"پاکستان سائنس کی دنیا سے حددرجہ دور جا چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، دنیا کے تعلیمی نقشے پر بھی اس ملک کا وجود تقریباً ختم ہو چکا ہے"۔ کراچی میں ایک ورچوئل لیکچر دیتے ہوئے نوم چومسکی (Noom Chomsky) نے حیرت انگیز مگر درست باتیں کی ہیں۔
چومسکی اس وقت فلسفہ، لسانیات کی دنیا کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا انسان ہے۔ بانوے سالہ پروفیسر کے متعلق ذمے دار حلقے یہ کہتے ہیں کہ کرہِ اَرض پر جس انسان کے سب سے زیادہ مقولے دلیل کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں وہ صرف اور صرف چومسکی ہے۔
پروفیسر ایک بے خوف انسان ہے جو عقل کے سہارے موجودہ دنیا کے مسائل کو دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ ہمارے جیسے ممالک میں دلیل اور عقل کے متعلق بات کرنا بے سود ہے۔ کیونکہ ہم لوگوں کی اکثریت دلیل سے خوفزدہ ہے۔ جذبات اور عقائد کا سہارا لیکر بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کراچی میں لافانی باتیں کرتے ہوئے چومسکی نے صرف دس دن پہلے کہا ہے کہ "پاکستان کے پاس جدید سائنسدان موجود تھے، ان میں نوبل پرائز حاصل کرنے والے لوگ بھی تھے۔ مگر موجودہ تعلیمی نظام میں سائنس مکمل طور پر غائب ہو چکی ہے"۔ یہاں تک کہہ گیا ہے کہ "پاکستان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اگر اسی طرح ملک مذہبی توہم پرستی میں گھرا رہا"۔ یہ تمام جملے ایک مستند فلسفی کے ہیں۔ اس کی فکر اور خیالات سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ مگر سنجیدہ طبقے سے سوال کرتا ہوں۔ کیا نوم چومسکی ہمارے ملک کے متعلق غلط کہہ رہا ہے!
میڈیا اور جمہوریت کے متعلق بھی پروفیسر کے خیالات حددرجہ مختلف ہیں۔"میڈیا کا سچ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بنیادی طور پر آزاد میڈیا کا کسی قسم کا کوئی وجود نہیں ہے۔ دراصل یہ کارپوریٹ میڈیا ہے۔ اس کی منزل صرف اس حد تک ہیں کہ خیالات کو کامیابی سے بیچا جاسکے۔ میڈیا کوئی ایسے عنوان پر بحث نہیں کریگا، جس سے اس کے مالی مفاد پر کسی قسم کا منفی اثر پڑے۔ چومسکی کے بقول امریکی میڈیا حددرجہ خوف زدہ ہے اور ریاستی اداروں کے رحم وکرم پر ہے۔"یہ چند سطریں ہمارے ملکی حساب سے کس قدر اہم ہیں۔
اس پر کمال بحث ہونی چاہیے۔ چومسکی نے ایک حیرت انگیز لفظی ترکیب ایجاد کی ہے"۔ Manufacturing Consent۔ یہ اس کی ایک کتاب ہے۔ جس میں وہ کھل کر بحث کرتا ہے کہ کس طرح میڈیا، نامعلوم طریقے سے لوگوں کا ذہن بناتا ہے۔ کس طرح اداروں کے متعلق مخصوص خیالات ہی کو مثبت قرار دیتا ہے اور کس طرح دوسرے اہم ترین معاملات سے لوگوں کی توجہ ہٹا دیتا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ کتاب ہمارے ملک کے متعلق لکھی گئی ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ تمام دنیا کا میڈیا بالکل ایک طریقے سے کام کر رہا ہے۔ مالی ذاتی مفاد، بس اور کچھ بھی نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کم ازکم ہمارے ملک میں میڈیا کبھی یہ تسلیم نہیں کریگا کہ یہ تجارتی طور پر چلایا جا رہا ہے۔
جمہوریت کے متعلق بھی چومسکی نے حددرجہ خوفناک باتیں کی ہیں۔ اس کے نزدیک پوری دنیا میں جمہوریت روبہ زوال ہے۔ اس کے اندر بھی سرمایہ داری کا نظام عود کر آیا ہے۔ کسی بھی ملک میں اُصولوں پر لوگوں کے فائدے کے لیے کام نہیں کیا جا رہا۔ پاکستان اور ہندوستان کے متعلق بھی چومسکی کی باتیں اَزحد اہم ہیں۔"یہ دونوں ممالک، نیوکلیئر جنگ کر سکتے ہیں۔
اس جنگ میں اصل نقصان، جوہری جنگ شروع کرنے والے ملک کو ہو گا۔ جوہری جنگ کی وجہ سے، دنیا میں کئی دہائیوں تک بھرپور سردی رہیگی۔ جسکے نقصان دہ اثرات سے نکلنا ناممکن ہو گا۔ خوفناک حالات ماحولیات کی بربادی کی وجہ سے ہونگے۔ ساؤتھ ایسٹ ایشیاء، جس میں پاکستان اور ہندوستان شامل ہیں، شدید قحط، بے موسم بارشوں، گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے، دریاؤں کے خشک ہونے اور پانی کی نایابی کا شکار ہوجائینگے۔ اس خطے کے حالات اس قدر دگرگوں ہونگے، کہ یہاں انسانی زندگی ختم ہو سکتی ہے۔ اور یہ حالات زیادہ دور نہیں، بالکل سامنے موجود ہیں "۔
یہ خیالات، ہمارے خطہ کے معاملے پر ہیں۔ باقی باتیں کیا کریں۔ سو سے زیادہ بامعنی کتابیں لکھنے والے کے متعلق محض ایک کالم میں کیا گزارش کر سکتا ہوں۔ پروفیسر یہودی ہے مگر اسرائیل کے سخت خلاف ہے۔ یہ مردِ عجیب، اسرائیل اور بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کے بارے میں کھل کر بات کرتا ہے۔ مودی اس سے حددرجہ چڑتا ہے۔ کیونکہ مودی کو وہ ایک مذہبی فاشسٹ کہتا ہے۔ مگر اس کے باوجود مسلمان ممالک میں بھی پروفیسر کی کوئی خاص پذیرائی نہیں ہے۔ ویسے مسلمان ملکوں میں کس اخلاقی اُصول کی پذیرائی ہے، آ ج تک اس کا جواب تلاش نہیں کیا جا سکا۔
شدت پسندی، غیرجمہوری رویے، مختلف سوچ والے انسان کو مارنے کی خواہش اور آزاد سوچ کو زہر قاتل سمجھنا، تمام مسلمان ممالک میں حیرت انگیز حد تک یکساں ہے۔ مسلم ممالک میں ہم تمام لوگ، انسانی سطح سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پروفیسر یہ بھی کہتا ہے کہ پانامے لیکس نے مسئلہ کی صرف رونمائی کی ہے۔ اصل مسئلہ حددرجہ مہیب، خوفناک اور طاقتور ہے۔ ابھی تک نناوے فیصد لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ ان کے وسائل کس طرح لوٹے جارہے ہیں۔ ان کے سیاسی لیڈران اور ملٹی نیشنل کمپنیاں کتنا زیادہ پیسہ چوری کر رہی ہیں۔
چومسکی کے خیالات کو اپنے ملک کے تناظر میں دیکھنا بہت ضروری ہے۔ یہ تجزیہ کیونکہ دلیل کی بنیاد پر ہی ہو سکتا ہے، لہذا درست طریقے سے کرنا ہرگز آسان نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں آزاد سوچ کو تشدد سے دبانے کا واضح رجحان موجود ہے۔ لہذا یہاں سچ بولنے اور لکھنے سے آپکی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ مگر انسان ایک حقیقت پر بات کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اسے بات کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ طالبعلم، ملک میں جاری جمہوریت کی تنزلی والے نکتے پر گزارشات پیش کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی آبادی کتنی ہے۔ وثوق سے کہنا اَزحد مشکل ہے۔
پانچ سے چھ کروڑ لوگ، شدید غربت میں مبتلا ہیں۔ غربت کی لکیر جس کا ہر حکمران تقریروں میں ذکر کرتا ہے۔ اس سے نیچے مفلس لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ اَن گنت لوگ سفیدپوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اتنے زیادہ غریب ملک میں جمہوریت کا مطلب کیا ہے۔ اس کی نوعیت کیا ہے اور کون لوگ جمہور کا جھنڈا سربلند کیے ہوئے ہیں۔ یہ وہ منسلک سوال ہیں جس پر بات ہونی چاہیے۔ گفتگو سے حالات بہتر تو قطعاً نہیں ہونگے۔ مگر کم ازکم سچائی یامعمولی سی حقیقت لوگوں کے سامنے آجائیگی۔
بہتری تو خیر ہمارے نصیب میں نہیں ہے۔ اس لیے اس پر کوئی بات کرنی ہی عبث ہے۔ مگر کیا یہ المیہ نہیں کہ ہمارے جیسے ملک کے حکمران اَزحد امیر لوگ ہیں۔ یہ ارب پتی نہیں بلکہ ان کی دولت کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ کسی بھی جماعت کے سرکردہ لوگوں کو اُٹھا کر پرکھ لیجیے۔ آپکو ہر طرح کا سیاسی اختلاف نظر آئیگا۔ مگر ایک عنصر مکمل ایک طرح کا ہے۔ وہ ہے کہ یہ اَزحد امیر لوگوں کا وہ کلب ہے جسکے معاشی فائدے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران اس غریب ملک کے امیر ترین لوگ ہیں۔
یہ لوگ غریب کی نمائندگی کر رہے ہیں اور "بے لوث" طریقے سے مسلسل کیے جارہے ہیں۔ اور کمال بات یہ ہے کہ بھوک کے مارے لوگ، انھیں اپنا نجاتِ دہندہ بھی سمجھ رہے ہیں۔ یہ سفلی پن کا وہ عظیم شاہکار ہے جس پر بڑے بڑے دانائی والے لوگ، بات کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ کیا چومسکی بالکل درست بات نہیں کہہ رہا کہ جمہوریت حددرجہ انحطاط کا شکار ہے اور یہ سرمایہ داری نظام ہی کی ایک جدید شکل ہے۔ کیا ہماری جمہوریت میں اب پیسہ کا عمل دخل نہیں ہے۔ اس غریب ملک میں جہاں معمولی سے پیسوں کے عوض، انسان اپنا حقِ رائے دہی بیچ دیتا ہے۔
اس میں سب کچھ تو ہو سکتا ہے۔ مگر جمہوریت ہرگز نہیں ہو سکتی۔ کیا ہم انکار کر سکتے ہیں کہ ہمارے الیکشن میں ووٹوں کی سرِعام خرید و فروخت نہیں ہوتی۔ صاحب، پروفیسر بالکل درست کہہ رہا ہے۔ ہم جسے جمہوریت گردان رہے ہیں، وہ امیر ترین لوگوں کا ایک مختصر گروہ ہے جو ملکی وسائل پر ہر طریقے سے قابض ہیں۔ ان کی باریاں لگی ہوئی ہیں۔ اب پیسہ کمانے کی اس گروہ کی باری ہے اور تھوڑے عرصے کے بعد دوسرا گروہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنا شروع کر دیتا ہے کہ اسے دولت کمانے کی اجازت کیوں نہیں ہے۔
لہذا جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ملکی سالمیت پر بھی زد آنے لگتی ہے۔ بے چینی پیدا کر کے، بلکہ ہر حربہ استعمال کر کے سیاسی حریف ایک دوسرے کو مال ودولت کے تخت سے گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں کو یہی کہتے ہیں کہ دراصل ہم محب الوطن ہیں۔ اگر ہم اقتدار میں ہونگے تو جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔ بلکہ اس وقت جو لوگ ملک کے حکمران ہیں، وہ غدار اور دشمن ممالک کے ایجنٹ ہیں۔ یہ ہمارا جمہوریت کے متعلق مختصرترین تجزیہ ہے۔
چومسکی اپنے طویل تجربے کی بنیاد پر جو کچھ کہہ رہا ہے یا لکھ رہا ہے، اس پر ہمارے ملک میں مکمل خاموشی ہے۔ مگر خاموشی سے کبھی نہ کام چلا ہے اور نہ چلے گا۔ ہمیں پروفیسر کے بیانیے سے اختلاف رکھنے کا بھرپور اختیار ہے۔ مگر یہ کہنا بھی نامناسب نہیں کہ اس کی دانشمندانہ باتوں کو، عملی حالات، سماجی، لسانی، اور اقتصادی معاملات کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ملک کے متعلق یہ فلسفی درست بات کر رہا ہو؟