ناسا، یورپین اسپیس ایجنسی، کینڈین اسپیس ایجنسی اور اسپیس ٹیکنالوجی سائنس انسٹیٹیوٹ کے تمام سائنسدان دم بخود بیٹھے ہوئے تھے۔ دنیا کے چوٹی کے ماہرین بالکل خاموش تھے۔ انھیں اپنی بینائی پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
اسٹروفزکس کے نامور ترین لوگوں کی نظریں سامنے لگی ہوئی اسکرین پر مرکوز تھیں۔ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کائنات اور وقت کے آخری حصوں میں جا کر وہاں کی تصویریں بھیج رہا تھا۔ سائنسدانوں کی فہم سے باہر کے مناظر ان کے سامنے آن کھڑے تھے۔ ایک کہکشاں نہیں، ان گنت مجموعہِ کائنات کا وہ طلسم جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ تیرہ بلین نوری سال قبل کے اسرار کو دیکھ رہی تھی۔
تیرہ بلین نوری سال اس لیے دوبارہ عرض کر رہا ہوں کہ یہ حقیقت ہیں۔ ٹیلی اسکوپ ماضی بعید میں جا چکی ہے۔ ایک نوری سال، ہمارے چھ ٹریلین سالوں کے برابر ہے۔ یہ چھ کھرب سال بنتے ہیں۔ تیر ہ کو چھ ٹریلین سالوں سے ضرب دے دیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ اس سائنسی تحقیق نے وقت، زمان اور مقام کی قیود کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔
سائنسدانوں نے مل کر چند تصاویر عوام الناس کے لیے جاری کی ہیں۔ امریکی ادارے نے اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ جدت انسانیت کی فلاح کے لیے کام آئے گی۔ کسی رنگ، مذہب، خطہ اور نسل سے بالاتر یہ علم کی وہ بارش ہے جس سے تمام دنیا سرشار ہو گی۔ دوبارہ عرض کرتا چلوں، تمام معاملات ماضی کے تیرہ بلین نوری سال کے دورانیہ کی بابت عرض کر رہا ہوں۔
0723 Smacsپہلی تصویر تھی۔ صرف ایک تصویر میں ہزاروں کائناتیں سمٹی ہوئی نظر آتی ہیں۔ پہلی بار اندازہ ہوا کہ ستارے کس طرح پیدا ہوتے ہیں اور کس طرح اربوں سال بعد دم توڑ ڈالتے ہیں۔ تصویر میں ایسے معلوم ہوتا تھا کہ کسی آفاقی مصور نے نیلے، بھورے اور لال نکتوں سے کینوس بھر دیا ہے۔ مگر صاحبان خرد، ایک ایک نکتہ مکمل کائنات ہے۔ بھورے رنگ کا مطلب ہے کہ یہ کائنات ابھی مکمل نہیں ہوسکی۔
اس کے ستارے اور سیارے بن رہے ہیں۔ نیلے رنگ کے ڈاٹ بھرپور اور بالغ کائنات کا پتہ دیتے ہیں۔ لال نکتے وہ توانائی ہے جو نوزائدہ ستارے خارج کر رہے ہیں۔ ذرا رکیے۔ Carina Nebula کی وہ آفاقی تصویر جس میں بھورے رنگ کے پہاڑ، گہرے نیلے آزاد آسمان اور سفید موتی جیسے ستارے موجود ہیں۔ کرینا، زمین سے تقریباً آٹھ ہزار نوری سال دور ہے۔ اور یہ بھورے بھورے پہاڑ، دو چار کلو میٹر نہیں، دو ہزار کلو میٹر بھی نہیں بلکہ سات نوری سال قدوقامت کے ہیں۔
یہ عرصہ لکھتے ہوئے کلیجہ مونہہ کو آ رہا ہے کہ انسان سائنسی اور تحقیق کی کن کن منازل کو سرعت سے طے کر رہا ہے۔ آگے چلیے۔ یہ Stephan`s Quintet کی تصویر ہے۔ یہ پانچ کائناتوں کا مجموعہ ہے۔ فلکی ماہرین نے اسے پہلی بار 1877ء میں حد درجہ دور سے دیکھا تھا۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ صرف محسوس کیا تھا۔ یہ تمام کائناتیں ایک دوسرے کے حد درجہ قریب ہیں۔ بلکہ جڑی ہوئی ہیں۔ ان میں ہزاروں نہیں لاکھوں ستارے موجود ہیں۔
متعددنئے بننے والے ستارے مسلسل توانائی کے طوفانوں کو خارج کر رہے ہیں۔ ستارے بھی ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سٹیفن نام کے مجموعہ کی ایک کائنات زمین سے چار کروڑ نوری سال دور ہے۔
اور دوسرا مجموعہ جات تین کروڑ نوری سال کی طوالت پر ہے۔ نوری سال صاحبان نوری سال۔ ذہن گھبرا جاتا ہے۔ اتنے زیادہ دور۔ پھر آپ سائنس کی بوقلمدنی دیکھے کہ اس مہیب فاصلے پر بھی فتح پا رہی ہے۔ تھوڑا سا دل تھام کر دیکھیے۔ یہ سدرن رنگ نیبولا Southern Ring Nebula ہے۔ اندھیرے میں سرخ اور سفید رنگوں کے غبارے دکھائی دے رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ انار کی ایک کاش پڑی ہوئی ہے۔ اس کے اردگرد سفید رنگ کے بڑے بڑے ہیولے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ دراصل دم توڑتے ہوئے ستارے ہیں۔ جب ستارے ختم ہوتے ہیں تو اسی لمحہ ان گنت نئے ستارے بھی تکمیل کے معاملات سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ جیمز ٹیلی اسکوپ کے پاس ان مجموعہ جات کی کیمسٹری جاننے کی استطاعت موجود ہے۔ آخری تصویر کے ایک رخ پر ایک گراف سا نظر آتا ہے۔
یہ WASP96bہے۔ دراصل یہ گراف ہے ہی نہیں۔ کسی نادیدہ قوت کی ای سی جی بھی نہیں ہے۔ یہ ستاروں اور سیاروں کی ساخت اور اس میں موجود اجزاء کی تصویر ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کئی سیارچے ایسے بھی ہیں جن میں پانی موجود ہے۔ اور زندگی کے آثار نظر آتے ہیں۔ گزشتہ پانچ دنوں میں پوری سائنسی دنیا میں انقلاب آ چکا ہے۔ ٹیلی اسکوپ دھڑا دھڑ ایسی تصاویر بھیجوا رہی ہے جن سے سائنسدان سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سمجھ رہے ہیں اور پھر پوری نسل انسانی کو بتا رہے ہیں۔ کوئی امر بھی راز نہیں۔ کہکشاں اور کائنات کے تمام اسرار سائنس کے سامنے سربسجود ہیں۔ علوم کے کئی نئے فلسفے جنم لے رہے ہیں۔ پرانی اور قدیم تھوریاں مردہ ہو رہی ہیں۔ آگے دیکھیے۔ کیا ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے۔ ابھی کچھ بھی قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
سائنس کے اس کرشمہ سے بھی بڑا کرشمہ ایک اور ہے۔ جس طرح پہلے ایک کالم میں لکھا تھا کہ جمیز ویب ٹیلی اسکوپ تخلیق کرنے اور بنانے میں کوئی مسلمان ملک یا مسلمان شامل نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح آج کی تکلیف دہ صورتحال یہ بھی ہے کہ موجودہ جدید ترین تحقیق میں کسی بھی مسلمان ملک نے کوئی حصہ نہیں لیا۔ اسلامی ملک نہیں لکھ رہا۔ امیر ترین مسلمان ملک نے ایک ڈالر بھی موجودہ فلکی تحقیق کو پروان چڑھانے کے لیے خر چ نہیں کیا۔
ہاں، ایک مسلم ملک کے ولی عہد نے چار سو پچاس ملین ڈالر کی ایک پینٹگ ضرور خریدی ہے جو ڈی ونچی نے بنائی تھی۔ اس ولی عہد نے پانچ سو ملین ڈالر کا پر تعیش بحری جہاز بھی خریدا ہے۔ جو بوری شیفلر کے پاس تھا۔
روس کا یہ کاروباری شخص ووڈ کا شراب بناتا ہے اور روس کے امراء میں شمار کیا جاتا ہے۔ مسلمان ممالک کے بادشاہوں، شہنشاہوں، شاہی خاندانوں اور اکابرین نے بین الاقوامی سطح پر سائنس کے فروغ کے لیے ایک دھیلا بھی خرچ نہیں کیا۔ یہ دکھ کی بات نہیں۔ بلکہ یہ مرثیہ ہے کہ علم کی ترویج میں مسلمان دنیا کا کسی قسم کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ مگر خد ا کا شکر ہے کہ ہم اپنی دائمی جہالت پر راضی ہیں، بلکہ خوش ہیں۔
امریکا، کینیڈا اور یورپ جس تخلیقی عمل سے گزر رہے ہیں اس سے آنے والے وقت میں کیا اثرات ہوں گے، اس پر فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مسلمان ممالک کی زبوں حالی تو سب کے سامنے ہے۔ مگر "اسلام کے قلعے" یعنی پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ اس کو دیکھ کر دل بیٹھتا ہے۔ ناسا نے جیمز ویب بنا ڈالی۔ مگر ہم کیا بنا رہے ہیں۔ ہر روز، ہر لمحہ ایک سے ایک بری خبر اور ادنیٰ واقعہ سامنے آتا ہے۔ جمہوریت والے انسانی حقوق کا راگ الاپ رہے ہیں۔
ہاں یاد آیا، ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ انتقام کس سے لینا ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ یہ خوبصورت فقرہ تو عوام کے متعلق تھا۔ جمہوریت کا انتقام تو عام آدمی سے لیا جارہا ہے۔ اندازہ فرمائیے کہ ہمارے اکابرین کتنے سفلی لوگ ہیں۔ ہم تو بارش کے پانی کو جدید طریقے سے گٹر اور نالے میں نہیں ڈال سکتے۔ کراچی، اندرون سندھ، پنجاب، کے پی اور بلوچستان کے بارشی پانی سے جو تباہی مچی ہے۔
دلیل ہے بلکہ ہمارے نظام کے خلاف فردجرم ہے کہ ہمارے لیڈر ہمیں بے وقوف بنا کر صرف ناجائز پیسہ بنا رہے ہیں۔ اس دور جدید میں ہمارے مسائل بنیادی نہیں بلکہ اس سے بھی ادنیٰ ہیں۔ بجلی کا نہ ہونا کس چیز کی غمازی کرتا ہے۔ ہر حکومت نعرہ لگاتی ہے کہ بجلی کا بحران ختم کر دیا۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے تو بحران کو مزید قوت دی ہے۔ آنے والی نسلوں پر مزید بوجھ ڈالا ہے۔ گردشی قرضہ کو بھی صرف اور صرف لوٹ مار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ قائد جمہوریت کے دور میں، آڈیٹر جنرل کو اجازت تک نہیں دی گئی کہ گردشی قرضوں کا آڈٹ کر پائے۔ سیکڑوں ارب روپیہ مل کر ہڑپ کر لیا گیا۔
ہاں یاد آیا۔ اس آڈیٹر جنرل کو جیل بھی بھیجا گیا۔ مجھے بھی درباری بن جانا چاہیے۔ سیاسی گروہوں میں سے ایک میں شامل ہو جاتا تو سکون سے زندگی گزار سکتا تھا۔ ان سے میل جول کیوں نہیں رکھتا۔ بہر حال اب تو ان کے سایہ سے بھی دور رہنے کو دل چاہتا ہے۔ الم ناک بات یہ ہے کہ مغرب کائنات میں کوئی راز چھپانے کو آمادہ نہیں۔ سائنس بھرپور طور پر آگے بڑھ رہی ہے۔ تحقیق ہر امر کو مسخر کر رہی ہے۔ اور ہم اس جدت کے قریب بھی نہیں ہیں۔ بھلا۔ مسلمانوں کا سائنسی دنیا سے کیا تعلق۔