ملک میں چند ہی ادارے مقامی طور پر گاڑیاں بناتے ہیں اس لیے لوگوں کے پاس چوائس محدود ہے، پاکستان میں زیادہ تر اسمبلنگ کا کام ہوتا ہے۔
تقریباً تمام کارساز ادارے منافع کما رہے ہیں، اس کا مطلب یہ لوگ مقامی گاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں، جو ایک مثبت بات ہے، قوانین اور ضوابط کے مطابق کاروبار کرنا اور منافع کمانے میں کوئی حرج نہیں ہے، دین میں بھی اس کی ممانت نہیں ہے مگر کاروبار یا دولت مند بننے کے لیے نظام کو استعمال کرنا بہرحال نامناسب امر ہے۔
میں نے احتیاطً نامناسب کا لفظ استعمال کیا کیونکہ جن ریاستوں میں رول آف لا ہوتا ہے، وہاں طاقتور سے طاقتور شخص، ادارہ یا گروہ سٹسم کو اپنے حق میں استعمال نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی ایسا سوچ سکتا ہے، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو زیادہ دیر چھپا نہیں رہ سکتا، قانون کسی نہ کسی وقت اپنا راستہ بنا ہی لیتا ہے، نظام کو اپنے مفاد میں استعمال کرنیوالے اور نظام کے کل پرزے عدالتوں میں کیس بھگتے اور جیل کی ہوا کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
پاکستان میں مڈل رینج کی نئی کار کی قیمت 35 لاکھ سے 52 لاکھ تک ہے۔ اپر کلاس کی سوار کا ذکر نہیں کررہا ہے کیونکہ انھیں قیمت کے کم یا زیادہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا، ویسے بھی وہ مہنگی گاڑیاں سستے داموں امپورٹ کرنے کا فن جانتے ہیں، ایک واقعے کا ذکر آگے جا کر کرتا ہوں۔
بھارت میں اپرمڈل رینج کار کی دہلی میں قیمت سولہ لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے اور بیس لاکھ انڈین روپے تک جاتی ہے۔ وہاں اس قمیت کی گاڑیوں میں تمام حفاظتی آلات موجود ہوتے ہیں، دیگر جدید لوازمات بھی ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اس رینج میں کئی چیز نہیں ہوتی۔ کسی پاکستانی حکومت نے کبھی کوئی مربوط اور شفاف آٹو پالیسی بنانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ پاکستان میں مختلف گاڑیاں بھارت سے کہیں زیادہ قیمت پر فروخت کی جا رہی ہیں، ایسا کیوں ہے؟ ان وجوہات کو جاننا ضروری ہے۔
اب میں وہ بات بتاتا ہوں جس کا اوپر میں نے ذکر کیا ہے، تقریباً دو سال پہلے ایک سیاستدان جو وفاقی وزیر بھی تھے نے نئی مہنگی جیپیں درآمد کی تھیں، اس کے لیے عارضی طور پر امپورٹ ڈیوٹی اور ٹیکس اتنے کم کر دیے گئے، یوں سرکاری خزانے کو کروڑوں کا ٹیکہ آسانی سے لگا دیا گیا۔ اسے کہتے ہیں نظام کو اپنے حق میں استعمال کرنا۔ آج ڈیوٹی کم کرنے کا ذمے دار وہ سابق بیورو کریٹ اور سابق وزیر صاحب سارا دن میرٹ اور ایماندارکی باتیں کرتے ہیں۔ بہر حال یہاں نہ کسی نے طاقتور کو پوچھنا ہے اور نہ ہی کسی کی اس میں کوئی دلچسپی ہے۔
دہاڑی دار سرکاری بابو اور سیاست دان ہر دور کی طرح پہلے بھی ایک دوسرے سے تعاون کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں۔ سنا ہے کہ وہ سابق سرکاری بابو، ملک سے جانے کے لیے پر تول رہا ہے۔ پاکستان سرمایہ دار اور حکومتی مشینری مل کر سرکاری خزانے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں، یہ ایک سنگین جرم کے زمرے میں آتا ہے لیکن طاقتور کے لیے ہمارا نظام بہت سے چور دروازے رکھتا ہے لہٰذا اس کی لوٹ مار بھی آخر میں قانونی کہلاتی ہے۔
معاملہ اگر صرف گاڑیوں کی بلند ترین قیمتوں تک رہتا تو بھی ٹھیک ہے لیکن مسلہ تو معیار کا بھی ہے، ہم لوہے کی نہیں بلکہ پلاسٹک اور ٹین کی گاڑیاں چلا رہے ہیں۔ یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھ لیجیے۔ کسی پرانی جرمن یا انگلش گاڑی پر ہلکی سے ضرب لگائیں، آپ کو اس کی مضبوطی کا احساس ہوگا لیکن، مقامی طور پر تیار کردہ گاڑی کو ہلکاسا مکہ ہی مار دیجیے، اس میں دو چار ڈینٹ ضرور پڑ جائیں گے۔ حادثہ کے دوران، حفاظتی ائر بیگ تک نہیں کھلتے۔
کیا آج تک کسی حکومتی ادارے نے اس جانب توجہ دی۔ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ریگولیٹر اور نجی شعبہ آپس میں"حسن سلوک"سے رہنا شروع ہو جائیں تو عوام کے مفاد تو گئے چولہے میں۔ عام آدمی کی پرواہ نہ کسی حکومت کو ہوتی ہے اور نہ ہی کسی ادارے کو۔ ہاں باتیں، تقاریر اور بھاشن تو خیر بنے ہی عام لوگوں کے لیے ہیں۔ فوائد اور مزے صرف اور صرف خواص تک ہی محدود ہیں۔
کار ڈیلرز کا بھی سن لیں۔ صارف سے کار کی مکمل قیمت پہلے وصول کی جاتی ہے۔ اس کے بعد زبانی کلامی کہا جاتا ہے کہ جناب آپ کی گاڑی، تین ماہ یا دو ماہ کی مدت میں آ جائے گی۔ مقررہ تاریخ پر اگر ڈیلر سے دریافت کریں تو جواب ہو گا کہ بس پندرہ بیس دن مزید لگیں گے۔ یہ وقت بڑھتے بڑھتے دو تین مہینے تک طویل ہو سکتا ہے۔ اب ذرا حساب لگائیں کہ صارف کے اس پیسے کو چھ ماہ تک کون استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر پورے ملک سے سوا ارب روپے ایڈوانس اکٹھے کیے گئے ہیں اور ان کو پانچ چھ ماہ خود استعمال کیا ہے تو اس کا ماہانہ مارک اپ یا منافع کروڑوں روپے بنتا ہے۔
یعنی پیسے کریداروں کے اور منافع کسی اور کا بلکہ منافع پلس منافع۔ ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ سے گزشتہ چار ماہ میں تو مکمل رقم کی ادائیگی کے باوجود خریداروں سے دوبار مزید رقم وصول کی گئی۔ صارف صبر کے سوا اور کیا کر سکتا ہے، پورے ملک میں ایک بھی ایسا فورم نہیں جہاں شکایت کی جا سکے۔ چند دن پہلے، ایک اہم خاتون سیاست دان سے چند آٹو انڈسٹری کے عہدیداروں سے ملاقات کی۔ اس کی تصاویر بھی اخبار میں شایع ہوئیں۔ اب پتہ نہیں کیا باتیں ہوئی ہوں گی، کاش انھوں نے کاروں کی بڑھتی قیمت پر بھی بات کی ہو، اگر آٹو انڈسٹری کے مسائل ہیں تو وہ بھی فوراً حل ہونے چاہیے تاکہ صارفین کے مفادات کا تحفظ ممکن ہوسکے۔
حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارا نظام انصاف بھی اس سے لاتعلق ہے، نیب جیسا ادارہ بھی خاموش ہے۔ اصولی طور پر تو آٹو انڈسٹری کی بات کو پوری توجہ سے سنا جائے، ان پر اگر بے جا ٹیکسز کی بھرمار ہے تو ان میں کمی ہونی چاہیے، ٹیکس پر ٹیکس کا کلچر مقامی صنعتوں کے لیے بہت سے مسائل پیدا کررہا، گاڑیوں کی قیمتیں جس سطح پر پہنچ گئی ہیں، وہ آٹو انڈسٹری کے لیے ہرگز اچھی نہیں ہے۔ اس صنعت سے ہزاروں ہنر مندوں اور دیگر شعبوں کے ملازمین کا روزگار وابستہ ہے، اسی طرح کار خریدنے والوں کے لیے مشکلات بڑھ چکی ہیں۔