Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Khalai Tehqeeq Se Hamara Kya Lena Dena

Khalai Tehqeeq Se Hamara Kya Lena Dena

تیس اوراکتیس مئی کی درمیانی رات، خلاکے حوالے سے ایک حددرجہ اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ اسی برس یعنی2020میں، خلائی سائنسدانوں کی اَن تھک محنت کی بدولت انسانوں کو خلا کو مسخرکرنے کانایاب موقعہ فراہم کیاگیا۔ یہ انہونا کام ناساسے منسلک ایک پرائیویٹ پروگرام کے تحت سرانجام دیاگیا۔

ایون مسک نام کے ایک امریکی نےSpace Xنام کی ایک کمپنی بنائی۔ چھ برس پہلے بننے والی اس کمپنی کے دوبنیادی مقاصد تھے۔ ایک توخلاکو مسخر کرنا اور دوسرا مقصدمریخ تک پہنچنا تھا۔ ناسانے دوکمپنیوں بوٹنگ اور Space Xکواس کام کے لیے منتخب کیا۔ پھربوٹنگ کمپنی کورَدکردیاگیا۔ یہ نکتہ بھی ذہن میں ہوناچاہیے کہ2011سے صرف روس کے پاس یہ صلاحیت تھی کہ اپنے راکٹSoyuzکے ذریعے انسانوں کو خلا میں بھیج سکے۔ مگرروس، نے شمولیت کے لیے ایک انسان کی فیس اَسی ملین ڈالرمقررکی ہوئی تھی جوہرلحاظ سے بہت مہنگی تھی۔

ردِعمل میں ناسا نے Commercial Crew Programme نام کا ایک جدیدترین منصوبہ شروع کیا۔ یہ نجی شعبہ میں شروع کیاگیاتھا۔ ادارہ کا خیال تھاکہ2017تک خلائی سفر کمرشل بنیادوں پر شروع ہوجائے گا۔ فنی مشکلات کی وجہ سے اس کام میں تاخیرہوتی چلی گئی۔ چندہفتے پہلے اس کمپنی کے راکٹ جسکانامFalcon 9تھا، دو خلابازوں کوخلامیں منتقل کیا۔ فلوریڈاکے فضائی اڈے سے نشست بھرنے والے اس راکٹ کے ساتھ Crew Dragonنام کا ایک خلائی کیپسول تھا۔ اس میں ناساسے منسلک دو ماہر ترین خلانورد، باب بینکن اورڈیاگ ہرلے موجود تھے۔

صرف بارہ منٹ میں اس تیزرفتارراکٹ نے دونوں انسانوں کوخلامیں پہنچا دیا۔ مسئلہ تھاکہ یہ دونوں دوتین دن سے مسلسل جاگ رہے تھے۔ لہذا فیصلہ کیاگیاکہ انکو سونے کاماحول مہیا کیا جائے تاکہ یہ بہترطورپر اسپیس اسٹیشن سے منسلک ہو جائیں۔ چند گھنٹوں کے آرام کے بعد، دونوں خلا بازوں کو اجازت دی گئی کہ اپنے جہاز کوخلائی اسٹیشن ISSسے جوڑ لیں۔ یہ تمام کام خود کار تھا۔ مگرخلابازوں کوتربیت دی گئی کہ اس خودکارنظام کو مینول طریقے سے بھی استعمال کرسکیں۔

یہ کیپسول بڑے آرام سے بیس اسٹیشنISSسے منسلک ہوگیا۔ دونوں خلاباز اسپیس اسٹیشن میں بڑی آسانی سے منتقل ہوگئے۔ اسٹیشن میں غیرمعینہ مدت تک رہیں گے۔ کچھ مدت کے بعد، یہ دونوں، اپنے کیپسول میں واپس جائینگے۔ جہاں سے واپسی کاسفرشروع ہوگا۔ Crew Dragonکومدارکی حدت سے بچانے کے لیے ایک حفاظتی شیلڈبنائی گئی ہے جو آگ سے بچاکررکھتی ہے۔ ساتھ چارپیراشوٹ بھی منسلک ہیں جواسے توازن کے ساتھ ایٹلانٹک سمندرپراُترنے میں مدددینگے۔

پانی پر گرنے کے بعدSpace X Recovery Boat کے ذریعے دونوں خلانوردوں کوحفاظت سے ساحل تک لایا جائے گا۔ Crew Dragonبھی محفوظ رہے گا اور اسے دوبارہ خلاتک جانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس وقت دونوں انسان، خلا میں I.S.S اسٹیشن میں موجودہیں۔

محققین کے نتائج نے ثابت کیاہے کہ خلابھی اتنی ہی اہم ہے جتنی زمین۔ سب سے پہلے توانسانی بیماریوں کے علاج کے لیے تجربات ہورہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نت نئی معدنیات بھی دریافت ہونے کے نزدیک ہیں۔ مریخ پراُترنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ ISSایک خلائی گھرکی حیثیت اختیارکررہا ہے۔ جہاں لوگ باقاعدگی سے آجاسکیں گے۔ اسپیس X، اپنے کیپسول کوچارہوابازوں کے ساتھ اگست میں خلامیں دوبارہ بھجوائے گی۔ یہی کمپنیStarshipنام کا ایک مہیب راکٹ بنارہی ہے جوچندعرصے بعد بڑے آرام کے ساتھ عام لوگوں کومریخ اور چاند پر لیجائے گا۔

یقین ہے کہ یہ ترقی یافتہ معاشروں میں ایک نئے سائنسی انقلاب کی بنیادبنے گا۔ ہمارے جیسے ترقی پذیرممالک اس نئی جہت کی طرف سوچنے تک سے قاصرہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں بھی مختلف سیاروں کے ذریعے موسم، ٹیلی میڈیسن پرکام ہورہاہے۔ مگرعملی طور پر ہم امریکا، روس اورچین سے اس شعبے میں حددرجہ پیچھے ہیں۔ پاک اسٹیٹ آئی آرکے نام سے ہماراایک سیارہ کامیابی سے خلامیں موجودہے۔ مگراس شعبے میں حددرجہ پسماندہ ہیں۔ ہم چین کے رحم وکرم پرہیں کہ وہ ہمیں اپنی فنی صلاحیت دے تاکہ اس کے تعاون سے کچھ ترقی کرسکیں۔ چین اس شعبے میں امریکی سطح پرنہیں آسکا۔

اسے چند دہائیوں کی مزیدضرورت ہے۔ ابھی تک ہم شعورکی اس پختگی کی طرف آئے ہی نہیں ہیں، جومغرب تحقیق کی دنیامیں حاصل کرچکاہے۔ اس کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں۔ ہم نے خلااوراس کے ساتھ منسلک اداروں کوقومی راز کی حیثیت دے رکھی ہے۔ یعنی یہ ہماری سیکیورٹی سے منسلک ہے۔ شایداگریہ معلومات کسی طالبعلم کے پاس پہنچ گئی توملک کی سیکیورٹی کامسئلہ بن جائے گا۔ جس خلائی سفرکاذکرکیا، وہNASAنہیں بلکہ نجی شعبہ کر رہا ہے۔ امریکا میں ایک دفعہ اس بات کاذکرنہیں ہواکہ خلائی سفرکسی قسم کاکوئی قومی رازہے یااسکاامریکی سیکیورٹی سے کوئی لینادیناہے۔ ہمارے ہاں اس سے بالکل متضاد سوچ ہے۔ ہم نہ صرف سائنس سے خائف ہیں، بلکہ خلائی تحقیق کی اہمیت سے بھی کافی دورہیں۔

دوسری بات یہ کہ اگرکوئی وزیراعظم یا سیاستدان، ہمارے نظام میں خلائی پروگرام کے لیے کام کرے تو اس کا اس کی ذات یاسیاسی جماعت کوکسی قسم کاکوئی مالی یاسیاسی فائدہ نہیں۔ اب ہوایہ ہے کہ نیم خواندہ وزرائے اعظم اوربنجر وزراء کی بدولت ہمارے پورے نظام میں کوئی بھی خلائی تحقیق پربات نہیں کرتا۔ آج تک کم ازکم میرے جیسے طالبعلم نے کسی بھی صدریاوزیراعظم کی اس موضوع پر کوئی گفتگونہیں سنی۔ سیاسی کریڈٹ نہ ہونے کی بدولت یہ شعبہ مکمل طور پر نظر انداز ہوچکا ہے۔

ہمارے ہاں سائنس اورٹیکنالوجی کی وزارت ایک "کھڈے لائن" وزارت ہے جس پرخواہش سے لگنے کے لیے کوئی سیاستدان تیارنہیں ہوتا۔ اگر پٹرولیم، یا داخلہ یا اطلاعات کے کسی وزیرکوکہیں کہ آپ سائنس کے وزیرلگ جائیں تووہ وزیراعظم کے پیرپکڑلے گا۔ کہ مجھے سائنس کا وزیر اس لیے بنایا جارہا ہے کہ شایداہم لوگ ناراض ہوچکے ہیں یامیں کام ٹھیک نہیں کررہا۔ مجموعی طورپرلوگوں میں یہی تاثرہے کہ سائنس کی وزارت اس ایم این اے کودی جاتی ہے، جس کو وزیر رکھنا بھی مقصود ہو اورساتھ ساتھ اس کی کسی قسم کی اہمیت نہ ہو۔ اس حکومتی رویے سے، پاکستان، کس سطح کی خلائی تحقیق میں شامل ہوسکتا ہے۔

جواب ڈھونڈنے پرکسی محنت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ذہنی پسماندگی کا شکارہیں اورشدید محنت سے آیندہ کئی صدیاں اسی طرح رہینگے۔ دراصل سائنس کے حوالے سے ہمارے رویے، "دولے شاہ کے چوہوں " جیسے ہیں۔ جنکی رال ٹپک رہی ہوتی ہے اور ایک آدمی انھیں زبردستی چلانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ شایدمثال نازیبالگے۔ طالبعلم کے ذہن میں اس سے مثبت یامنفی مثال بالکل نہیں آرہی۔ مزید چھبتے ہوئے فقرے بھی ہیں۔ مگر لکھے نہیں جاسکتے۔ قصہ کوتاہ یہ کہ ہم اپنی موجودہ جہالت پرخوش اور شاد ہیں۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ مغرب اس میدان میں کتناآگے نکل چکاہے۔

خلائی تحقیق تودورکی بات۔ ہم توعیدکے چاند دیکھنے کے لیے بھی سائنس کاسہارالینے کے لیے، ذہنی طور پر مطمئن نہیں۔ موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا وزیر، بالکل درست کہتاہے کہ چاند دیکھنے کے لیے اب سائنسی لیبارٹریاں موجود ہیں، جو اگلے کئی صدیوں کا کیلنڈر بناچکی ہیں۔ وثوق سے بتایاجاسکتاہے کہ اگلے سو سال کی عیدیں کب ہونگی۔ مگراس معمولی ترین مسئلہ پربھی دو رائے موجودہیں۔ جوقوم اتنی بے رحم ہے کہ تہواروں کی تاریخوں پربھی سائنس سے رجوع کرنے کے لیے تیارنہیں۔ اس پر صرف ترس کھایا جاسکتا ہے۔

ہمارے ذہنوں کواتنا اُلجھا دیا گیاہے کہ کئی معاملات پرسوچتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں کوئی مخصوص طبقہ ناراض نہ ہوجائے۔ ہماری سوچ اس قدرادنیٰ ہے کہ اس کے متعلق کم ازکم میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جوخلائی کارنامہ ابھی امریکی کمپنی نے سرانجام دیا ہے، بھلاہمارے جیسے مقدس ملک کااس سے کیا تعلق! یہ توکافروں کے چلن ہیں۔ یہودوہنودکی باہمی سازشیں ہیں۔ ہم توانکے سخت خلاف ہیں۔ قیامت ہے، ہمارا ایک طبقہ کھل کر کہتا ہے کہ زمین ساکت ہے اورانسان چاندپربھی نہیں پہنچا؟ اس سے آگے میں کچھ بھی لکھنا نہیں چاہتا۔ آگے صرف اورصرف مرثیہ اورنوحہ ہے۔