز شریف اور محترمہ بے نظیر کی حکومتوں کے ختم ہونے کے واقعات یاد ہوں گے۔
دو دو بار تخت سے باہر نکلنے کے باوجود، یہ سیاسی قائد کسی بھی بڑی سطح کا جلسہ جلوس نہ کر سکے۔ مگراپنی تمام تر حماقتوں اور بے اعتدالیوں کے باوجود عمران خان اس وقت مقبول ترین سیاسی لیڈر ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں، ہر طور پر الیکشن سے بھاگ رہی ہیں۔ وہ لیڈر جو گلا پھاڑ پھاڑ کر چار سال فرماتے رہے کہ آؤ، عمران خان، الیکشن کرواؤ۔ ہم تمہیں اور تمہاری جماعت کو فنا کریں گے۔ موجودہ صورت حال سے اتنا ڈر چکے ہیں کہ الیکشن کا نام نہیں لیتے۔ کیونکہ انھیں عمران خان کی غیر معمولی مقبولیت کا اندازہ ہو چکا ہے۔
ریاستی اداروں کو عمران خان نے اپنی جذباتیت سے کافی دور کر لیاتھا۔ مگر تجزیہ کے مطابق، ریاستی ادارے بھی حالات کو انتہائی غور سے دیکھ رہے ہیں۔ مقتدر ادارے کے اکابرین کو ہر لمحہ کی معلومات بہم پہنچائی جا رہی ہیں۔ یہ تصور کرنا کہ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ اتنی جلد بدل جائے گی، یہ نہیں ہوگا۔ خان صاحب کو کافی یا کچھ عرصہ صحرا نوردی کرنی پڑے گی۔ ان کے مصائب بڑھتے جائیں گے اور وہ حکومتی عذاب کا شکار بھی ہونگے۔ مگر انھیں یہ سب کچھ اف کیے بغیر جھیلنا پڑے گا۔
انھیں اپنی زبان پر حد درجہ قابو رکھنا پڑے گا۔ وہ اس نفسیاتی جنگ میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ اس کے متعلق کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے، مگر ایک بات طے ہے۔ سیاسی مخالفین، سیاسی میدان میں عمران خان کا مقابلہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جلد الیکشن بالکل نہیں ہونگے!