ایک بہت بڑاجنگل تھا۔ اتناگھناکہ دن کے وقت بھی روشنی، درختوں سے گزرکرزمین تک نہیں پہنچتی تھی۔ جنگل میں ہرطرح کے جانوراورپرندے رہتے تھے۔ اَن گنت، ہررنگ اورنسل کے درندے بھی موجود تھے۔ پانی کے چشمے، چھوٹی چھوٹی نہریں ہرجگہ پائی جاتی تھیں۔
کوئی چوپایہ بھوکانہیں سوتاتھا۔ پرندے تک ایک دوسرے کی حفاظت کرتے تھے۔ حیرانگی کی بات یہ تھی کہ درندے ہروقت چھوٹے جانوروں کاشکارنہیں کرتے رہتے تھے۔ بلکہ اکثراوقات توخوفناک درندے، کمزورجانوروں کی بھرپورحفاظت کرتے نظرآتے تھے۔ اس امن کی وجہ یہ تھی کہ یہاں قدرت کے بہترین اُصولوں کے حساب سے زندگی گزاری جارہی تھی۔ پرندوں، جانوروں نے انھی قوانین کے تحت زندگی گزارناسیکھ لیاتھا۔ اگرکوئی ببرشیر، زورسے دھاڑتاتھاتوہاتھی اسے سمجھاتاتھاکہ تمہاری اتنی پُر زوردھاڑسے چھوٹے جانوروں اورپرندوں کی سمع خراشی ہورہی ہے۔
ببرشیر، اس نصیحت کوپلے باندھ کر خاموش ہوجاتاتھا۔ اس کی بنیادی وجہ ایک اوربھی تھی۔ یہاں ایک ایسے ہاتھی کی حکومت تھی جوبہت زیادہ عادل تھا۔ اس کے انصاف کاطریقہ حددرجہ آسان تھا۔ جہاں بھی معمولی ساظلم ہوتا، توبادشاہ، فوری طورپرکوؤں اور فاخطاؤں کوبھیج کر بھرپورتفتیش کرواتا۔ پھرخودموقعہ پر پہنچ کر عدالت لگاتا اور مکمل طریقے سے انصاف کرڈالتا۔ ظالم کی سزا کے لیے گینڈوں کوبلایاجاتا۔ جوظالم کوبادشاہ کے عدل بھرے حکم کے تحت فوری سزادیتا۔ ہاں، اسی جنگل میں ایک کالا بندر بھی تھا۔ اسکومنترکرنے آتے تھے۔
وہ جادوکے زورسے اکثر کام کرلیتاتھا۔ دراصل یہ بندرپہلے کسی انسانی جادوگر کی قیدمیں تھا۔ وہاں جادو سیکھ کر، یہ انسانوں کی بستی سے جنگل میں چلاآیا تھا۔ کالے بندرکوایک ایساٹونہ آتا تھا جس سے وہ کسی بھی جانور اور پرندے کابدن بدل سکتاتھا۔ گدھے کو خرگوش اور طوطے کو مرغے میں بدل سکتاتھا۔ بادشاہ ہاتھی کوکیونکہ اس جادوگر کاعلم تھا۔ اس لیے کالے بندر کو جنگل کے ایک خاص حصے سے باہرنکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ بادشاہ سے جادو گربندربہت نفرت کرتاتھا۔
معلوم تھاکہ جب تک یہ عادل ہاتھی موجودرہیگا، جنگل میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ لہٰذااس نے ایک گہری چال چلی۔ رات کے اندھیرے میں وہ ایک طوطے کے پاس گیا۔ کہنے لگا۔ اے طوطے، توتوایک حددرجہ عظیم پرندہ ہے۔ تجھے توجنگل کابادشاہ ہوناچاہیے۔ ہاں، میں تجھے تیری مرضی کاجانوربھی بناسکتاہوں کہ جنگل میں تیرا رعب اوردبدبہ ہو۔ طوطا، اس کی چال میں آگیا۔ پوچھنے لگاکہ ابھی تو عادل بادشاہ موجودہے۔ اس کی موجودگی میں وہ کیونکر بادشاہ بن سکتاہے۔ بندرکہنے لگاکہ یہ تم میرے اوپرچھوڑدو۔ ہاتھی کوراستے سے ہٹانامیراکام ہے۔
اگلی رات، بندرپھرنکلااورایک چوہے کے پاس چلا گیا۔ اسے بھی یہی کہاکہ تم توایک درویش صفت جانورہو۔ لہٰذا تمہیں توجنگل کاحاکم ہوناچاہیے۔ میں تمہیں بادشاہ بنادونگا۔ چوہے نے سوچنے کاوقت مانگ لیا۔ جادوگر، یہ ساری کارروائی رات کو کرتا تھا۔ لہٰذا اُلو نے یہ سب کچھ دیکھ لیاتھا۔ اُلونے یہ سب کچھ رازدارانہ طریقے سے ہاتھی کو بتایا۔ مگرہاتھی کاجواب تھاکہ اس جنگل میں اس نے کسی کے ساتھ کبھی بھی ظلم نہیں ہونے دیا۔ لہٰذاکوئی اس کے خلاف کیوں کوئی بھی حرکت کریگا۔ ہاتھی کافی سادہ لوح تھا۔
اب جنگل میں بندرنے انتہائی عیاری سے کام شروع کردیا۔ سب سے پہلے، اس نے ایک گہرا کھڈا بنایا اور اسے ٹہنیوں اورپتوں سے چھپاڈالا۔ یہ اس راستے پر تھا جہاں ہاتھی اکثرسیرکرنے نکلتاتھا۔ اسی دن، اس نے طوطے کوچیتے اورچوہے کواژدہا میں بدل دیا۔ یہ دونوں نقلی جانور، ہاتھی کے راستے میں گڑھے کے نزدیک چھپ گئے۔ جادوگربندر، ساتھ تھا۔ جیسے ہی ہاتھی سیرکے لیے آیا۔ وہ بے چارہ گڑھے میں گرگیا۔ اس نے چیخیں ماریں کہ اسے باہرنکالاجائے۔
آواز سنتے ہی نقلی جانور، مددکوپہنچ گئے۔ اژدہے نے بادشاہ کوکہاکہ وہ اس کے اردگردلپٹ جائیگااورپھرباہرکھینچ لیگا۔ نقلی چیتے نے کہاکہ وہ گڑھے کے کناروں کواپنے پنجوں سے ہموار کرکے راستہ بنا دیگا۔ ہاتھی کی عقل ماری گئی تھی۔ اجازت دیدی۔ اژدہے نے بادشاہ کولپیٹا او راسے اعتماد میں لے کر کان کے نزدیک ڈس لیا۔ ہاتھی مر گیا۔ مگراصل بات یہ تھی کہ جادوگربندرنے اس کے زہر میں بھرپور تاثیر نہیں ڈالی تھی۔ ہاتھی مرانہیں تھا۔ بلکہ بیہوش ہوگیاتھا۔
جادوگربندرکی اسکیم حددرجہ پیچیدہ تھا۔ سب سے پہلے تواس نے اپنے مددگارطوطے اورچوہے کو بلایا۔ دونوں کونقلی بدن سے آزادکیا۔ طوطے کوقیدکردیا اور چوہے کو درخت کے ساتھ باندھ دیا۔ جنگل والوں کو یہی بتایاکہ ان دونوں نے ہاتھی کوماراہے۔ اب ایک اہم مسئلہ آن پڑا۔ جنگل کانیاحکمران کون ہوگا۔ جادوگر بندرنے جنگل میں تمام کااجلاس بلایااورکہاکہ وہ انسانوں کے درمیان رہاہے۔ انسانی معاشرے کے تمام نظام کو جانتا ہے۔ لہٰذا، اسے حکمران بنادیا جائے۔ وہ ایک اچھا بادشاہ ثابت ہوگا۔ فیصلہ ہواکہ چناؤ ہوگا۔ ایساہی ہوا۔ جادوگر بندرنے جادوکے زورسے چناؤجیت لیااور بادشاہ بن گیا۔
اب اس نے جنگل کے پُرامن معاشرے میں انسانی معاشرے کانظام رائج کردیا۔ لومڑکوامن قائم کرنے کی ذمے داری دیدی۔ خچرکوجنگل میں جانوروں کے جھگڑوں میں فیصلہ کرنے کی اجازت دیدی۔ گینڈوں کو جنگل میں حفاظتی اقدامات پرلگادیا۔ خفیہ طورپران سب کوبلاکرحکم دیاکہ تم جو مرضی کرو، میری حکمرانی قائم رہنی چاہیے۔
جنگل میں انسانی نظام لانے کی بدولت ہرطرف تباہی مچ گئی۔ لومڑنے جانوروں کے گروہوں میں جاکر طاقتورکی حمایت شروع کردی۔ ان سے سبزی، گوشت بھتہ کے طورپروصول کرناشروع کر دیا۔ اب جنگل میں صرف طاقتورکی بات سنی جاتی تھی۔ کمزورمرنے شروع ہوگئے۔ خیرجنگل میں لومڑ اور خچرنے اتناظلم کیا کہ ہرطرف آہ وپکارشروع ہوگئی۔ جنگل لُٹ گیا۔ مگر بندرحددرجہ صحت مند، توانا ہوگیا۔ اس کی دولت بھی بڑھ گئی۔
اُلوکوتمام قصہ معلوم تھا۔ مگر خوف سے چپ تھا۔ ایک دن، وہ ہاتھی کے گڑھے کے پاس بیٹھا فریاد کر رہا تھاکہ دیکھوتمہارے جنگل میں اب کیاظلم ہورہا ہے۔ محسوس ہواکہ گڑھے میں سے ہاتھی کی آوازیں آرہی ہیں۔ اسے یقین نہ آیا۔ مگرجب اس نے ہاتھی سے باتیں کیں تو اسے پتہ چلاکہ ہاتھی توزندہ ہے۔ دراصل ہاتھی، ہوش میں آچکاتھا۔ اُلو، فوری طورپرواپس گیا۔
سیکڑوں خرگوش لے کرآیااورگڑھے میں سرنگیں بنابناکرباہرنکلنے کاراستہ بنایا۔ ہاتھی بڑی مشکل سے باہرنکلا۔ اُلونے سارے جنگل کے حالات اس کے سامنے رکھ دیے۔ ہاتھی نے کہا کہ فکرنہ کرو۔ سب ٹھیک ہوجائیگا۔ مگرہاتھی بہت کمزور ہوچکاتھا۔ اسے اپنی طاقت میں آتے ہوئے کئی ہفتے لگ گئے۔
اُلو اور خرگوش مکمل خاموش رہے اورکسی کوپتہ نہیں چلنے دیاکہ ہاتھی زندہ ہے۔ بھرپورقوت واپس آنے پرہاتھی نے گینڈوں کوبلاکرساری بات بتائی۔ تمام نے ملکرمنصوبہ بندی کی۔ ہاتھی سب سے پہلے بندرکے درخت کے پاس گیا۔ بندراسے دیکھ کر تھرتھر کانپنے لگا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جادوکرتا۔ ہاتھی نے اسے سونڈ سے پٹخ کرمارڈالا۔ پھرلومڑاورخچرکے ٹھکانے پر گیا۔ وہاں جاکردونوں کی خوب مرمت کی اورپیروں تلے کچل ڈالا۔ اب طوطے اورچوہے کی باری تھی۔ ان کی بات سنکر، حکمران نے ان کومعاف کردیا۔ ہاتھی نے فی الفورجنگل سے انسانی نظام کوختم کیااوریک دم، قدرت کے آفاقی پرانے اُصولوں کورائج کردیا۔ انتہائی کم وقت میں جنگل کی روشنیاں بحال ہوگئیں۔ ماضی کی ہرخوبصورت چیز واپس آگئی اورجنگل دوبارہ رواں دواں ہوگیا۔
(اس کہانی کاملک کے سابقہ یاموجودہ حالات سے کسی قسم کاکوئی تعلق نہیں۔ )