Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Kya Siyasi Nizam Itna Dabao Bardasht Kar Sakta Hai?

    Kya Siyasi Nizam Itna Dabao Bardasht Kar Sakta Hai?

    1977 کاالیکشن ذوالفقارعلی بھٹونے وقت سے پہلے کروایا۔ قانونی مدت کے مطابق یہ1977کے آخرمیں ہونے تھے۔ مگروزیراعظم بھٹوسات جنوری کوٹی وی پرآئے اورجلدالیکشن کااعلان کردیا۔ پورے ملک میں حددرجہ متحرک سیاسی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔

    مارچ میں ہونے والے وفاقی اورصوبائی الیکشن میں حکمران، پاکستان پیپلزپارٹی نے واضح اکثریت حاصل کی۔ اپوزیشن یعنی پی این اے نے دوسومیں سے صرف چھتیس نشستیں حاصل کیں۔ جب کہ بھٹوکو 155 سیٹیں مل گئیں۔ پی این اے نے الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔ اصغر خان نے اپنی تقریرمیں کہاکہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔

    اس کے بعدپی این اے نے انتہائی منظم تحریک چلائی۔ ان کی شرائط تھیں کہ دوبارہ الیکشن کروائے جائیں اوریہ سب کچھ سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہو۔ پورے ملک میں جلسے، جلوس، ہڑتالیں شروع ہوگئیں۔ کئی علماء نے فتویٰ دیاکہ بھٹوکی حکومت کے خلاف جدوجہدجہادکادرجہ رکھتی ہے۔ لوگوں کے لیے ایک مذہبی نعرہ تخلیق کیاگیا۔ ہرکوچہ وگلی میں کشیدگی پھیل گئی۔ پی این اے کی مزاحمتی مہم سے ملک کو 765ملین ڈالرکانقصان ہوا۔ برآمدات میں پنتیس فیصدکمی آگئی۔

    انتہائی مشکل دورمیں مذاکرات کاڈول ڈالاگیا۔ بھٹواورپی این اے کے مذاکرات ہوئے۔ افہام وتفہیم ہونے کے نزدیک تھی کہ بھٹوایک مکمل طورپر غیرضروری غیرملکی طوفانی دورے پرروانہ ہوگئے۔ آج تک معلوم نہ ہوسکاکہ اتنے نازک موقعہ پرباہرکیوں چلے گئے۔ ضیاء الحق نے ملکی کشیدہ حالات کافائدہ اُٹھا کرپانچ جولائی کومارشل لاء لگادیا۔ جلسے جلوس دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سیاسی نعرے ہوامیں گم ہوگئے اور قوم مارشل لاء کی گرفت میں آگئی۔ وہ عدم استحکام جو سیاسی پارٹیوں نے خودپیداکیاتھاوہ عنصرانکوبھی لے ڈوبا۔ سب کاسیاسی نقصان ہوا۔ ضیاء الحق نے ملک کے ساتھ کیامظالم ڈھائے، وہ سب کچھ تاریخ کاحصہ ہیں۔

    بالکل اسی طرح1997کاالیکشن غورسے دیکھیے۔ نوازشریف کوایک سوسینتیس نشستیں ملیں۔ جب کہ بینظیربھٹوصرف اٹھارہ نشستیں حاصل کرسکیں۔ محترمہ نے وضاحت سے اعلان کیاکہ الیکشن میں زبردست دھاندلی ہوئی ہے۔ پولنگ اسٹیشن پرتعینات عملے نے ڈبوں میں مسلم لیگ کے اُمیدواروں کے حق میں ووٹ بھرے ہیں۔ دھاندلی کے الزامات کے تحت بین الاقوامی مبصرین نے اس الیکشن کو"Free and Fair" تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔ نوازشریف بھاری اکثریت سے وزیراعظم بنے۔ ان کے سامنے کوئی سیاسی مسئلہ نہیں تھا۔

    مگر اداروں سے چپقلش ایسی شروع ہوئی۔ جس سے ملک میں شدیدعدم استحکام پیداہوگیا۔ اس اندرونی خلفشار نے ملک کوکھوکھلاکرڈالا۔ نتیجہ وہی نکلاجوہمارے جیسے ملک کی قسمت میں ہوتا ہے۔ 12اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے ملک پرقبضہ کرلیا۔ پھرسیاسی چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ جمہوری عمل کوحددرجہ نقصان پہنچا۔ گزارش صرف یہ ہے کہ ملکی عدم استحکام کی جوبھی وجوہات ہوں، اسکافائدہ کبھی بھی سیاسی قوتوں کونہیں پہنچتا۔ جمہوری عمل روکنے سے سیاسی حقوق بہتے پانی کے بجائے ٹھہرے ہوئے غلیظ جوہڑمیں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی جمہوری پارٹی کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا۔

    مسئلہ دوبارہ ایساہی کھڑاہوچکاہے۔ 2018کے الیکشن کانتیجہ چندسیاسی عناصرنے فی الفور مسترد کر دیا۔ پی ٹی آئی کو149نشستیں ملیں اورمسلم لیگ صرف 82 سیٹیں حاصل کرسکی۔ پیپلزپارٹی نے54نشستیں حاصل کیں۔ مگرالیکشن کے بعداپوزیشن نے اس پورے الیکشن پرسوالیہ نشان لگادیا۔ فضل الرحمن صاحب اپنی سیٹ ہار گئے اورانھوں نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے باوجودمسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی اسمبلیوں میں گئے اوراسطرح انھوں نے بلاواسطہ الیکشن کے نتائج کوعملی طور پرقبول کرلیا۔ 2020تک یہ معاملہ ایسے ہی چلتا رہا۔ 2020میں پی ڈی ایم کی بنیادپڑگئی۔

    وہی روایتی احتجاج، جلسے، جلوس، ہڑتالیں شروع ہوگئے۔ اسی دوران میں سینیٹ کاالیکشن آگیا۔ جس میں پی ڈی ایم نے انتہائی کامیاب حکمتِ عملی سے سابقہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کواُمیدواربنادیا۔ وزیریامشیرخزانہ حفیظ شیخ جو حکومتی اُمیدوارتھے، کوشکست ہوئی۔ پی ٹی آئی جو حکومتی پارٹی ہے، اس نے الزام لگایاکہ اس الیکشن میں ممبران کی خریدوفروخت ہوئی۔ مگراس کے ناقابل تردیدثبوت ابھی تک سامنے نہیں لائے گئے۔ دوچارویڈیوضرورٹی وی پر آئے مگراس سے حتمی نتیجہ اَخذکرناقدرے مشکل ہے۔ مگراس ایک سیٹ پرپی ڈی ایم کی جیت نے پورے سیاسی نظام کی ترتیب بدل ڈالی ہے۔ اس مرحلہ پرعمران خان نے ایک حیرت انگیزفیصلہ کیاکہ وہ"اعتماد کا ووٹ" حاصل کریں گے۔ جب یہ کالم پڑھ رہے ہونگے۔

    یعنی اسی دن، وزیراعظم اعتمادکا ووٹ اسمبلی سے حاصل کر رہے ہونگے۔ یہ غیرمعمولی فیصلہ ہے۔ اس میں جیتنے سے وزیراعظم حددرجہ مضبوط ہوجائینگے۔ اوراگر اعتمادکا ووٹ حاصل نہ کرسکے، توسیاسی معاملات بہت زیادہ بگڑ سکتے ہیں۔ عمران خان بطوروزیراعظم شایدموثرثابت نہیں ہوپائے۔ مگربطورلیڈرآف اپوزیشن وہ حددرجہ خطرناک اورموثرثابت ہوسکتے ہیں۔ قومی اسمبلی کوتحلیل کرنے کاآپشن بھی ان کے پاس قانونی طورپر موجود ہے۔ آگے کیاہوگا۔

    اس پرقطعی طورپرکچھ بھی کہناممکن نہیں۔ اگرعمران خان اعتمادکاووٹ حاصل نہیں کر پائے، توکیاپی ڈی ایم مضبوطی سے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔ کیاپی ڈی ایم کے پاس وزیراعظم کی نشست کے لیے کوئی ایسااُمیدوارموجودہے جس پرتمام سیاسی جماعتوں کاسیاسی اجماع ہو۔ کیازرداری صاحب، وزارتِ عظمیٰ پلیٹ میں رکھ کرمسلم لیگ کے حوالے کردینگے۔ کیامسلم لیگ ن کے پاس کوئی ایسی سیاسی شخصیت ہے جو پیپلز پارٹی کے تابع چلنے کے لیے تیارہو۔ مولاناصاحب کیونکہ اسمبلی کاحصہ ہی نہیں ہیں۔ لہٰذاوہ کیاچاہینگے۔ انکافائدہ کس میں ہوگا۔ یہ تمام سنجیدہ سوالات ہیں جسکے جواب فی الحال تلاش نہیں کیے جاسکتے ہیں۔

    عمران خان کوبھی سوچناچاہیے کہ بطوروزیراعظم وہ عوامی توقعات پرکیوں پورے نہیں اُترپائے۔ کثیرالجماعتی اتحادہمیشہ غیرفطری ہوتاہے۔ تمام اتحادیوں کومطمئن رکھنا کسی بھی وزیراعظم کے لیے ممکن نہیں۔ مگران مشکلات کے باوجود، ان کی گورننس عوامی سطح پرپذیرائی حاصل نہیں کر پائی۔

    مہنگائی کوانتظامی طورپرکنٹرول کرنے میں ناکامی نے انھیں سیاسی نقصان پہنچایا۔ انھوں نے منتخب شدہ لوگوں کواپنی ٹیم میں شامل کرنامناسب نہیں سمجھا۔ غیرمنتخب ممبران کی فوج کوکلیدی رول دیناحددرجہ متنازعہ فیصلہ ثابت ہوا۔ ان کے یہ مشیر ادنیٰ سطح کی سوچ لے کرسامنے آئے۔ کیونکہ وہ عوام کے سامنے جوابدہ نہیں تھے اور نہ ہیں، توان تمام مشیران نے وہ احساس ذمے داری نہیں دکھائی، جوایک منتخب وزیرکاوطیرہ ہوتاہے۔ ایک اوراہم نکتہ بھی بیان کرناضروری ہے۔ افسروں کی سرکاری غلطیوں کو فوجداری مقدمات میں تبدیل کردیاگیا۔

    اس کے بعد، آج تک، خان صاحب، سرکاری افسروں کااعتمادحاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوپائے۔ یہ درست ہے کہ انھیں گورنس کوکوئی تجربہ نہیں تھا۔ مگران کی سرکاری افسروں کی ٹیم کی سلیکشن ہمیشہ سوالیہ نشان رہی ہے۔ افسران کو خان صاحب نے اتنے کلیدی عہدے دے ڈالے، کہ باغ ہی اُجڑگیا۔ وہ تمام افسران جون لیگ کے دورمیں معتوب قراردیے۔ عمران خان سے وہ احکامات صادر کر والیے گئے، جس سے سرکاری ملازم ان سے دوربھاگنے لگے۔ آج بھی یہ صورتحال کسی نہ کسی طرح موجود ہے۔ اب کیونکہ حکومت کے پاس وقت کم ہے اوران کی سیاسی مشکلات میں اضافہ دراضافہ ہورہاہے، لہٰذااس معاملہ پرکچھ بھی کرناان کے لیے آسان نہیں ہے۔

    دائروں کادائمی سفرجاری وساری ہے۔ کوئی سیاستدان بھی اپنے ذاتی مفادات سے آگے دیکھناگناہِ کبیرہ سمجھتاہے۔ کسی کے پاس بھی کوئی ایساجامع منصوبہ نہیں ہے کہ ملکی مسائل کواحسن طریقہ سے حل کر سکے۔ اوپرسے نیچے تک افراتفری اورادنیٰ ماحول ہے۔ آنے والے دنوں میں سیاسی کشیدگی میں حددرجہ اضافہ متوقع ہے۔ معاملہ اتناآگے بڑھ سکتاہے کہ ملک ماضی کی طرح عدم استحکام کاشکارہوجائیگا۔ یہاں حددرجہ سنجیدہ سوال اُٹھتاہے کہ کیاہماراموجودہ سیاسی نظام اتنادباؤ برداشت کرسکتاہے؟