کلیان سندرم تامل ناڈو کارہنے والا ہے۔ ایک برس کا تھا تو والد فوت ہو گیا۔ والدہ نے اسے اکیلے رہ کر پالا۔ کلیان کو صرف ایک بات بار بار سمجھاتی تھی۔ عام لوگوں کی مدد کرو، اور کبھی صلے کی پرواہ نہ کرنا۔ اس عظیم ہستی نے کلیان سندرم کی زندگی کی بنیاد بدل دی۔
عام سے بھی کمتر نظر آنے والا انسان، ایک ایسا دیو مالائی کردار بن کر ابھرا کہ پوری دنیا کو محبت اور خدمت کا سبق پڑھا دیا۔ نوجوانی ہی سے مختلف تھا۔ کالج میں تامل ناڈو زبان میں ایم اے کرنے کے لیے درخواست دے ڈالی۔ منفرد بات یہ تھی کہ اس زبان کا واحد طالب علم تھا۔
کالج انتظامیہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ صرف ایک شخص کے لیے، پورے ایک شعبہ کو فعال نہیں کیا جا سکتا۔ مگر کلیان کی ضد کے سامنے کالج انتظامیہ نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس کا شوق دیکھ کر فیس بھی معاف کر دی گئی۔
اس کے بعد کلیان نے لائبریری سائنس میں ایم اے کیا۔ تعلیم ممکن کرنے کے بعد وہ تامل ناڈو ہی میں ایک تعلیمی درسگاہ میں لائبریرین لگ گیا۔ اس میں ایک قدرتی خامی تھی۔ آواز حد درجہ عجیب و غریب سی تھی۔ اس میں گونج بہت زیادہ تھی جو بھی سنتا، تو ہنسنا شروع کر دیتا۔ مگر آواز نے اسے کسی احساس کمتری میں مبتلا نہیں کیا۔ بلکہ سبق سکھایا کہ زندگی میں اصل کام تو لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔ کسی بھی جگہ، کسی بھی سطح پر اور کسی بھی حال میں۔ کپڑے کیسے پہنتا ہے، دیکھنے میں کیسے لگتا ہے، یہ سب کچھ بے معنی ہے۔ کلیان کرتا کیا تھا، یہ جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔
مہینے کی پہلی تاریخ کو اسے تنخواہ ملتی تھی۔ تمام پیسے لے کر نادار بچوں اور عام لوگوں کی ضروریات پر خرچ کر ڈالتا تھا۔ اپنے اوپر ایک روپیہ بھی نہیں لگاتا تھا۔ حیرت انگز سچ یہ بھی ہے کہ ذاتی اخراجات پورے کرنے کے لیے معمولی سی دہری نوکری بھی کرتا تھا۔ کسی ہوٹل میں ویٹر بن جاتا تھا۔ ریلوے اسٹیشن پر جا کر لوگوں کا سامان ڈھونا شروع کر دیتا تھا۔
مزدوری کرنا شروع کر دیتا تھا۔ اپنے اخراجات اس حد تک کم کر لیے تھے کہ چھوٹے چھوٹے کام کرنے سے گزارہ ہو جاتا تھا۔ یہ کوئی ایک دو ہفتے یا سال کی بات نہیں۔ پوری زندگی کلیان اپنی تمام تنخواہ عام لوگوں کی بہتری کے لیے مختص کرتا رہا۔ اپنے اوپر تنخواہ کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا۔ ہاں، چھوٹے موٹے کام سے جو اسے پیسے ملتے تھے۔ ان میں سے بھی بچا کر وہ بہبود کے کام کرتا رہتا تھا۔
ایک بڑی قابل ذکر بات اوربھی ہے۔ غریب کی تکلیف محسوس کرنے کے لیے ا کثر خالی تھڑوں اور پلیٹ فارم پر سو جاتا تھا۔ کلیان دراصل ایک ایسا عظیم شخص تھا بلکہ ہے جوکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ غریب آدمی کے اصل درد کو محسوس کرنا سیکھ گیا تھا۔ اسی جدو جہد نے اس کو ایسے راستے پر گامزن کر دیا جو اصل میں انسانیت کی فلاح ہے۔ بغیر تفریق مذہب اور رنگ، ہر انسان کی مدد کرنے کا عظیم کام اس کی گٹھی میں پڑ چکا تھا۔ کلیان کو یہ سب کچھ کرتے ہوئے پینتالیس برس ہو چکے ہیں۔
اب وہ نوکری سے ریٹائر ہو چکا ہے۔ ریٹائرمنٹ پر اسے دس لاکھ ملے تھے۔ وہ بھی اس نے لوگوں کی بہتری کے لیے خرچ کر دیے۔ اپنی پینشن بھی ہر ماہ اس طرز پر خرچ کر دیتا ہے۔ کلیان کو چند برس پہلے، تیس کروڑ روپے انعام میں ملے تھے۔ اس نے وہ بھی خیرات کر دیے۔ تھوڑا عرصہ پہلے کلیان نے ایک این جی او بنائی ہے۔ جس کا نام پالم ہے۔ اس کا مقصد صرف اور صرف غریبوں کی مدد کرنا ہے۔ کلیان اب تہتر برس کا ہے اور آج بھی اس طرح کارخیر میں مصروف ہے۔
کلیان سندرم کی تصویر دیکھیں تو اس میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے کہ آپ معمولی سا بھی متوجہ ہوں۔ مگر اس کا کام دیکھیں تو رشک آتا ہے۔ انسانی عظمت کا ایک بلند مینار دکھائی دیتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں سے کوئی بھی کلیان سندرم بننے کے لیے تیار ہے۔ شاید ہاں اور شاید ناں۔ اردگرد دیکھتا ہوں تو ہر طرف ایک کہرام سنائی پڑتا ہے۔ ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے۔ پیسہ چاہیے۔
دولت میں اضافہ اور پھر مزید اضافہ چاہیے۔ یہ رجحان ہمارے ملک میں کسی ایک طبقہ تک محدود نہیں۔ بلکہ ہر شعبے کے نناوے فیصد لوگ دولت اور پیسہ کی بھٹی میں اپنی مرضی سے جل رہے ہیں۔ سیاسی میدان پر غور کیجیے۔ اب تو شرم آتی ہے۔ اتنے ادنیٰ لوگ اس میدان میں آ چکے ہیں کہ حیرانگی ہوتی ہے۔ الیکشن لڑنے سے لے کر اسمبلی میں جانے تک، وزیر مشیر وزیراعلیٰ یا وزیراعظم بننے تک۔ کسی جھجک کے بغیر مقصد اب صرف پیسے کمانا رہ گیا ہے۔ ہر سیاست دان کی بات نہیں کر رہا۔ اکثریت کے متعلق گزارش ہے۔
بے شمار ایسے سیاسی اکابرین کو جانتا ہوں۔ جو منہ سے فرمائش کرتے ہیں کہ کوئی کام ہے تو بتاؤ۔ آپ اس معاملے کو رہنے دیجیے۔ ذرا "ڈیولپمنٹ فنڈ" کی طرف آئیے۔ حکومت سے حلقے میں ترقی کرنے کا پیسہ۔ کسی بھی حلقے میں چلے جایئے۔ ٹھیکیداروں کی حکومت نظر آئے گی۔ سڑک، اسکول، اسپتال، گلیوں میں سولنگ، محلہ کی نالیاں بلکہ ہر سرکاری کام صرف مخصوص ٹھیکیداروں کو دیا جاتا ہے۔ یہ "گنی " لوگ لین دین میں کائیاں ہوتے ہیں۔ پنجاب میں اس ڈیولپمنٹ فنڈ سے تقریباً چالیس فیصد کے قریب خورد بر د کیا جاتا ہے۔
سندھ میں شاید اس سے نوے فیصد، اور بلوچستان میں کام کرنے کا رواج ہی نہیں۔ سارا فنڈ بڑے آرام سے ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے۔ کے پی میں بھی دگر گوں حالات ہیں۔ سند کے طور پر عرض کرونگا۔ گزشتہ تیس چالیس برسوں سے پاکستان کے ایم این اے، ایم پی اے کے حلقوں میں ترقی کے فنڈز کا تخمینہ لگایئے۔ پھر موقع پر خود جا کر دیکھیے۔ باخوبی گزارشات کا اندازہ ہو جائے گا۔
ایماندار سیاست دان وہ ہے جو کم کمیشن لیتا ہے۔ یہ لوٹ مار سرکاری ملازموں کے ساتھ مل کر کی جاتی ہے۔ سرکاری شعبوں میں ہر ماہ باقاعدگی سے رقم اکٹھی کر کے انتہائی ایمانداری سے اوپر سے نیچے تک تقسیم ہوتی ہے۔ اس کام میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی جاتی۔ اگر آپ وزیراعلیٰ یا وزیراعظم بن گئے، تو آپ کے خاندان اور دوستوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ سرکاری ملازموں اور سیاست دانوں کے اس ناپاک گٹھ جوڑ نے ہمارے پورے نظام کو قید کر رکھا ہے۔ بلکہ میں غلط لکھ گیا۔ اصل نظام ہی یہی ہے۔
خدمت خلق اور بھلائی کا نعرہ سارے لگاتے ہیں۔ کہتے بھی یہی ہیں کہ ہم سب کچھ عوام کی فلاح کے لیے کر رہے ہیں۔ مگر اس فلم کے نیچے ایک اصل پکچر چل رہی ہوتی ہے۔ اور اس کا عنوان صرف اور صرف کرپشن ہے۔ کسی کا نام نہیں لینا چاہتا۔ کیوں کہ اس کا فائدہ کوئی نہیں ہے۔ سیاسی شعبے پر تو تنقید ہوتی رہی ہے۔ مگر ہمارا سماجی شعبہ بھی حد درجہ انحطاط کا شکار ہے۔
انتہائی معتبر سماجی ادارے اندر سے کیا لوٹ مار کر رہے ہیں۔ بذات خود ایک ہوشربا داستان ہے۔ کرپشن میں سماجی اداروں کی واضح اکثریت حد درجہ نیک کام کرنے کی آڑ میں صرف اور صرف دولت کما رہی ہے۔ ایسے ایسے دلخراش واقعات ہیں کہ انسان کانپ جاتا ہے۔ ایک عجیب سی بات لکھنا چاہتا ہوں۔ پورے معاشرے میں ایک رجحان پنپ چکا ہے کہ فلاں کاروباری شخص یا فلاحی ادارہ، ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے۔ لنگر خانے پر ہر وقت رش لگا رہتا ہے۔
تھوڑا سا غور کیجیے۔ تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ یہ سارا کام ایک حکمت عملی کے تحت سرانجام ہوتا ہے تاکہ معاشی اور کاروباری مفادات کا تحفظ ہوتا رہے۔ مساجد و مدارس میں حد درجہ اچھے لوگ کام کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر ان میں چند ایسے لوگ ضرور موجود ہیں جو دولت کے انبار اکٹھے کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک دینی شخصیت کی وفات کے بعد ان کی اولاد میں لڑائی میں حادثاتی طور پر مرحوم کے خطیر اثاثے سامنے آ گئے۔
شاید کچھ زیادہ لکھ گیا۔ بہت سے لوگ ناراض ہو جائیں گے۔ مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ سچ لکھنا سب سے افضل کام ہے۔ یہ نہیں کہ ہمارا معاشرہ مکمل طور پر بنجر ہے۔ ہر گز نہیں، بہت سے اچھے لوگ موجود ہیں۔
جو خدمت خلق میں مصروف ہیں۔ مگر کلیان سندرم جیسا اچھا انسان بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس طرح کے لوگ جہاں بھی نظر آئیں ان کی قدر کیجیے۔ حوصلہ افزائی فرمائیے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ کلیان جیسے لوگ ہوتے بہت کم ہیں۔