عمر اکرام نے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل سے خط لکھا ہے۔ پڑھنے کے بعد گھنٹوں کرسی سے اٹھ نہیں سکا۔ صاحبان دل! اتنی بے بس تحریر۔ رحم کے لیے ترستا ہوا ہر لفظ تیر کی طرح میرے سینے سے پار ہوا ہے۔ لازم گردانتا ہوں کہ آپ کی خدمت میں عرض کر سکوں کہ پس دیوار زندان انسان کتنا مظلوم ہو جاتا ہے۔
عمر کے اس مراسلہ سے تکلیف آنسوں کی طرح ٹپک رہی ہے۔ عمر بذات خود ایک بڑے کالج کا پڑھا ہوا ہے۔ ملک کے مایہ ناز تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہے۔ بینک میں نوکری شروع کی اور نظام نہ سمجھنے کی بدولت ایسی مار کھا گیا کہ جیل پہنچ گیا۔ حد درجہ عزت دار گھر کا نوجوان، جس میں کسی نے جیل کا پھاٹک تک نہیں دیکھا تھا۔
مصائب میں ایسا گرفتار ہوا کہ سب کچھ برباد ہو گیا۔ بہر حال یہ معاملہ عمر کا نہیں ہے بلکہ اس کے اٹھائے ہوئے اس اہم ترین نکتہ کا ہے جو پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جیل میں سینکڑوں ایسے بوڑھے بزرگ لوگ ہیں، جن کے اہل خانہ انہیں متروک کر چکے ہیں۔ برسہا برس سے انہیں کوئی ملنے نہیں آیا۔ ان میں سے تو چند کو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ اس عقوبت خانہ میں کیونکر پہنچے۔ بہر حال قانون کے شکنجے میں بے سبب سانس لیے جا رہے ہیں۔ کیوں۔ اس کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ یہ راندہِ درگاہ لوگ ایسی تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں کہ بیان کرنا دشوار ہے۔
ذرا غور سے سنیے۔ کوٹ لکھپت جیل میں سینکڑوں ایسے قیدی ہیں جو اپنے دنیاوی جرم کی سزا پوری کر چکے ہیں۔ سولہ برس، دس برس، آٹھ برس یا عمر قید۔ یعنی عدالت نے ان کو مجرم گردانتے ہوئے جو سزا دی تھی، وہ مکمل کر چکے ہیں۔ مگر ستم یہ ہے کہ وہ جیل سے آزاد نہیں ہو سکتے بلکہ قانونی طور پر بھی باہر نہیں آ سکتے۔ وجہ صرف ایک ہے۔
عدالت نے انہیں چند سالوں کی سزا تو دے ڈالی۔ مگر اس کے ساتھ جرمانہ بھی کیا ہے۔ چند ہزار سے لے کر ایک ڈیڑھ لاکھ روپے تک۔ ان مجبور لوگوں کی غربت آزادی کے آڑے آتی ہے۔ جرمانہ کی معمولی رقم ادا نہ کرنے کی وجہہ سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ یعنی سزا پوری ہو چکی ہے۔
مگر غربت ان کی اصل مجبوری ہے۔ عمر اکرام کا کہنا ہے کہ آزاد ہونے والے قیدیوں کی واضح اکثریت جرمانہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اب آگے کیا لکھوں۔ کیا عرض کروں۔ دل لرزتا ہے صاحب!۔ ذرا خو د اندازہ فرمائیے کہ ان کے پیارے ان کی رہائی کا مستقل انتظار کر رہے ہیں۔ ویسے چند کے پیارے بھی زخم کھا کھا کر کھلی آنکھوں سے خاموش ہو چکے ہیں۔ مگر جرمانہ نہ دینے کی بدولت یہ قیدی کبھی بھی آزاد نہیں کیے جا سکتے۔
اس خط میں درج ہے کہ سپرنٹنڈنٹ جیل آصف جان جمالی اور ان کا نائب یونس منج درد دل رکھنے والے لوگ ہیں۔ وہ اپنی سطح پر مخیر حضرات سے تعاون کی بھرپور کوششیں کر چکے ہیں۔ مگر ابھی تک کسی نے ان کی کوئی خاص مدد نہیں کی۔ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ سینکڑوں قیدی اپنی تنگدستی کی بدولت جیل میں محبوس ہیں۔ کوئی بھی ان کا والی وارث نہیں۔ کوئی بھی ان کی دست گیری کرنے والا نہیں۔ مگرصاحب! خدا تو ذریعے بناتا ہے۔ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے اور ہر ایک کی مدد کرتا ہے۔ عمر اکرام کا یہ خط لوگوں کی بھلائی کا ایک زینہ محسوس ہوا ہے۔ شائد اس سے معاملہ کافی حد تک بہتر ہو جائے۔
سوچتا ہوں کہ کیا کروں۔ لازم ہے کہ اپنی بساط کے مطابق ضرور کچھ نہ کچھ توضرور کروں گا۔ مگر اس سے معاملہ مکمل حل نہیں ہوتا۔ نو سال سے مسلسل کالم لکھ رہا ہوں۔ کئی حکومتوں کو اپنی تحریر سے ناراض کر چکا ہوں۔ بذات خود عتاب شاہی کا شکار بھی رہا ہوں۔ مگر آج تک کسی کے لیے معالی معاونت کی اپیل نہیں کی۔ آج اپنے اصول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان قیدیوں کی آزادی کے واسطے بھیک کا طلبگار ہوں۔ آپ خود کوٹ لکھپت جیل جائیے۔ اور اسیروں کا جرمانہ ادا کیجیے۔
اسکول کے بچوں سے اپیل کرتا ہوں کہ پاکٹ منی جمع کریں۔ اپنے پرنسپل کو جیل کے عملہ کے پاس بھجوا کر کسی مظلوم کو آزاد کروانے میں مدد کریں۔ محلہ کے نوجوان سو سو روپیہ اکٹھا کریں اور اس کام کو پرعزم طریقے سے نبھائیں۔ عام آدمی سے مجھے مروت کی توقع ہے۔ اب خواص کی طرف آتا ہوں۔ وزیراعظم بذات خود کوٹ لکھپت جیل میں کئی ماہ بطور قیدی گزار چکے ہیں۔ انہیں اسیری کا تجربہ بھی ہے اور محرومی کا اندازہ بھی۔ جس شہباز شریف کو بطور افسر میں جانتا ہوں، وہ محروم طبقے کے لیے سوچنے والا انسان ہے۔
میاں صاحب! معلوم نہیں کہ آپ اخبار پڑھتے ہیں یا نہیں۔ آپ کے پاس میرے کالم پڑھنے کا وقت ہے بھی یا نہیں۔ مگر میری وزیراعظم کے سٹاف سے درخواست ہے کہ میاں شہباز شریف کے نوٹس میں یہ انسانی المیہ لے کر آئیں۔ میاں صاحب صاحب ثروت انسان ہیں۔ چاہیں تو اپنی جیب سے یہ معمولی رقم ادا کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اسیران، آزاد ہو کر ان کے لیے اس قدر دعا گو ہوں کہ میاں شہباز شریف کی دنیاوی اور اخروی زندگی ستارہ بن جائے۔ امید ہے کہ وزیراعظم یہ دعائیں ضرور لینا چاہیں گے۔
بالکل اسی طرح چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست ہے کہ اس انسانی المیہ کا نوٹس لیں۔ بڑے لوگوں کے لیے تو آدھی رات کو عدالتیں کھل جاتی ہیں۔ سیاسی قائدین کو تو رات گئے انصاف مل جاتا ہے۔ تو پھر یہ قیدی جو اپنے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ ان کے لیے مثبت عدالتی حکم کیوں جاری نہیں ہو سکتا۔ چیف جسٹس بذات خود دیہی نظام کو اندر سے جانتے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ عقوبت خانے کتنا بڑا عذاب ہیں۔ اگر وہ کوٹ لکھپت یا اور جیلوں میں مقیم ان قیدیوں کے متعلق نوٹس لیتے ہیں جو صرف جرمانہ نہ دینے کی بدولت پابند سلاسل ہیں۔
اور ان کے جرمانے کی رقم معاف کر دیتے ہیں۔ تو وہ کتنی بڑی نیکی کمائیں گے۔ اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ شائد یہی نیک عمل ان کے لیے خدا کے حضور زاد راہ کا کام کر ڈالے۔ درج ہے کہ منصف قیامت کے دن خدا کی چھتر چھاؤں میں کھڑے ہونگے۔ چیف جسٹس صاحب، شاید آپ کے ایک حکم سے سینکڑوں قیدی آزاد ہو جائیں۔ اور آپ پر بروز قیامت رحمت کی چھاؤں گہری تر ہو جائے۔
بالکل اسی طرح پرویز الٰہی کو جانتا ہوں۔ اس وقت وہ وزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔ پاکستان کے ساٹھ فیصد لوگ ان کے رحم و کرم پر ہیں۔ جس طرح پرویز الٰہی نے ریسکیو 1122کا دائرہ تحصیل تک پھیلا دیا ہے۔ چودھری صاحب، بالکل اسی جذبے کے ساتھ جیل میں محبوس ان قیدیوں کا جرمانہ معاف کروائیں یا کسی بھی ذریعے سے اس معمولی رقم کو سرکاری خزانے میں جمع کروا دیں۔ یقین ہے کہ پرویز الٰہی یہ نیک کام کر سکتے ہیں۔ ان کا گھرانہ حد درجہ دیندار ہے۔ اس کام کو نیکی سمجھ کر کر ڈالیے۔ شائد اسیروں کی دعائیں آپ کے لیے بہت بڑے اجر کا باعث بن جائیں۔
روزعمران خان کی تقاریر سنتا ہوں۔ ان میں ریاست مدینہ کا ذکر بار بار ہوتا ہے۔ آقاؐ نے تو قیدیوں کو رہا کروانے کی روشن مثال قائم کی ہے۔ یہاں تک حکم دیا ہے کہ جو قیدی، جرمانہ نہ ادا کر پائے، وہ بچوں کو تعلیم دیں، اس عمل سے اسیر وں کو آزاد کیا ہے۔ کئی باربذات خود جرمانہ کی رقم ادا کی ہے یا صحابہ اکرام علیہم الرضوان سے کروائی ہے۔ خان صاحب! ذرا سوچیئے کہ آپ کی ایک اپیل سے پورے ملک میں لوگ ان مظلوموں کی مدد کے لیے آن کھڑے ہوں گے۔ آپ کے چند ساتھی تو بہت امیر ہیں۔
اگر آپ ان کو کہہ دیں کہ قیدیوں کے جرمانہ کی رقم ادا کر ڈالیں تو سینکڑوں لوگ آزادی کی فضا میں سانس لے پائیں گے۔ خان صاحب! آپ کا "ریاست مدینہ" کا تذکرہ عملی ثبوت مانگتا ہے۔ میری ان تمام سیاست دانوں سے التجا ہے جو بذات خود قیدی رہے ہیں۔ جیل کے ظلم کو برداشت کرتے رہے ہیں کہ آپ آگے بڑھیے۔ آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ قید ناحق کتنا بڑا عذاب ہے۔ چلیے۔ ہمت کریں اور قیدیوں کی دست گیری کریں۔ آپ کے لیے یہ معمولی سا کام ہے۔ مگر ذرا سوچیے کہ اس نیکی سے کتنے لوگ سپھل ہوجائینگے۔
یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ عمر اکرام نے اس خط کے ذریعے جس اہم ترین مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس سے اس کی ذاتی زندگی میں آسانیاں ہی آسانیاں آئیں گی۔ جو غریب قیدی کے لیے فکر مند ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ رب کائنات اس کے متعلق کوئی بہترین حکم صادر نہ کریں۔ وہ تو قادر مطلق ہے۔
یہ مراسلہ بھی اسی کے اذن سے لکھاگیا ہے اور وہی لوگوں کی دلوں میں جذبہ ڈالے گا کہ ان مظلوموں کی مدد کریں۔ بارہا لکھ چکا ہوں کہ مجھے سیاست سے رتی بھر دلچسپی نہیں۔ مگر آج جن سیاست دانوں کے پاس اختیار ہے، ان سے روز قیامت ان کے دور کے مظلوموں کی داد رسی کا حساب تو بہر حال لیا جائے گا۔ آج آپ ملک کی قسمت کے مالک ہیں۔ اپنے اختیارات استعمال کر کے ان اسیروں کی مدد کیجیے۔ ہو سکتا ہے آگے کی منزلیں آسان ہو جائیں!۔