1860میں قائم ہونے والاکنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کتنی عظیم درسگاہ تھی۔ آج کے مصنوعی دور میں اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ شروع میں اس کا نام لاہور میڈیکل کالج تھا۔ انارکلی میں موجود ایک عوامی ڈسپنسری کو اس کے ساتھ منسلک کیا گیا تھا۔
1871میں میواسپتال باقاعدہ، میڈیکل کالج کے ساتھ منسلک ہوا تھا۔ 1883میں تعلیمی بلاک کی تعمیر شروع کی گئی۔ 1911 میں نام تبدیل کر کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج رکھ دیا گیا۔ اس وقت پورے برصغیر میں صرف اور صرف پانچ میڈیکل کالج تھے۔ کلکتہ، مدراس، ممبئی، چنائی اور آگرہ میں یہ تمام درسگاہیں معیاری کامیابی کے ساتھ کام کر رہی تھیں۔
1978 میں خاکسار کو اس محیر العقول درسگاہ میں داخلہ ملا۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال کی حد درجہ سخت کوش زندگی کے بعد آزادی کی ٹھنڈی لہر کا جھونکا سا محسوس ہوا۔ پر تھوڑی دیر میں معلوم ہوا کہ یہاں تو انتہائی کٹھن ذہنی، فکری اور تعلیمی تربیت ہے۔ اناٹومی اور فزیالوجی ابتدائی مضامین تھے۔ اناٹومی کی کتاب، Grey`s Anatonyمیں ان گنت یونانی زبان کے الفاظ موجود تھے۔ جو شروع میں دماغ کے بالائی خانے سے بہت اوپر گزر جاتے تھے۔
اس مضمون کی پروفیسر میڈم تقیہ عابدی تھیں۔ ہمیشہ ساڑھی میں ملبوس انتہائی سخت مزاج خاتون۔ ان کا خوف بلکہ جاہ و جلال اتنا زیادہ تھا، کہ ا گر وہ نزدیک سے بھی گزر جائیں تو کلیجہ منہ کو آ جاتا تھا۔ خاموشی چھا جاتی تھی۔ ان کی آواز میں ایک خاص طرح کی گونج تھی۔ عرض کرتا چلوں کہ اناٹومی، انسانی جسم اور ہڈیوں کو جاننے کا علم ہے۔ کون سا muscle کس جگہ سے گزر کر کس ہڈی میں پیوست ہوتا ہے۔
کون سی شریان کس پیچیدہ راستہ پرسفر کرتی ہے۔ انسانی ہڈیوں کی جزئیات کیا ہوتی ہیں۔ اور اس کے علاوہ انسانی اعضا کیا ہیں۔ یہ اور اس کے علاوہ بہت کچھ اس خشک مضمون میں شامل تھا۔ اس مضمون کو سختی کے بغیرپڑھانا ناممکن ہے۔ خاکسار اور عامر چوہدری روم میٹ تھے۔
نیو ہاسٹل میں ایک مختصر سے کمرے کے مکین تھے۔ عامر اور میرا تعلق لائل پور سے ہی تھا۔ عامر، رات کو سونے سے پہلے قرآن پاک کی چند آیات پڑھتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس طرح تعلیمی مشکلات شاید کم ہو جائیں۔ اناٹومی ایک کمر توڑ مضمون تھا جس کے اثرات کا ہر خاص و عام کو بتانا ناممکن ہے۔
حیرانگی کی بات تھی کہ چند طالب علم، اس مضمون میں حد درجہ مشاق تھے۔ جیسے احمد رضا، عامر علی شاہ اور امبرین رؤف۔ فاروق علوی تقریباً ہمارے ہی طبقے سے تعلق رکھتاتھا۔ جنھیں اناٹومی کے علاوہ بھی ہر مضمون کافی مشکل نظر آتا تھا۔ خیر میڈم تقیہ جیسی زبردست استاد آج جیسے عامیانہ دور میں ایک قدرتی تحفہ سے کم نہیں تھیں۔ جتنا عبور انھیں اس مضمون پر تھا، سوچ کر ہی حیرت ہوتی ہے۔
کمال تو یہ بھی تھا کہ انسانی جسم کی بے پناہ پیچیدگیوں پر جتنا عبور میڈم تقیہ کا تھا۔ اس کو دیکھ کر انسان ششدر رہ جاتا تھا۔ دراصل اپنے مضمون میں استادوں کی استاد تھیں۔ حد درجہ باوقار خاتون۔ اکثر اوقات دن کا پہلا پریڈ انھیں کا ہوتا تھا، یہ صبح آٹھ یا ساڑھے سات بجے شروع ہوتا تھا۔
ان کے پیریڈ میں تمام طلباء اور طالبات کو بظاہر حددرجہ مستعد نظر آنا ہوتا تھا۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ پچھلے بینچوں پر چند خلیفے، آنکھیں کھول کر، خراٹوں کے بغیر سونے کی بھرپور پریکٹس کر چکے تھے۔ ان کا نام لکھنا عبث ہے کیونکہ ان میں سے متعدد افراد اب عملی زندگی میں کامیاب ترین ڈاکٹر ہیں۔
لیکچر کے دوران میڈیم تقیہ کی نظر عقاب کی طرح ہر طالب علم کا احاطہ کرتی تھی۔ امتحان کے دوران میڈم تقیہ کا انداز حد درجہ مختلف تھا۔ جتنا وہ لیکچرز کے دوران سخت نظر آتی تھیں اس کے بالکل برعکس امتحان لیتے وقت حد درجہ مشفق ہو جاتی تھیں۔ انھیں طلبا اور طالبات کی مشکلات کا بخوبی اندازہ تھا۔ اگر کوئی اسٹوڈنٹ پوری تیاری نہیں کر سکا تھا۔
پھر بھی، میڈم اس کو امتحان میں پاس کرنے کے لیے معاونت ضرور فرماتی تھیں۔ اس طرح کی استاد کا مزید کیا ذکر کروں۔ یہ خاص لوگ تھے۔ خدا کے بنائے ہوئے انتہائی بیش قیمت افراد۔ لہٰذا ان کی تعریف کرنے کے لیے بھی لفظو ںکا چناؤ بے بس نظر آتاہے۔ میڈیم اب خدا کے حضور پیش ہو چکی ہیں۔ اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
دوسرا مضمون Psysiology تھا۔ جس کی پروفیسر کا نام میڈم نصرت وقار تھا۔ حد درجہ شفیق خاتون۔ اپنے مضمون کی ماہر ترین استاد۔ پڑھانے کا انداز حد درجہ علمی تھا۔ انسانی جسم میں ہر عضو کی عملی کارکردگی بتانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مجھے Psysiology دلچسپ مضمون محسوس ہوتا تھا۔ میڈم نصرت وقار اپنے نام کی طرح پروقار تھیں۔ نرم خو ضرور تھیں۔ مگر اپنے طلباء پر حد درجہ علمی سختی کرتی تھیں۔
ویسے یہ عجیب لوگ تھے۔ اگر لیکچر کے دوران آپ کو کوئی بات سمجھ نہیں آئی، تو آپ ان کے پاس جا کر وہ نکتہ بخوبی سمجھ سکتے تھے۔ کسی بھی استاد کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں آتی تھی کہ یہ طالب علم لیکچر کے بعد میرے پاس کیوں آیا ہے۔ میرا وقت کیوں ضایع کر رہا ہے۔ صاحبان!عجیب نایاب لوگ تھے۔ اپنی وضع قطع کے آخری افراد۔ شاید قدرت کے کارخانے میں اس سانچہ کا استعمال ہی بند ہو گیا ہے۔ کچھ ماہ قبل میڈم اس دنیا سے کوچ کر گئیں۔
ایک ڈیڑھ برس پہلے، طلباء کے ساتھ ان کی ایک تصویر نظر سے گزری۔ دیکھ کر آنکھیں نم ہو گئیں۔ کہاں سے لائیں، یہ قیمتی موتیوں جیسے اساتذہ۔ فرسٹ پروفیشنل کے بعد اب فارماکولوجی اور Forensic Medicine پڑھنے تھے۔
فارماکالوجی، میڈم بلقیس جمال پڑھاتی تھیں۔ فرنزک کے استاد ڈاکٹر نصیب اعوان تھے۔ میڈم بلقیس بڑے ٹھسے دار خاتون تھیں۔ ساڑھی میں ملبوس، قد آور عورت۔ آواز حد درجہ پاٹ دار تھی۔ رعب اور دبدبہ سے مزین، اس شخصیت کی اپنی بھرپور جگہ تھی۔ فارما ایک خشک مضمون تھا۔ اس میں دوائیوں کے نام، اثرات اور ان کی بنیاد تک تحقیق موجود تھی۔ ویسے میڈیکل کالج میں جس کو فارما اچھی طرح یاد ہو گئی، اس کے اچھے ڈاکٹر بننے کے امکانات کافی بہتر ہو جاتے ہیں۔ میڈم بلقیس حد درجہ محنت کر کے پڑھاتی تھیں۔
ان کے شوہر نشتر میڈیکل کالج کے پرنسپل تھے۔ میڈم، گرلز ہاسٹل کی وارڈن بھی تھیں۔ ڈسپلن کی حد درجہ پابند اور اپنے احکامات کو منوانے والی انسان۔ ویسے لڑکیوں کے ہاسٹل میں اسی طرز کی وارڈن ہونی چاہیے۔ کیونکہ والدین خدا کے بعد، وارڈن اور ادارے کو اپنی بچیاں سونپ کر جاتے ہیں۔ میڈم جتنی اعلیٰ درجہ کی استاد تھیں، اسی اعلیٰ درجہ کی منتظم بھی تھیں۔
آج تک یاد ہے کہ ان کے سامنے کوئی چوں تک نہیں کر سکتا تھا۔ ایک عرض کرتا چلوں، حددرجہ سخت گیر نظر آنے والے اساتذہ اندر سے ریشم کی طرح نرم تھے۔ ان کی ایک ہی لگن تھی، کہ ان کے اسٹوڈنٹ دنیا کے بہترین ڈاکٹر بنیں۔ اور یہ اعزاز ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ ان کے لگائے ہوئے پودے، پاکستان تو کیا، امریکا، کینیڈا، بلکہ دنیا کے ہر ملک میں پاکستان کی عظیم پہچان ہیں۔ جو احسان میڈم بلقیس جمال، میڈم تقیہ اور ان جیسے فرشتوں نے قوم کے بچوں اور بچیوں پر کیا ہے، وہ بذات خود ناقابل فراموش عمل اور قابل ستائش ہے۔
فرنزک میڈسن بنیادی طور پر انسان کے مردہ جسم پر مبنی ہے۔ کسی شخص کی موت کیسے ہوئی، کس وقت ہوئی، کیا اسباب کار گر تھے، اگر زخم ہیں تو ان کی نوعیت کیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ سائنس کی وہ شاخ ہے جو مردہ جسم سے وابستہ ہے۔
اس کے پڑھانے والے پروفیسر نصیب اعوان تھے۔ یہ عرض کرنا کہ وہ اپنے مضمون کے ماہر ترین شخص تھے۔ ادنیٰ پن ہو گا۔ دراصل پورے ملک میں نصیب اعوان کے پائے کا فرنزک ایکسپرٹ کوئی بھی نہیں تھا۔ ان کا کہا ہوا ہر لفظ قانونی طور پر حرف آخر ہوتا تھا۔ ان کے بالوں میں ایک خاص چمک تھی۔ اور آواز میں ایک تحکمانہ پن تھا۔ ان کا ایک کمال یہ بھی تھا کہ کے ای میں جدید فرنزک ڈیپارٹمنٹ صرف اور صرف انھوں نے قائم کیا تھا۔
اس عمارت میں لیب، ایکس رے، پوسٹ مارٹم رومز اور ہر طرح کی تحقیقی سہولتیں موجود تھیں۔ 1980میں اس طرح کی جدید فرنزک لیب اور شعبہ پورے پاکستان میں کہیں بھی موجود نہیں تھا۔ سخت گیر انسان تھے اور اپنے مضمون پر حاوی تھے۔ ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ پوسٹ مارٹم کے لیے انسانی جسم کو سرجن کی طرح کھولنا پڑتا ہے۔ جیسے ہی انسانی جسم کھلتا ہے۔
اتنی ناگوار بدبو آتی ہے، کہ کئی طلبا تو بے ہوش ہو جاتے تھے۔ یہ قدرت کا کمال ہے کہ اس نے انسان کی اندرونی بدبو کو قدرتی طور پر جسم میں چھپا دیا ہے۔ یہ خدا کا وہ عظیم احسان ہے جس کا شکر ادا کرنا از حد ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی بھی انسان، دوسرے انسان کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتا تھا۔
بہرحال میڈیم تقیہ، میڈم نصرت وقار، ڈاکٹر بلقیس اور نصیب اعوان جیسے اساتذہ حددرجہ قابل عزت تو ہیں ہی، مگر قابل تقلید بھی ہیں۔ میرے خیال میں تو یہ تجربہ کار بڑھئی تھے جو نوجوان طلباء اور طالبات کو تراش خراش کر کے حد درجہ مستند ڈاکٹر بنا دیتے تھے۔ اب اس کے آگے کیا لکھوں، بلکہ کیونکر لکھوں۔
(جاری ہے)