گزشتہ چندبرسوں سے ہرسطح سے ایک اہم جملہ بارباراداکیاجارہاہے۔ پاکستان، ترکی، روس اورچین پر مشتمل ایک نئی عظیم صف بندی ہورہی ہے۔ جو ہمارے قومی مفادات کی ضامن ہوگی۔ مزید ہندوستان، امریکا اوریورپ کے ترقی یافتہ ممالک کے خلاف ایک انتہائی موثرعسکری بلاک ترتیب ہوچکاہے۔
سادہ الفاظ میں روس، چین اورترکی اب دل وجان سے پاکستان کے ساتھ ہیں اوریہ ہماری خارجہ پالیسی کاعروج ہے۔ اس طرزِفکرکوایسے بڑھاوادیاجارہاہے جیسے دنیاکاسب سے طاقتوربلاک بننے کوہے یابن چکاہے اورپاکستان اس کا ایک کلیدی کردارہوگا۔ میں بذاتِ خوداس فلسفہ کوبالکل درست سمجھتارہاہوں۔ جہاں تک عوام کاتعلق ہے۔ انھیں کوئی فرق نہیں پڑتاکہ ہماراملک کس نئی گروہ بندی کا حصہ بن رہاہے۔ روزی روٹی کے مسائل کسی بھی سوچ کو ختم کرچکے ہیں۔ ہندوستان سے درآمدکی گئی سبزیوں پر بغیرسوچے سمجھے گزارہ کرنے والی قوم، فہم کی پختہ کاری سے محروم ہے۔
چین کی بنائی ہوئی ناقص اشیاء پراب بحث ختم ہوچکی ہے۔ آپ چین سے درآمدکی ہوئی دوائیاں، مشینری بلکہ ہرچیزخریدتے ہیں، توہرایک کے ذہن میں ہوتاہے کہ یہ غیرمعیاری ہونگیں۔ مگراب انتہائی خاموشی سے ہم چین سے ہرناقص چیزخریدنے پرمطمئن ہیں۔ عوامی استحصال اورکیاہوگا۔ بالکل اسی طرح ترکی ہماری خام سوچ کابھرپورفائدہ اُٹھارہا ہے۔ ارتغرل ڈراما ایک نئی ذہنی غلامی کی بنیادرکھی جانے کی بے مثال کوشش ہے۔
اگرصرف یہ عرض کردوں کہ نیٹ فلیکس کے اپنے بنائے ہوئے ڈراما جیسے رومن ایمپائر، اسپارٹکس، ورلڈ وارٹو، ترکی کی حکومتی معاونت سے بننے والے ارتغرل سے حددرجہ بہترہیں توشائداکثریت کویقین نہیں آئیگا۔ مگر میری التجاپرنیٹ فلیکس پرموجودان ڈراموں کوغورسے دیکھیے۔ اندازہ ہوجائیگاکہ کون ساڈراما بہترہے۔ ویسے اگرپاکستانی فلم سازوں اوراداکاروں کی ترکی کی طرزپر حکومتی سرپرستی ہو، توہم ارتغرل سے بہترڈرامے بناسکتے ہیں۔ پربغیرسوچے سمجھے، ہم نے تفریح کوبھی عقائدکے ڈبے میں بندکرکے سماجی نتائج لینے کی کوشش کی ہے۔ جسے اکثریت کامیاب سمجھتی ہے۔
روس کے ساتھ ہمارے تعلقات کاہماری قومی زندگی سے کیاتعلق ہے۔ اس سوال کاجواب تلاش کرنے کی کوشش کررہاہوں۔ اسی برس، 2020تک روس کا عملی رجحان قطعاًپاکستان کی طرف نہیں ہے۔ یایوں فرمالیجیے کہ کم ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اس سال نومبرمیں دونوں ملکوں کے درمیان گیس پائپ لائن بچھانے کامعاہدہ ہواہے۔
پرکیاکسی نے توجہ دی ہے کہ یہ معاہدہ دراصل پرانے معاہدہ سے یکسرمختلف ہے۔ پرانے معاہدے کی رُوسے روس نے اس پائپ لائن پر سرمایہ کاری کرنی تھی۔ اب یہ معاملہ ہے کہ ہماراملک اس پر چوہترفیصدپیسے لگائے گااورروس چھبیس فیصد۔ دوسرے لفظوں میں اب یہ روس کی پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں، بلکہ ایک طرح سے پاکستان پائپ لائن خریدرہا ہے۔ مگر اس جہت سے کبھی بھی کوئی بات نہیں کی جاتی۔ چلیے، 26فیصدبھی سرمایہ کاری درست سمت میں قدم ہے۔ مگر ان دونوں ملکوں میں تجارتی تعلقات کیا ہیں۔
چھ سوملین ڈالریاحدآٹھ سوملین ڈالرسالانہ۔ کیا اتنے نچلے درجے کے تجارتی تعلقات واقعی گرمجوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ عسکری خریدوفروخت اس کے علاوہ ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ 2019 میں ہی روس نے پاکستان میں انیس بلین ڈالرکی سرمایہ کاری کااعلان کیا تھا۔ مگراسکوعملی جامہ پہنانے کے لیے کیاکچھ ہواہے۔ یہ آج بھی سوالیہ نشان ہے۔ ہندوستان اورروس کی باہمی تجارت کاذکرکروں گا۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندرمودی، اپنی وزارتِ عظمیٰ میں متعددبارروس گیاہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان درجنوں نہیں، سیکڑوں باہمی تعاون کے معاہدے ہیں۔ روس کے لوگ، ہندوستان کی سیاحت پرآنا، اپنے گھرجیسا سمجھتے ہیں۔ عسکری تعاون حددرجہ گہراہے۔ دونوں ممالک2025تک اپنی تجارت کوپچیس بلین ڈالرتک لیجانے کاارادہ رکھتے ہیں۔ آج بھی فریقین دس بلین ڈالرکی باہمی تجارت کررہے ہیں۔ روس، ہمسایہ ملک میں ہرطرح کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ جوتوانائی، خلائی تحقیق، جدیدٹیکنالوجی کے خرید وفروخت سے لے کرہرشعبہ میں نظرآتی ہے۔ عسکری تعلقات حددرجہ مضبوط اوراسٹرٹیجک نوعیت کے ہیں۔
یعنی کوئی ایساشعبہ نہیں جس میں ہندوستان اورروس قریبی مراسم نہ رکھتے ہوں۔ عام فہم سی بات ہے کہ ہمارادشمن ملک اور روس، بھرپورطریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ مگرپاکستان میں کسی بھی سطح پراس کااعتراف نہیں کیاجا رہا۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس، دلیل کے بغیرایک سوچ عوامی سطح پرفروخت کی جارہی ہے کہ روس اور پاکستان، انتہائی قریبی تعلقات کے حامل ہونے جارہے ہیں۔
روس کی ہندوستان سے سردمہری کادورانیہ شروع ہوچکا ہے اور دونوں ملک ایک دوسرے سے فاصلے پر جاچکے ہیں۔ ہوسکتاہے کہ یہ فلسفہ پیش کرنے والوں کے پاس ایسے حقائق ہوں، جوطالبعلم کومیسرنہیں ہیں۔ مگرعملی طورپر پاکستان اورروس کی قربت کے اس طرح کے شواہدنہیں ملتے۔ اگر ہم روس کے قریب ہوچکے ہیں، تو اس کاکیاثبوت ہے۔
چلیے منفی طرزکی دلیل کوسامنے لے آئیے۔ کیاموجودہ دورمیں، ہندوستان اورروس کے باہمی تعلقات ایک فیصدبھی تعطل کاشکارہوئے ہیں؟ کیاان دونوں ممالک کی باہمی تجارت کم ہوئی ہے؟ بلکہ اس کے بالکل برعکس، اگلے پانچ برسوں میں یہ اقتصادی تعلقات پچیس بلین ڈالر تک پہنچنے کاامکان ہے۔
آپکوکتنے لوگ ملیں گے جوروس جاناپسند کرتے ہیں۔ وہاں سیاحت، روزگار، تجارت کے لیے بے تاب ہیں۔ بلکہ یہ معاملہ حددرجہ تکلیف دہ ہے۔ عوامی سطح پردونوں ممالک کارابطہ حددرجہ کم ہے۔ سرکاری طور پر صرف ایک بار، اسٹاف کالج کے توسط سے روس جانے کااتفاق ہوا ہے۔ میرے پاس سرکاری نیلا پاسپورٹ تھا۔ جب ہمارا گروپ ماسکوایئرپورٹ پہنچاتوشام ہوچکی تھی۔ ہم آٹھ سرکاری افسر تھے۔ اپنا پاسپورٹ، جب شیشے کے ڈبے یعنی امیگریشن افسرکودیاتوانتہائی مشکل صورتحال پیدا ہوگئی۔
خاتون نے محدب شیشہ سے میرا سرکاری پاسپورٹ چیک کیا۔ تسلی نہ ہونے پر فون کرکے دوسرے افسرکو پاسپورٹ چیک کرنے کے لیے بلایا۔ موصوف نے خصوصی آلہ سے میرا سرکاری پاسپورٹ تقریباًدس منٹ چیک کیا۔ پھر ایک تیسرا بندہ آیا۔ اس نے پوچھناشروع کر دیا کہ ہم لوگ کون ہیں اورروس کیوں آئے ہیں۔ انھیں پوری تفصیل بتائی۔ مگرانکی تسلی نہ ہوپائی۔ آدھ گھنٹہ کی پوچھ گچھ کے بعدبہرحال ہمارے گروپ کوباہر جانے کی اجازت دی گئی۔ راہداری میں پاکستانی سفارت خانے کاایک افسراستقبال کے لیے آیاہوا تھا۔ اسے یہ صورتحال بتائی تواس کاجواب ہوش ربا تھا۔
پاکستان کے سرکاری پاسپورٹ پرروس آنے کے لیے ویزہ کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک افغانی نے، پاکستان کے جعلی سرکاری پاسپورٹ بنانے کے لیے دبئی میں فیکٹری لگارکھی ہے۔ ایک پاسپورٹ دس لاکھ کابیچتا ہے۔ دبئی کی حکومت کوعلم ہے اور پاکستان کی وزارت داخلہ کو بھی۔ اکثر افغانی، پاکستان کاسرکاری پاسپورٹ خریدتے ہیں اور اس پرروس داخل ہوجاتے ہیں۔ پھرمختلف ایجنٹ، انھیں یورپ کی طرف لیجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کوئی افسانہ نہیں ہے۔ یہ وہ اَمرہے جو آنکھوں سے دیکھا ہے۔ چارسال پہلے کی بات ہے۔ اب کیا حالات ہیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگرجس ملک کے سرکاری پاسپورٹ کی یہ حقیقت ہوگی، اس سے آپ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی گرمجوشی کااندازہ لگا سکتے ہیں۔ ماسکومیں دس بارہ میٹنگزمیں جانے کااتفاق ہوا۔ مجھے کسی قسم کے خوشگوارجذبات نظرنہیں آئے۔
روس اورہماراملک کیاایک گروپ میں آچکے ہیں یاآسکتے ہیں۔ شواہدکے مطابق روس، ہمارے ساتھ نہیں بلکہ ہندوستان کے ساتھ زیادہ گہرے تعلقات رکھتا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ روس اپنے مالیاتی فائدہ کے لیے گوادرکی بندرگاہ استعمال کرناچاہتاہے اوراس میں کسی قسم کاکوئی حرج بھی نہیں۔ مگریہ کہہ دیناکہ ایک نیاالائنس ترتیب دیاجاچکاہے۔ جس میں پاکستان اور روس دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ کم ازکم طالبعلم کوبعیدالقیاس محسوس ہوتاہے۔ اگریہ سچ ہے توآج تک اس کے عملی شواہدسامنے کیوں نہیں آرہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیاروس، ترقی کی اس سطح پرہے جس پریورپی مغربی ممالک اورامریکا ہے۔ اس کاجواب مکمل طورپرنفی میں ہے۔
(جاری ہے)
روس ہرلحاظ سے ترقی یافتہ ممالک سے کافی پیچھے ہے۔ روس کی پاکستان کے ساتھ کیاقدرمشترک ہے۔ اس پرکیابحث کی جائے۔ کیونکہ ایساکوئی معاملہ ہے ہی نہیں۔ مگرہمارے چند دانشور، وہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں، جوکم ازکم عام فہم انسان نہیں دیکھ سکتا۔ شائدوہ عدم وجودکے معاملات کو بھی کامیابی سے پرکھ سکتے ہیں۔ اورہم جیسے فانی انسان، صرف تحقیقی ثبوت تلاش کرتے رہتے ہیں۔ بہرحال طالبعلم کواس نئی صف بندی کاکچھ علم نہیں ہے۔ سمجھ بھی نہیں آرہا۔ اگرکوئی دانشورسمجھادے تواپنی کم علمی فوری طورپرتسلیم کرلونگا۔ مگرکوئی سمجھائے توسہی!(جاری ہے)