Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. KL Saigal

KL Saigal

موسیقی، شاعری، رقص اور فنون لطیفہ خطوں کو جوڑتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ مختلف ملکوں کے عوام کو بھی ایک دوسرے سے منسلک کر دیتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ ایک اور بات، فنون لطیفہ، وقت کی قید سے آزاد ہوتے ہیں جو اچھی چیز لوگوں کے سامنے آ جائے وہ امر ہو جاتی ہے۔

اگر اٹلی میں Vaticanتشریف لے جائیں، تو آپ کو Michelanglo جیسے عظیم آرٹسٹوں کی پینٹنگز اور مجسمے نظر آئیں گے۔ یہ سب کچھ آٹھ سو برس پرانا ہے۔ مگر آج بھی پورا برس ان شاہ پاروں کو دیکھنے کے لیے لوگوں کا تانتا بندھا ہوتا ہے۔

پہلی بار جب Vatican میں اس فنکار کا عظیم کام دیکھنے کا موقع ملا تو ایسے لگتا تھا کہ مجسمہ ابھی زندہ ہو کر آپ سے گفتگو شروع کر دے گا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ عظیم فنکار ایک آزاد فضا میں پنپتے ہیں۔

شدت پسندی سب سے پہلے جمالیاتی حس کو برباد کرتی ہے۔ پھر ہمارے جیسے ملک میں جہاں ہر شخص مکمل طور پر confused ہے، اس میں بڑے فنکاروں کا آگے آنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔

برصغیر کی طرف آتا ہوں۔ تقسیم ہند سے پہلے کے گائیکوں میں بڑے غلام علی خان، کندن لال سہگل، اور بیگم اختر فیض آبادی جیسے فقید المثال لوگ موجود تھے۔

بڑے غلام علی خان تو پاکستان آ گئے تھے۔ مگر یہاں ان کے ساتھ حد درجہ بے رخی کا وطیرہ اپنایا گیا۔ انھیں لاہور چھوڑکر نارووال میں ایک زمیندار کے پاس نوکری کرنی پڑی۔ واپس ہندوستان گئے۔ تو انھیں فی الفور شہریت دے دی گئی۔ اور ساتھ ہی مالابار ہلز جو ایک قیمتی ترین علاقہ تھا۔ اس میں گھر الاٹ کر دیا گیا۔

بیمار ہوئے تو انھیں آگرہ میں پنک پیلس میں ٹھہرا دیا گیا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم لوگ مختلف تعصبات کی بدولت، آرٹ کی ہرگز ہرگز قدر نہیں کرتے۔ بلکہ اگر گہری نظر سے پرکھا جائے تو شاید ہم فنون لطیفہ سے نفرت کرتے ہیں۔

ان شعبہ ہائے سے منسلک لوگوں کو جو القاب دیے جاتے ہیں۔ وہ طالب علم ضبط تحریر نہیں لا سکتا۔ ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت باہر سے مذہبی پیروکار نظر آتی ہے۔ مگر اندر سے یعنی جبلتی طورہر رنگینی سے ہذ اٹھانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ بہر حال اس منافقت اور دو عملی پر کتابیں نہیں بلکہ دیوان لکھے جا سکتے ہیں۔

میں تو صرف پرانے بلکہ ماضی قریب کی ایک ایسی آواز اور گلوکار کو آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں جس نے برصغیر کی موسیقی کی کایا پلٹ دی۔ دہائیوں تک بڑے سے بڑے گلوکار بھی اس کی آواز کو مستعار لے کر گاتے تھے۔ یہ شخص کندن لال سہگل تھا۔

1904میں جموں میں پیدا ہوا۔ والد پیشے کے لحاظ سے تحصیلدار تھے اور انھیں موسیقی سے کوئی رغبت نہیں تھی۔ والدہ کیسر بائی سہگل حد درجہ مذہبی تھیں۔ کندن کو مختلف مذہبی اجتماعات میں لے جاتی تھیں۔ جہاں بھجن، کرتان، شاہ باد وغیرہ گائے جاتے تھے۔

کندن کی اصل تربیت انھیں مذہبی اجتماعات میں ہوئی۔ سہگل کا تعلیم میں دل نہیں لگتا تھا۔ اسکول ہی سے مفر اختیار کر لیا۔ پہلے ایک ریلوے کمپنی میں"ٹائم کیپر" کی ملازمت اختیار کر لی۔ بعدازاں، Remington Typewriter Company میں کام شروع کر دیا۔ کمپنی میں وسیع سفر کرنا پڑتا تھا۔ چنانچہ کندن اکثر لاہور آتا تھا۔

وہاں اس کی دوستی مہر چند جین سے ہوگئی۔ مہر چند نے کندن کو گانے کی ترغیب دی۔ بتایا کہ اس کی آواز نایاب ہے اور اسے خدا کے اس تحفہ کو ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ دونوں دوست کلکتہ آ گئے۔ ممبئی سے پہلے کلکتہ، فلم سازی اور موسیقی کا مرکز تھا۔

حسن اتفاق سے کندن کی ملاقات آر سی بورل سے ہوئی۔ بورل نے جب کندن کے گانے سنے تو وہ ششدر رہ گیا۔ اس نے فوری طور پر کندن کو نیوتھیٹر میں دو سو ماہوار پر نوکری دلوا دی۔ اسی اثناء میں انڈین گراموفون کمپنی نے کندن لال سہگل کے پنجابی گانوں کے البم ریلیز کر دیے۔ یہ تمام نغمے ہر چندر بالی کے ترتیب شدہ تھے۔

اس کے بعد کندن کے اوپر شہرت اور دولت کی دیوی مہربان ہوگئی۔ فلموں کی لائن لگ گئی۔ پہلی فلم "محبت کے آنسو" تھی۔ پھر "صبح کا ستارہ""زندہ لاش" اور "یہودی کی لڑکی" سرفہرست تھی۔ 1933میں سہگل نے "پورن بھگت" فلم کے لیے بھجن گائے، جنھوں نے پورے ہندوستان میں شہرت کے ریکارڈ قائم کر دیے۔

لتا مینگیشکر نے ایک بار کہا تھا کہ سہگل کی فلم "چندی داس" دیکھنے کے بعد فیصلہ کیا تھا کہ وہ سہگل سے بیاہ کرے گی۔ سہگل نے بنگالی فلموں کے لیے گانے ریکارڈ کروائے۔ سات بنگالی فلمیں تھیں اور وہ تمام کی تمام حد درجہ کامیاب ہوگئیں۔

یہاں ایک اہم بات اور بھی ہے۔ سہگل، بنگالی نہیں تھا۔ اس وقت کے عظیم فلسفی اور دانشور رابندر ناتھ ٹیگور نے کندن کی آواز سنی تو اسے حد درجہ سراہنے کے بعد کہا کہ وہ غیر بنگالی ہونے کے باوجود، بنگلہ فلموں میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

1941میں سہگل، ممبئی منتقل ہوگیا۔ وہاں اس نے متعدد فلموں میں کام کیا اور ان کے گانے بھی گائے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ فلم کے ہیرو کو اداکاری کے ساتھ ساتھ صداکاری کے جوہر بھی دکھانے پڑتے تھے۔ "بھگتا سرداس" تان سین اس زمانے کی فلمیں ہیں۔ تان سین فلم کا ایک نغمہ"دیا جلاؤ" ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔

آج بھی سننے بیٹھے تو خوبصورت آواز کی بدولت انسان وجد میں چلا جاتا ہے۔ مگر کندن کی زندگی میں ایک مسئلہ تھا۔ مے نوشی۔ بلکہ مسلسل مے نوشی نے اس کی صحت کو گھن لگا دیا۔

1947 میں وہ جالندھر آ گیا اور ٹھیک بتالیس برس کی عمر میں جہاں فانی سے کوچ کر گیا۔ مگر مرنے سے تھوڑاسا عرصہ پہلے اس نے دو عظیم موسیقاروں کے ساتھ کمال گانے گائے۔ نوشاد اور خواجہ خورشید انور دونوں لافانی موسیقار تھے۔ جنھوں نے کندن لال سہگل سے آفاقی گانے گوا دیے۔

ان میں"میرے سپنوں کی رانی، اے دل بے قرار جھوم، جب دل ہی ٹوٹ گیا، ٹوٹ گئے سب سپنے سارے" وغیرہ شامل تھے۔ کندن لال عہد شباب میں ہی مے نوشی کی بدولت دنیا سے رخصت ہوگیا۔

اس علت نے اس عظیم آواز کو وقت سے بہت پہلے قبر میں اتار ڈالا۔ سہگل کا فلمی کیریئر صرف پندرہ برس کا تھا۔ اور مجموعی طور پر اس نے 36فلموں میں کام کیا۔

ان میں اٹھائیس، ہندی زبان میں تھیں۔ سات بنگالی زبان میں مستعار تھیں۔ اور ایک تامل زبان سے مزین تھی۔ یعنی، کندن کے ہنر کا اندازہ لگائیے کہ وہ ہندی، بنگالی اور تامل زبان میں حددرجہ مہارت رکھتا تھا۔ بلکہ ان پر حاوی تھا۔ اس کی بنگالی فلموں کو دیکھ کر کوئی اندازہ نہیں کر سکتا تھا، کہ وہ بذات خود بنگالی نہیں ہے۔

بالکل اسی طرح بیگم اختر فیض آبادی بھی تھیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے فنون لطیفہ کے بڑے انسان، تقسیم سے پہلے کی پیداوار تھے۔

اپنے ملک کی بات کر رہا ہوں۔ ضیا محی الدین سے لے کر مہدی حسن تک، فیض احمد فیض سے لے کر منیر نیازی تک، جان الیا سے لے کر نور جہاں تک، تمام کے تمام تقسیم ہند سے پہلے کے لوگ ہیں۔

یہ درست ہے کہ عظیم فنکار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ مگر ہمارے سماج نے تو تقسیم ہند کے بعد مکمل طور پر بنجر ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ آج کل کے نوجوان گلوکاروں کو سنتا ہوں تو حقیقت میں تکلیف ہوتی ہے۔

نہ آواز خوبصورت، نہ سر تال اور لے کا خیال، نہ درست تلفظ کا ملکہ اور نہ ہی مسحور کن الفاظ کی ترتیب۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ہم نے اپنے ملک میں فنکاروں کے لیے اتنا منظم قحط کیسے اور کیونکر پیدا کر لیا ہے۔

1977 تک پھر بھی غنیمت تھا۔ بھٹو دور تک فضا میں کافی حد تک جدت اور حدت تھی۔ مگر ضیاء الحق نے اپنے مخصوص عقائد کے تحت فن اور فنکار کو تقریباً زندہ درگور کر ڈالا۔ خبریں پڑھنے والی خواتین کو دوپٹہ اور ڈراموں میں کام کرنے والی خواتین کو ایک مخصوص سانچہ میں ڈالنے کی موثر کوشش کی۔ ضیاء نے ہمارے ملک کی منفی سوشل انجینئرنگ کر ڈالی۔ اس کو درست کرنے کے لیے جو مضبوط قیادت چاہیے اس کی بہر حال شدید کمیابی ہے۔

جب میں آج کل کے نوجوانوں کو بتاتا ہوں کہ 1977سے پہلے کا لاہور، کراچی، اسلام آباد کیا تھے۔ یہ کتنے جاندار شہر تھے تو ان کی اکثریت بے یقینی کا شکار ہو جاتی ہے۔ انھیں یقین ہی نہیں آتا کہ پوری دنیا کے سیاح بلوچستان میں بڑے آرام سے قیام کرتے تھے۔ لاہور میں تو سیاحوں کے بڑے بڑے کاروان آتے تھے۔

لاہور میں گورے سیاح بڑے آرام اور تحفظ سے ہر جگہ بلا خوف و خطر گھومتے نظر آتے تھے۔ دراصل ضیاء الحق نے اس ملک کی آزاد روح کو قتل کیا ہے۔

اسے ایک صحرا بنا دیا ہے۔ اور ہاں، آج بھی جو لوگ ہمارے حکمران ہیں وہ صرف اور صرف ضیاء الحق کی سوچ کے گملے سے اُگے ہیں۔

دراصل، اس ملک میں بھٹو ہارا ہے۔ ضیاء الحق تو مکمل طور پر آج بھی راج کر رہا ہے۔ اب اتنے گھٹے ہوئے ماحول میں فنون لطیفہ کی بات کرنا مکمل طور پر بے سود ہے۔ اگر اس ملک میں زندہ رہنا ہے تو اپنی شخصیت کو متعدد بہروپ پہنا دیجیے۔ آپ کامیاب ہو جائیں گے!