سرنگا پٹم پر انگریزوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ ٹیپو سلطان جرأت اور بہادری کی تصویر بنے آخری دم تک لڑتے رہے تھے۔ میر ابراہیم اپنی کتاب مرد مومن ٹیپو سلطان میں لکھتے ہیں۔ "سلطان کی مرصع دستار، ہیروں سے مزین پٹی، ہلکے رنگ کی صدری اوردوسری قیمتی اشیاء جواس وقت سلطان نے پہن رکھی تھیں، غائب ہوچکی تھیں۔ تاہم سلطان کا بڑے گھیر کاپاجامہ جسم پر مزین تھا۔ اوردائیں بازو پر ایک بڑا تعویز بندھا تھا۔
سلطان کے چہرے کے تحکمانہ آثار، کھلی آنکھیں اور گرم جسم نے ایک لمحہ کے لیے تو اس مغالطے میں مبتلا کر دیا کہ شاید سلطان ابھی زندہ ہیں۔ یہ دیکھ کر لیفٹیننٹ کرنل آرتھر ویلز لے اور چند دوسروں نے ہواکے لیے راستہ بنایا اور چاہا کہ سلطان کے تنفس میں آسانی پیدا ہو۔ لیکن مسٹر فریزر جن کا تعلق33 انفنٹری سے تھااور ایک سرجن جوبیرڈ کے ہمراہ تھا، کے ملاحظہ کے بعد یہ معلوم ہواکہ سلطان میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں ہے۔ تاہم کرنل ولزلی کواب بھی شک تھاکہ وہ شیر زندہ ہے۔ اس نے دل پر کان رکھ کر دیکھا اورنبض پرانگلیاں رکھیں، تب کہیں اس کا شک اس یقین میں تبدیل ہوا کہ سلطان اس جہان فانی سے ہمیشہ کے لیے کوچ کر گئے ہیں۔
سلطان کے جسم پر آخری معرکے کے دوران تین زخم آئے تھے۔ جب کہ ایک چوتھا اور مہلک زخم کنپٹی پر لگا تھا۔ بندوق کی گولی دائیں کان سے ذرا اوپر داخل ہو کر سلطان کے بائیں گال میں پیوست ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ کئی زخم سنگینوں کے بھی تھے۔ انگریزوں کے سینئر افسر جو لاش کے پاس کھڑے تھے، ان میں جنرل بیرڈ بھی تھا جو ٹیپو سلطان کی قیدمیں تین برس رہ چکا تھا۔ محض آتش انتقام کو سرد کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا بٹوہ کاٹ کر جو قرمزی مخمل کا بناہوا تھا۔ 33ویں لائٹ انفنٹری کے ایک سپاہی کو یہ کہہ کر تھما دیا کہ میں کبھی لوٹ مارنہیں کرتا۔ لیکن اسے میں بطور یادگار رکھوں گا۔
یہ دیکھ کر لیفٹیننٹ کرنل ویلس کے آگے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ بھی اس مخمل کا ایک ٹکڑا اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن جنرل بیرڈ کی موجودگی میں اس کی وہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ تاہم لیفٹیننٹ کرنل ویلس نے اپنی جیب سے ایک قلم تراش قسم کا چاقو نکالا اور سلطان کے پاجامہ کا ایک ٹکڑا کاٹ لیا۔ اور قبل اس کے کہ سلطان کی لاش کواٹھایا جاتا جلدی سے سلطان کی مونچھ کے چند بال نوچ کر اپنی جیب میں بطور نشانی رکھ لیے"۔ ٹیپو سلطان برصغیر میں آزادی برقرار رکھنے کی آخری طاقتور آواز تھے۔ انھیں سازش کا نشانہ بنا کر ختم کر دیا گیا۔ ان کی نعش کی بے حرمتی تک کی گئی۔ کیوں، صرف اس لیے کہ وہ اس وقت کی سب سے بڑی قوت سے جنگ ہار چکے تھے۔
ذرا سوچیے! ہر باغیرت انسان کی اپنی ظاہری اور باطنی عزت ہوتی ہے۔ وہ مرنے کو ترجیح دیتا ہے مگر اپنی عزت پر آنچ نہیں آنے دیتا۔ بالکل اس طرح قوموں اور ملکوں کی حرمت ہوتی ہے۔ قیامت آجائے۔ بربادی کی آخری لہر تک فلک سے ٹوٹ پڑے۔ مگر قومیں اپنی عزت کی حفاظت کرتی ہیں۔ انھیں معلوم ہوتاہے کہ بغیرحرمت کے زندگی گزارنا موت سے بھی بدتر گنا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں ممالک ہر قسم کی بلکہ کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے۔ مگر یاد رہے کہ ہرقوم میں سازشی موجود ہوتے ہیں۔ جو دشمنوں کی راہ اپنی قوم کے مفادات کے خلاف ہموار کرتے ہیں۔
مسلمانوں کی تاریخ میں غداروں کا حد درجہ المناک کردار رہا ہے۔ بغداد جیسا عظیم الشان شہربھی کسی رزیل انسان کی غداری کی بدولت فنا ہوا تھا۔ کیا القامی کا ادنیٰ کردار اور منگولوں سے ہر طرح کے میل جول کونظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کی تہذیب کا ہیرا، بغداد، اپنوں کی سازشوں کی بدولت خون اور موت کا شاہکار بنا دیا گیا۔ خلافت عثمانیہ کے زوال میں آخری خلیفہ کے قریبی رشتے داروں کا حد سے زیادہ کردار رہا۔ عرض کرنے کامقصد صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنی اندرونی کمزوریوں نے نیست و نابود کیاہی، مگر اپنوں کی ریشہ دوانیوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اب میں اپنے ملک کی طرف پلٹتا ہوں۔ پاکستان اس وقت مکمل طور پر دنیا کے اہم ترین ممالک کے سامنے سجدہ کی حالت میں ہے۔ خراب معیشت سے لے کر اندرونی اور بیرونی حکمت عملیوں نے ملک کو ایک زندہ لاش میں تبدیل کر دیا ہے۔ پورے ملک میں باتیں اور افواہوں کا دور دورہ ہے۔ کوئی ایک ادارہ، دوسرے پر مکمل اعتبارکرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مہیب خطرات اس وقت سب کونظر آ رہے ہیں۔ سنجیدہ مسائل سر پر چڑھ کرناچ رہے ہیں۔
مگر سیاسی حکومت اور ریاستی اداروں میں اس ساکھ کے لوگ موجود نہیں ہیں، جن پر دنیا کے اہم سیاسی اور غیر سیاسی کھلاڑی اعتبار کر سکیں۔ اس وقت ہمارے درست سمت میں جانے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ بربادی صرف ایک دو سال میں پنپی ہے یا موجودہ حادثاتی حالات، دہائیوں سے لاوے کی طرح پک رہے تھے۔ اور اب آتش فشاں پھٹ پڑا ہے۔
لوگ مہنگائی، بدامنی اور شدت پسندی کی راکھ منہ پر مل کر زندہ رہنے کا ڈھونگ رچا رہے ہیں۔ ہر صاحب فکر کے علم میں ہے کہ پاکستان کوکس طرح ایک حددرجہ طاقتور، موثر اور معتدل ملک سے موجودہ کھیل تماشے میں تبدیل کر دیا گیا۔ ہم اتنے ظالم لوگ ہیں کہ قائداعظم جیسے مکمل مغربی طرز کے لیڈر کو چند لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش میں متنازعہ بنا دیا اور یہ کوشش کامیاب رہی۔ انھیں شیروانی اور ٹوپی پہناکر ایک قدامت پسند مسلمان کے طور پر پیش کیا گیا۔
مقصد صرف یہ کہ ملکی فکری بنیاد کو جعلی طریقے سے اس طرح پیش کیا جائے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت، ووٹ کی طاقت، لوگوں کے انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور اندرونی استحکام کو کسی بھی طریقے سے پس پشت ڈالا جا سکے۔ ایوب خان نے پاکستان کی ساکھ کو بہتر کرنے کی بھرپورکوشش کی۔ اسے اعتدال پر لانے کی ہمت بھی دکھائی۔ مگر دائیں بازو کے متعصب لوگوں نے اس کی ایک نہ چلنے دی۔
ذوالفقار علی بھٹو بھی اسلامی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے سامنے دم توڑ گیا۔ خوف کے زیر اثر اس نے ایسے فیصلے کر ڈالے جنھوں نے آزاد سماج کی بنیاد کو روند کر رکھ دیا۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کی شکل میں وہ لیڈر ملا جس نے پورے پاکستان کو فرقہ، برادری اور شدت پسندی کے اصول پر متنازعہ طرز پر تبدیل کر ڈالا۔ ریاست کی سطح پر ادنیٰ سوشل انجینئرنگ کی گئی۔
منافقانہ رویے کی سرپرستی کی گئی۔ یہ منفی معاملات آج تک جار ی ہیں۔ اب ہمارے پاس کوئی بھی ایسا لیڈر نہیں جو ملکی معاملات کو دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چلانے کی ہمت اور جستجو کر سکے۔ ادارے بھی تقریباً دم توڑ چکے ہیں۔ سچی بات ہمارے نظام میں کرنا اب موت کو دعوت دیناہے۔ مگرکسی نہ کسی احمق مگر نڈر آدمی کوتو بتانا ہے کہ بھائی صاحب، ملک دم توڑ رہاہے۔ کچھ کریے، اسے بہتری کی طرف کسی بھی قیمت پر لے کر آگے بڑھیے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی اب ہمارے ملک کو محفوظ رکھنے میں ذرا بھر بھی سنجیدہ نہیں ہے۔
سہولت کے لیے مثال دینا ضروری ہے۔ چین میں "برکس" کی میٹنگ کے ساتھ ساتھ" گلوبل ڈویلپمنٹ " پر ایک حد درجہ اہم کانفرنس ہوئی۔ جس میں افریقہ، ایشیاء اور دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک نے شرکت کی۔ چین نے اس کانفرنس میں پاکستان کو مدعو نہیں کیا۔ وجہ کوئی بھی ہو۔ ہندوستان کی مخالفت یا کوئی اور مسئلہ۔ اگرجب چین ہمیں نظر انداز کر رہا ہے تو خوداندازہ فرما لیجیے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔ مگر ہم اس بے عزتی کو پی چکے ہیں۔ کیونکہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ چین اب ہماری عزت کیوں نہیں کرتا۔ معاملہ اب بگاڑ کا ہرگز ہرگز نہیں ہے۔
کسی ایک سیاسی فریق کو پسند کرنے یا نہ کرنے کا بھی نہیں ہے۔ یہ ہمارے ملک کے عوام کے لیے قیامت کی گھڑی ہے۔ ملکی سالمیت پر طاقتور ممالک سوال اٹھا رہے ہیں۔ مگر ہمارا حکمران طبقہ اور ادارے صرف اور صرف لوٹ مار میں مصروف ہیں۔
قوم کی عزت کی پرواہ نہ ان کو پہلے تھی اور نہ ہی اب ہے۔ انھیں یاد نہیں کہ سرنگا پٹم کے عظیم سلطان، ٹیپو شہید کی لاش کے ساتھ انگریزوں نے کتنی بدسلوکی کی تھی۔ شاید یہ ہمارے ملک کوحقیقت میں ایک لاش بنا چکے ہیں۔ اور اب آخری کپڑے اور دستار تک اتار رہے ہیں۔ ہے کوئی جو ان بدبختوں کو روک سکے۔ یہ تو مردہ لوگوں کی مونچھوں کے بال تک نوچ لیتے ہیں۔