1978 میں جب اس عظیم درسگاہ میں آنا ہوا تو پٹیالہ بلاک دیکھ کر آنکھیں دنگ رہ گئیں۔ کیسی شاندار عمارت۔ لاہور کی تمام قدیم عمارتوں میں خوبصورتی اور شان کا ایک نشان۔ بہت کم لوگوں کو یاد ہو گا کہ اس وقت کے ای کے پرنسپل ڈاکٹر سیال صاحب تھے۔
ہمارے ملک میں اگر کسی نے شعبہ ِگائنی میں بین الاقوامی حیثیت حاصل کی، وہ صرف ایک ہی شخصیت تھی اور وہ تھے ڈاکٹر سیال صاحب۔ ایران کے بادشاہ، شاہ پہلوی کی اہلیہ کے گھر جتنی بھی اولاد ہوئی، اس میں سیال صاحب کو خصوصاً لاہور سے بلوایا جاتا تھا۔ ملکہ کے ذاتی ڈاکٹر تھے۔
آج کوئی بتا دے کہ ملک کا کوئی مایہ ناز ڈاکٹر اتنی بلند سطح پر نام اور ملک کے لیے عزت کما سکا ہو۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ سیال صاحب اور اس وقت کے اکثر پروفیسر، کوٹ پینٹ کے ساتھ ٹائی نہیں بلکہ نکٹائی استعمال کرتے تھے۔ پرنسپل صاحب بھی "بوو" لگاتے تھے۔
گزرتے ہوئے کئی بار دیکھا۔ حد درجہ باوقار انسان اور قابل معالج۔ پرنسپل سے فرسٹ ایئر کے طالب علم کا کیا لینا دینا ہو گا۔ ہم لوگ تو ویسے ہی پرنسپل کی پرچھائیں سے بھی گھبراتے تھے۔ آپ کو شاید اندازہ نہیں کہ آج سے چالیس پچاس سال پہلے استاد کا کیا رتبہ ہوتا تھا۔
سبحان اللہ۔ یقین فرمایے کہ استاد کو آتا دیکھ کر طلبا اور طالبات ساکت کھڑے ہو جاتے تھے۔ نظریں نیچی رہتی تھیں۔ آپس میں کوئی بات چیت بھی نہیں ہوتی تھی۔ مکمل خاموشی چھا جاتی تھی۔ جب استاد آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے تھے اس وقت تک تقریباً یہی حال رہتا تھا۔ بہرحال سیال صاحب کا نام ہی معلوم تھا۔ اس لیے کہ میڈیکل کالج کے پہلے تین سال پرنسپل سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا تھا۔
پیتھالوجی کے پروفیسر عزیزصاحب تھے۔ سادہ طبیعت کے انسان۔ 1980 کی بات کر رہا ہوں۔ پڑھانے میں کافی سختی کرتے تھے اور امتحان لینے میں قدرے نرمی برتتے تھے۔ من موجی انسان تھے۔ طبیعت خوش ہو تو سارے پاس ہو جاتے تھے اور اگر ذرا غصے میں ہوں تو امتحان دینے والا فیل۔ مگر نرم خو انسان تھے۔ انھیں اندازہ تھا کہ پیتھالوجی حددرجہ مشکل مضمون ہے، لہٰذا وہ اور سارا اسٹاف حددرجہ محنت کرتا تھا۔
ویسے ماضی میں طلباء بھی کچھ اور تھے اور اساتذہ بھی کچھ اور ہی مٹی کے بنے ہوئے تھے۔ ذاتی مفاد سے بالاتر لوگ۔ اب تو دونوں طرف محنت نظر نہیں آتی۔ آج کل، ایک نجی ادارے کے لیے نوکری میں آنے والوں کے انٹرویو کر رہا ہوں۔ ہر روز اٹھائیس لوگ آتے ہیں۔ یہ تمام لوگ تربیت یافتہ ہوتے ہیں مگر وہ "جوہر خاص" نظر نہیں آتا کہ کہہ سکوں کہ اس امیدوار کے بغیر دفتر ادھورا رہے گا۔
معلوم نہیں کہ معیار تعلیم پر ماتم کیا جائے یا تربیت پر یا شاید دونوں پر۔ بہرحال اب انٹرویو کرتے ہوئے دکھ ہوتا ہے۔ بات میڈیکل کالج کی ہو رہی تھی۔ تھرڈ ایئر میں اصول تھا کہ شام کو وارڈ میں جانا شروع کروا دیا جاتا تھا۔ یعنی تعلیم کے ساتھ ساتھ اب فنی تربیت بھی شروع ہوجاتی تھی۔
میو اسپتال بذات خود ایک جہانِ حیرت تھا۔ اتنا بڑا اسپتال اور اتنے زیادہ شعبے۔ برصغیر کے ابتدائی اسپتالوں میں نام درج تھا۔ وسیع وعریض عمارت اور ہر طرح کے مریضوں کا آنا جانا۔ اس وقت یعنی 1981 میں میو اسپتال کی ایمرجنسی کی نئی عمارت بن رہی تھی۔ پرانی ایمرجنسی اسپتال کی مین بلڈنگ کے باہر تھی۔ حجم میں بھی زیادہ بڑی نہیں تھی۔ یاد آتا ہے کہ ایمرجنسی وارڈ میں تیس چالیس بیڈ تھے یا شاید اس سے بھی کم۔ مگر ڈاکٹر اور نرسیں اس درجہ مستعد ہوتی تھیں کہ مریضوں کا رش ہونے ہی نہیں دیا جاتا تھا۔ تمام علاج بالکل مفت ہوتا تھا۔
ابتدائی علاج اگر درست ہو تو بیماری سے نبردآزما ہونا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ ہاں ایک اور بات۔ انجکشن اور ڈرپ لگانے کی تربیت بھی یہیں سے شروع ہوتی تھی۔ آغاز میں دونوں کام بڑے مشکل معلوم ہوتے تھے مگر ایک ڈیڑھ ہفتہ کی تربیت سے ہاتھ صاف ہو جاتا تھا۔ وہاں کے ڈاکٹر صرف ایک چیز بار بار بتاتے تھے کہ مریض کو انجکشن لگاتے وقت کم سے کم تکلیف ہونی چاہیے اور ایسے ہی ہوتا تھا۔
پہلی بار ایک مریض کو ایمرجنسی وارڈ میں انجکشن لگانے لگا تو میری ہچکچاہٹ دیکھ کر کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب! آپ کسی اور کو انجکشن لگا دیں، مجھ پر پریکٹس نہ کریں۔ مجھے ہنسی آ گئی۔ مریض نے بھی قہقہے لگانے شروع کر دیے۔ بہرحال ایمرجنسی وارڈ بذات خود ایک جہان حیرت تھا۔
چوتھے اور پانچویں سال میں متعدد نئے مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ جن میں آنکھ، ای این ٹی، سرجری، میڈیسن، گائنی شامل تھے۔ ای این ٹی کے پروفیسر ڈاکٹر لون تھے۔ اپنے مضمون کے ماہر ترین انسان۔ سرخ وسفید رنگ اور گرجتی ہوئی آواز۔ بہت دبدبے والے آدمی تھے۔ امتحان میں بھی سختی کرتے تھے۔ عزت دار اور باوصف معالج تھے۔ ای این ٹی میں ان کا طوطی بولتا تھا۔ ان کی مہارت کی مثال دی جاتی تھی۔
ویسے مجھے سی ایس ایس کروانے میں ان کا بالواسطہ کافی ہاتھ ہے۔ قصہ یہ کہ ایک دن کلاس میں پڑھانے کے لیے آئے تو کچھ رنجیدہ سے تھے۔ فرمانے لگے کہ گزشتہ شب، گورنر ہاؤس لاہور میں ایک ڈنر تھا۔ اس میں شہر کے تمام معززین بلائے گئے تھے مگر انھیں مدعو نہیں کیا گیا۔ کہنے لگے کہ ہمارے ملک میں پروفیشنل ڈاکٹر اس عزت کے حق دار نہیں جو درجہ بیورو کریٹس کو حاصل ہے۔
انھوں نے مشورہ دیا کہ اگر آج بھی پاکستان میں کوئی باعزت رہنا چاہتا ہے تو اسے سول سروس میں ہونا چاہیے۔ لون صاحب کا یہ فقرہ مجھے کھا گیا۔ میرے ذہن میں اپنے والد محترم کو دیکھ کر یہ سوال اٹھتا تھا کہ وہ لاہور میں سیشن جج ہیں اور بہت باعزت نوکری کر رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں، میں نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے، ملک کے بہترین میڈیکل کالج میں پڑھتا ہوں مگر سماجی سطح پر کسی توجہ کا حق دار نہیں ہوں۔ یہ سوال اکثر میرے دماغ میں رہتا تھا۔ چنانچہ فورتھ ایئر میں پرائیویٹ طور پر بی اے کر لیا اور اس کے فوراً بعد سی ایس ایس میں کامیاب ہو گیا۔
لون صاحب درست بات کر رہے تھے، ہمارے ملک میں بدقسمتی سے عزت صرف اس کی ہوتی ہے جو کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ پورا معاشرہ منفی اقدار پر کھڑا ہوا ہے۔ اس میں تھانیدار کی عزت لیکچرر سے بہت زیادہ ہے۔ یہ رویہ آج بھی قائم دیکھتا ہوں۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہم کسی طو رپر بھی معاشرے میں تعلیم یافتہ شخص کو مکمل طور پر باعزت نہیں بنا سکے۔ مڑ کر دیکھتا ہوں تو ایک اچھا ڈاکٹر جتنی کامیاب زندگی گزار سکتا ہے، اتنی ایک سرکاری افسر بسر نہیں کر سکتا۔ ہمیں تو ہر وقت وزیراعلیٰ سے لے کر چیف سیکریٹری اور اپنے باس کو ہر طور پر خوش رکھنا ہوتا ہے۔
اتنے متفرق فریقین کو ایک وقت میں خوش رکھنے کا گر جسے آ جائے، اس کے لیے ترقی کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔ ہاں، ایک بات عرض کرتا چلوں، افسروں میں اب باقاعدہ سیاسی گروہ بن چکے ہیں۔ کچھ کے لیے (ن) لیگ میں عافیت ہے، کچھ اب پیپلزپارٹی کے خوشہ چین ہیں، عمران خان وہ واحد وزیراعظم رہے ہیں جن کا افسروں میں کوئی گروہ نہیں بنا۔ بلکہ بلندترین سطح پر ان کے لیے کوئی نرم گوشہ بھی نہیں ہے۔ خان صاحب کی ناکامی میں افسروں سے ناروا رویے کا بہت حد تک ہاتھ ہے۔ پنجاب کی بیورو کریسی میں آج اور ماضی میں بھی، (ن) لیگ کا عنصر کافی حد تک سرایت کر چکا ہے۔
آنکھ (آئی) کو پروفیسر منیر صاحب پڑھاتے تھے۔ حددرجہ مذہبی انسان تھے۔ اپنے کام میں ماہر ترین سرجن۔ کمال کے استاد تھے۔ سرجری کے اساتذہ کی طرف دیکھتا ہوں تو پروفیسر گردیزی، پروفیسر رشید، پروفیسر وحید اوراسی طرح کے بلند ترین سرجن نظر آتے ہیں۔ یہ تمام صرف نام ہی نہیں بلکہ یہ لوگ بذات خود ادارے تھے۔ سرجری جیسے مشکل مضمون کو پڑھانااور پھر طلباء کو سرجری سکھانا، کوئی آسان کام نہیں تھا۔
یہ کام ان مشاق لوگوں نے حددرجہ عمدگی سے نبھایا۔ ایک سرجن کا نام اب یاد آیا ہے، سید ظفر حیدر۔ بلا کے سرجن تھے اور غیرمعمولی طور پر لائق انسان۔ باہر سے مشکل نظر آتے تھے مگر اندر سے حددرجے نفیس انسان تھے۔ ظفر حیدر صاحب، نشتر اسپتال سے میو اسپتال آئے تھے۔ ملتان میں اتنے مشہور تھے کہ کئی مریض سرجری کروانے کے بعد ان سے تعویذ لینے کی استدعا بھی کرتے تھے۔ شاہ جی کمال کے انسان تھے۔ اسی طرح پروفیسر رشید بہت خشک طبیعت کے درویش تھے۔
قراقلی پہنتے تھے مگر لباس، مغربی سوٹ ہی ہوتا تھا۔ ڈسپلن کے حددرجہ پابند۔ کسی نے کبھی انھیں ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اپنے دور کے اعلیٰ ترین سرجن مانے جاتے تھے۔ ان کا رعب بہت زیادہ تھا۔ آپ حیران ہوں گے کہ رشید صاحب صبح بھی وارڈ میں مریضوں کو دیکھتے تھے اور شام کو دوبارہ تشریف لاتے تھے۔ عام مریضوں کے لیے اتنی محنت بہت کم نظر آتی تھی۔ سرجن گردیزی انگریز ٹائپ انسان تھے۔
بہترین کپڑے، خوبصورت انسان اور مستند سرجن۔ صاحبان، جن لوگوں کا ذکر کر رہا ہوں یہ اپنے اپنے شعبوں میں روشنی کے وہ مینار تھے جن سے ہزاروں نہیں لاکھوں ڈاکٹروں اور مریضوں نے استفادہ کیا ہے۔ اب دور دور تک اس اعلیٰ سطح کے بلند پایہ لوگ نظر نہیں آتے۔ سچ پوچھیے تو اتنی گرد ہے کہ کچھ بھی نظر نہیں آتا!
(جاری ہے)