آج سے ٹھیک تین دن پہلے قائدکایومِ پیدائش منایاگیا۔ اخبارات، جرائد، ٹی وی پر اَن گنت پروگرام کیے گئے۔ مضامین لکھے گئے۔ بہت اچھاہوا۔ بہت بڑھیا۔ سوشل میڈیاپرکم ازکم طالبعلم نے ہزاروں پیغامات دیکھے جس میں اس عظیم شخص کی تصاویر اور فرامین درج تھے۔ سارے پڑھے۔ مگراس بارجناح صاحب کے متعلق ایک بھی سطرنہیں لکھ پایا۔ کوشش بھی نہیں کی۔ شایددل بھی نہیں مانا۔ کیوں، اس کا جواب تلاش کررہاہوں۔ ایسے لگتاہے کہ قائداعظم جیساعظیم رہنما، اس منجمدقوم کی سطح سے بہت اوپر کا آدمی تھا۔ دل میں آتاہے کہ برصغیرکے مسلمان اتنی اعلیٰ درجے کی قیادت کے اہل ہی نہیں تھے۔
علم ہے کہ بہت سے افرادکوان جملوں سے اختلاف ہوگا۔ غورفرمائیے کہ ہم نے اس شخص کے ساتھ عملی طور پر کیا، کیاہے۔ لفظی تقاریرکی بات نہیں کررہا۔ ان سے تولگتاہے کہ بائیس کروڑلوگ، قائداعظم کی ہربات پرمن وعن عمل کرتے ہیں۔ مگرصاحبان زیست، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ بلکہ معاملات حد درجہ متضادہیں۔ عملی طورپر، دوبارہ لکھوں گا، عملی رویے میں لوگوں کی واضح اکثریت جناح صاحب کے فرامین سے متضاد کام کرتی ہے۔
سیاسی میدان ہو، سماجی رویے ہوں، اقلیتی اورخواتین کے حقوق کی بات ہو، کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں جس میں ہم لوگ ان کی براہِ راست مخالفت نہ کررہے ہوں۔ مانے گاکوئی نہیں۔ مگر جو کیا جاتا ہے، وہ ثبوت ہوتاہے۔ اس اَمرکا، کہ ہمارے دماغ میں اصل ترتیب کیا ہے۔ جناب، بیانیہ، ہمارے عمل کی تصدیق نہیں کرتا۔ ہرگزنہیں کرتا۔
قائدکی تصویرسے شروع کیجیے۔ ہم اس پربھی دوغلاپن ظاہرکرتے ہیں۔ جب ضرورت پڑتی ہے تو قراقلی ٹوپی اورشیروانی میں ملبوس انسان پیش کرتے ہیں۔ قومی سطح پرکوشش کی جاتی ہے کہ انھیں، ایک راسخ العقیدہ، ہروقت اللہ اللہ کرنے والے انسان کے طور پردکھایاجائے۔ چنانچہ ہرجگہ مشرقی لباس میں ملبوس دکھایاجاتاہے۔ ہاں، ایک کرم، یہ لوگ بھی کرتے ہیں۔ قائدکے ہاتھ میں تسبیح اورشانوں پرسعودی عرب سے درآمدکیاہوا، ڈبیوں والاسرخ رومال نہیں ڈال سکتے۔ اس لیے نہیں کہ یہ طبقہ، ایساکرنہیں سکتا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے پاس اس طرح کی حرکت کرنے کاکوئی جوازنہیں ہے۔
سب کومعلوم ہے کہ قائد نے اپنی عوامی لائف میں کبھی کسی جگہ بھی اپنی شکل و صورت کومذہب یامروجہ سماجی رویوں کے حساب سے ترتیب نہیں دیا۔ اسکایہ مطلب نہیں کہ قائدکی زندگی میں اسلام کی اہمیت نہیں تھی۔ بالکل تھی۔ مگراسکوانھوں نے ذاتی زندگی تک محدود رکھا۔ سیاسی زندگی میں کبھی بھی اپنے آپکولوگوں کے سامنے مذہبی اندازسے پیش نہیں کیا۔ اس معاملہ کی تصدیق آپ کسی بھی غیر متعصب تاریخ دان کی کتاب سے کر سکتے ہیں۔ دوبارہ عرض کرونگاکہ وہ پاکستان کو جدید اسلامی فلاحی ریاست دیکھناچاہتے تھے۔ مگردین کو کبھی انھوں نے سیاسی مقاصدکے لیے استعمال نہیں کیا۔
اسی نکتہ کوآگے بڑھاتے ہوئے گزارش ہے کہ اس طبقہ کے بالکل اُلٹ ایک اورسماجی اورسیاسی رویہ بھی ہے۔ تھوڑاسالبرل حکمران اقتدارمیں آتاہے تو پھر جناح صاحب کی اس طرح کی تصاویرسامنے لائی جاتی ہیں جن میں وہ مغربی لباس میں ملبوس سگارپیتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ بلکہ کئی ایسی عمدہ تصاویربھی شایع کی جاتی ہیں جن میں اپنے پالتوجانوروں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ یعنی انھیں مکمل طورپرمغرب زدہ تعبیر کیا جاتاہے۔ یہ سیکولررنگ انھیں اتاترک کے قریب لے جاتاہے۔
یہ طبقہ خاص طورپرجناح صاحب کی زندگی کے وہ گوشے سامنے لانے کی کوشش کرتاہے جو انھیں مکمل طورپرمغرب زدہ ظاہرکرتے ہیں۔ ابھی صرف تصاویرپرمتضادفکرکی بات کررہاہوں۔ دونوں فریق اپنے اپنے نکتہِ نظرکوآخری فیصلہ گردانتے ہیں۔ دونوں رویے اپنی اپنی جگہ منجمدہیں۔ مشرقی طرز پر قائد کو دکھانے والے اورمغربی کسوٹی پرقائدکوپرکھنے والے۔
ہوسکتاہے۔ یہ دونوں اپنی اپنی دانست میں درست ہوں۔ مگریہ دونوں غلط بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے کہ مغربی طرززندگی رکھنے والاشخص، راسخ العقیدہ مسلمان ہوسکتاہے۔ کیاکوئی بھی لباس کسی بھی شخص کے عقیدہ کے بارے میں حتمی ثبوت بن سکتا ہے۔ ہرگزنہیں۔ بالکل نہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ فکر اور لباس کاکافی حدتک آپس میں تعلق ہے۔ مگر ہزاروں نہیں، کروڑوں مسلمان مرداورخواتین، مغربی لباس پہنتے ہیں۔ مگران پراسلام کی محبت ہرطریقے سے غالب ہے۔ انکاحلیہ دیکھ کراندازہ نہیں لگاسکتے کہ وہ فکری طور پرمذہب سے کتنے وابستہ ہیں۔
صاحبان، قائدکے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے۔ ان کی تصاویرہرحکمران اپنے ذاتی مقاصدکے تحت عام لوگوں کو دکھاتا ہے۔ کبھی انھیں مغربی فلسفہ کاعلمبرداربتایاجاتاہے اورکبھی انھیں مشرقی اقدار کا مالک۔ کوئی یہ نہیں کہتاکہ قائدنے مغربی اورمشرقی تہذیب اورفکرکو جدید طریقے سے اپنے اندرسمویا تھا۔ وہ ایک محیرالعقول حدتک عظیم آدمی تھے جو جدید ترین خیالات کے مالک تھے۔ متوازن تھے۔ ان کا خمیربھرپورطریقے سے مذہب میں گندا ہوا تھا۔ عجیب شخص تھا۔ دوستوں ہم نے ہرطرح سے ان کی ناقدری کی۔
آگے بڑھتے ہوئے، قائدکے افکاراورسیاسی سفرکی طرف نظرڈالیے۔ 1857سے لے کرکافی عرصے تک، ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف شدیدردِعمل پایاجاتاتھا۔ انگریزی زبان، مغربی تعلیم اورسرکاری نوکری سے مسلمانوں کی اکثریت کو حددرجہ چڑتھی۔ جناح وہ پہلے رہنماتھے جنھوں نے مسلمانوں کوایک سیاسی جدوجہدسے آشناکیا۔ یہ جدوجہدمغربی جمہوری اُصولوں کے تقاضوں سے مزین تھی۔ اسی سے اندازہ لگالیجیے کہ1919سے 1924تک چلنے والی خلافت تحریک کے ہراول دستے میں کبھی شامل نہیں رہے۔ دوررس نگاہیں دیکھ رہی تھی کہ برصغیرکے مسلمانوں کوایک مشکل میں جھونکا جا رہا ہے۔
عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جمہوریت کے رنگ میں برصغیرکے مسلمانوں کورنگنے والاشخص صرف اورصرف یہی عظیم شخص تھا۔ سوچیے، ان کے مدِمقابل کون تھا۔ ہندو یا سکھ رہنماؤں کی بات نہیں کررہا۔ مسلمان رہنماؤں کے بارے میں عرض کر رہا ہوں۔ جولوگ پاکستان کے شدیدمخالف تھے۔ ملک بنتے ہی یہاں منتقل ہوگئے اورآزادی سے خوب فوائد حاصل کیے۔ مگروہ آج تک فکری طورپرقائدکی شخصیت اوران کی سیاسی جدوجہدکوبے قدرکرتے ہیں۔
آج بھی وہ فکری طورپرمذہب کاسہارا لے کرقائداعظم کے عملی خیالات کی بھرپورنفی کرتے ہیں۔ قائد کو اپنی جدوجہدمیں متعدد طرح کی رکاوٹیں آئیں۔ اس میں مسلمانوں کاحصہ قدرے زیادہ ہے۔ کئی ایسے تکلیف دہ حقائق ہیں جنکا ذکرکرتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے۔ جیسے قائد کوسیاسی طورپرپنجاب کی قیادت نے بھی صرف اور صرف جزوی طورپر قبول کیا۔ 1946سے پہلے توانھیں یونینسٹ پارٹی کی طرف سے بہت زیادہ مزاحمت ملی۔
باقی تمام باتوں کوچھوڑدیجیے۔ 1947کے بعد پاکستان کے حکمران کس حدتک قائدکی سوچ پرعمل کرتے رہے۔ یہ بھی سب کے سامنے ہے۔ لفظی طور پران کی تعریف ہوتی رہی اورآج بھی ہو رہی ہے۔ مگر ملک کوچلانے کے لیے ان کی فکرکومحوربالکل نہیں بنایا گیا۔ قائدنے مسلمانوں میں مذہبی منافرت کی ہرجگہ مخالفت کی تھی۔ مگراب توفرقہ پرستی کادوردورہ ہے۔ قائد، ہمیشہ جمہوری اقدار کی بات کرتے رہے۔ مگر آج کسی بھی ادارے، سیاسی رہنمااورسیاسی جماعت میں جمہوری اقدار نہیں ہے۔ ان کے مرتب شدہ معاشرے میں بھی نہیں ہے۔
کرپشن کے متعلق قائدکے فرامین ہر جگہ موجودہیں۔ مگریہ سماج توعملی طورپرکھڑاہی غیرقانونی لین دین کے اُصول پرہے۔ اقلیتوں کے حقوق پرقائدکی سوچ کیاتھی اورہم حکومتی اورمعاشرتی سطح پر کیاکرتے ہیں۔ یہ تضاد آج بھی سب کے سامنے ہے۔ کیا ذکرکروں اورکیا رہنے دوں۔ سمجھ نہیں آتا۔ مگر ایک بات توثابت ہے کہ قائد جیسا بڑا آدمی ہمارے منافقانہ طرزعمل کی بدولت صرف اور صرف تقاریر اور پروپیگنڈے کی بھینٹ چڑھ گیا۔ گمان ہوتاہے کہ ہم قومی طورپرجناح صاحب جیسے قدآورآدمی کے اہل ہی نہیں تھے! دوغلے معاشرے کبھی بھی سچے آدمی کی قدرنہیں کرتے۔ کبھی بھی نہیں!