سولہ اکتوبر 1934کو ماؤ زے تنگ اور ان کے ساتھیوں نے ایک تاریخی قدم اٹھایا۔ ایک ایسا کام، جس سے دنیا کی انسانی تاریخ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔ تقریباً ایک لاکھ افراد جس میں پینتس خواتین بھی شامل تھیں، پیدل چلنا شروع کیا۔
جیانگ سی صوبہ سے شروع ہونے والا یہ قافلہ مکمل طور پر بے سرو سامانی کا شکار تھا۔ پھٹے پرانے کپڑے اور عرصہ دراز سے نہانے کی عیاشی سے محروم یہ لوگ دنیا کی نئی تاریخ رقم کر رہے تھے۔ سامان ان مرد و خواتین نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔ قائدین کا بھی یہی حال تھا۔
کھانے کے لیے بھی کچھ خاص لوازمات نہیں تھے۔ جس دیہی علاقے سے گزر ہوتا وہیں سے معمولی کھانے پینے کا سامان لیا جاتا۔ راستہ اتنا دشوار اور طویل تھا کہ اکثر جگہ پر کوئی آبادی نہیں تھی۔ نتیجہ میں تمام قافلہ مٹی سے آلودہ جو اور اس کا آٹا، بغیر پانی کے منہ میں پھانک لیتے تھے۔ پینے کے لیے پانی بھی حد درجہ کم دستیاب تھا۔ اس کے علاوہ چینگ کائی شک کی فوج اس قافلے کے در پے تھی۔
حفاظت کے لیے ماؤ اور اس کے ساتھی صرف رات کو سفرکرتے تھے۔ ان کی مخالف نیشنل آرمی، جہاں موقع پاتی، انھیں فنا کرنے کے لیے گھات لگائے بیٹھی رہتی تھی۔ جا بجا، ان لوگوں پر ہوائی جہاز بمباری کرتے تھے۔ ساتھی مرتے رہتے تھے۔
مگر آزادی کا جذبہ اتنا مضبوط تھا کہ ماؤ اور ان کے ساتھی سفر جاری رکھتے تھے۔ نومبر میں یہ قافلہ ہسیانگ دریا (Hsiang) دریا کے نزدیک پہنچا۔ تو مخالف فوج نے ان پر شدید حملہ کر دیا۔ ماؤ کے پچاس ہزار ساتھی اس ہولناک جنگ میں مارے گئے۔ مگر پھر بھی یہ دیوانے لوگ باز نہ آئے ملک کا نظام بدلنے کا جنون اور عام آدمی کی بھلائی ان کی زندگی کا واحد مقصد تھا۔
لانگ مارچ کوئی ایک دو ہفتے طویل نہیں تھا۔ یہ 368دنوں میں اختتام پذیر ہوا۔ راستے میں چوبیس دریا اور اٹھارہ پہاڑوں کے سلسلوں کو عبور کیا گیا۔ ان کے پاس گاڑیاں، جیپیں یا بسیں نہیں تھیں۔ یہ حد درجہ تکلیف دہ سفر مکمل طور پر پیدل تھا۔ شانسی (Shensi) صرف اور صرف چار ہزار افراد پہنچ پائے۔ باقی تمام سفر کی صعوبتوں میں کام آ گئے۔ یہ بہادر مرد اور خواتین نو ہزار سات سو کلومیٹر کا سفر کر کے اپنی جدوجہد کو کامیاب کر گئے۔
جب یہ شانسی پہنچے، تو ان کے کپڑے مکمل طور پر پھٹ چکے تھے۔ بھوک کی وجہ سے ان کی پسلیاں اور ہڈیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ ان کے پیروں سے خون بہہ رہاتھا۔ مگر ان کے نحیف جسموں میں حیرت انگیز جذبہ تھا۔
چین کی حکومت کو بدلنے کا خواب، عام آدمی کو ملکی وسائل پر دسترس دینے کا جنون، گلے سڑے نظام کو تبدیل کرنے کا سنہرا خیال۔ لانگ مارچ کی کامیابی کی خبر پورے چین میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہزاروں نوجوان مرد اور خواتین، ملکی نظام بدلنے کے لیے ماؤ کے ساتھ مل گئے۔ ایک عظیم جدوجہد کا آغاز ہوا۔ اور تھوڑے ہی عرصے میں ماؤ نے ایک استعماری قوت کو عبرت ناک شکست دے ڈالی۔
ماؤ کا لانگ مارچ کوئی پھولوں کی سیج نہیں تھی۔ یہ انسانی برداشت کی انتہا کو آزمانے والی ایک مشق تھی۔ چھ ہزار میل کا خون آلود سفر تھا۔ غربت، بھوک، فاقے، مفلسی، موت ہر جگہ ان افراد کا مقدر تھا۔ مگر سوچیے کہ یہ لوگ کیوں اتنی مشکلات برداشت کرتے رہے۔
کیوں یہ مخالف افواج کی بمباری، فضائیہ کے ہولناک حملے اور بغیر خوف کے جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ یہ امیر ترین اشرافیہ کے خلاف سر بکف تھے۔ پرانے چین کے دولت مندوں سے خوف نہ کھانے والے لوگ تھے۔ یہ اپنے ملک کے غریب ترین لوگ تھے۔
ان کے پاس کوئی جائیداد، کوئی بینک بیلنس اور غیر ممالک میں کسی قسم کی کوئی جائیداد نہیں تھی۔ مگر ان کے پاس صرف ایک جذبہ تھا۔ نظام کو تبدیل کرنے کا طاقتور خواب۔ اس کے علاوہ وہ ہمت تھی جو ان کے قائدین ہر وقت بڑھاتے رہتے تھے۔ ہاں ایک اور بات۔ اس خونی قافلے کے قائدین یعنی ماؤاور چو این لائی اپنے ساتھیوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔
تمام لوگ، یکساں ہو کر ننگے پتھروں پر نیند پوری کرتے تھے۔ اگر بھوک تھی تو سب کے لیے یکساں تھی۔ یہ نہیں، کہ قائدین عمدہ کھانا اور دعوت اڑا رہے ہوں اور باقی لوگ نانِ جویں پر گزارا کر رہے ہوں۔ ہرگز نہیں۔ ماؤ اور چو این لائی وہی گرد آلود جو کا خشک آٹا کھاتے تھے، جو ان کے عام ساتھی کھا رہے تھے۔
مارچ کے قائدین کے لیے کسی قسم کی کوئی آرام دہ سہولت موجود نہیں تھی۔ یہ بنیادی وجہ تھی کہ ماؤ کے ساتھی، اس پر جان قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ ذرا غور کیجیے۔ ایک لاکھ میں سے صرف چار ہزار لوگ بچے۔ باقی چھیانوے ہزار لوگ، اپنے افکار کے حصول کے لیے رزق خاک ہوئے۔
آج کل لانگ مارچ کا لفظ ہر دم، ہر گھڑی اورہر لمحہ استعمال ہو رہا ہے۔ بلکہ پہلے بھی ہوتارہا ہے۔ ماضی میں بھی ملکی سطح کے سیاست دان اس اصطلاح کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ بڑے بڑے جلسے اور جلوس نکلتے رہے ہیں۔
ماضی میں تو یہاں تک بتایا جاتا ہے کہ خان عبدالقیوم خان کا جلسہ اتنا طویل تھا کہ اس کا آگے والا حصہ پنڈی میں تھا اور پیچھے والا حصہ پشاور میں تھا۔ بالکل اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف، اصغر خان اور نو ستاروں کے جلسے جلوس بھی دیدنی تھے۔ خود بھٹو کے جلسے حد درجہ بڑے اور جذباتیت سے معمور ہوتے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا ٹرین مارچ یا لاہور کا تاریخی استقبال بھی فقید المثال تھا۔ یہ عوامی تائید کے بھرپور مظاہر تھے۔
ہر ایک بڑا سیاسی لیڈر اپنے اپنے سیاسی قد کاٹھ کے حساب سے لوگوں میں جوش پید ا کرتا رہا ہے۔ پی این اے کا ملتان کا جلسہ یاد ہے۔ کوئی دو تین ہزار لوگ تھے۔ حامد علی خان آگے آگے تھے۔ مگر عجیب امر یہ بھی تھا کہ بی بی سی کے نمایندے اس چھوٹے سے جلسے کو بھٹو کے خلاف ایک ریفرنڈم قرار دے رہے تھے۔ مارک ٹیلی، ایک خاص نقطہ نظر سے مشغول تھا۔ نہ نو ستارے رہے اور نہ ہی بھٹو، سب اپنا اپنا کردار نبھا کر تاریخ کے صفحوں میں گم ہو گئے۔
کوئی ہیرو بنا اور کوئی سازش کا گھناؤنا کردار ٹھہرا۔ خیر یہ توپرانی بات ہے۔ موجودہ دور کی بات کرتے ہیں۔ ویسے طالب علم اسے کوئی اہم سیاسی یا غیر سیاسی دور نہیں گردانتا۔ یہ ذاتی اغراض، مفادات اوراقتدار پر قبضہ کرنے کی پریڈ ہے۔ کسی قسم کی اخلاقیات یا بلند تر مقاصد سے عاری۔ اس دوڑ میں سب شامل ہیں۔
گزشتہ چند دنوں سے کراچی سے شروع ہو کر ایک لانگ مارچ کا واویلا ہے جو اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوا۔ بالکل اسی طرح دو دنوں سے ایک اور مارچ شروع ہوا ہے۔ جو لاہور سے دارالحکومت کی طرف رواں دواں ہے۔ بالکل اسی طرح کے پی سے اسلام آباد بھی مارچ ہو رہا ہے۔
عمران خان بھی بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیوں ہے اور ان کے مقاصد کیا ہیں۔ اقتدار کی جنگ تو خیر ہے ہی، مگر لانگ مارچ کے لفظ کو استعمال کرنے کی کوشش ادنیٰ ہے۔ ان قائدین میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ہے جسے معلوم ہو کہ لانگ مارچ کیا ہے۔ یہ کتنا انسانی خون مانگتا ہے۔ یہ زمین کو اپنے لہو سے رنگین بنانے کا نام ہے۔
ہمارے سیاسی قائدین اور ان کی آل اولاد، خون تو کیا کسی کوبخار تک دینے کے روادار نہیں ہیں۔ ٹی وی پر لانگ مارچ کرنے والوں کا ٹرک دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ بم پروف ٹرک، یعنی اپنے آپ کو محفوظ سے محفوظ تر کرنے کی کوشش۔ کیا چین کے لانگ مارچ میں شامل ہونے والے بہادر لوگ موت سے ڈرتے تھے۔ بالکل نہیں۔ اپنے عظیم مقاصد کو کامیاب ہی انھوں نے اپنے خون سے کیا تھا۔ ٹرک کے اندر کے معاملات اور بھی پرتعیش ہیں۔
ایئرکنڈیشن بیڈ روم، جدید ترین باتھ روم، آراستہ ڈرائنگ روم، مہنگے ترین کھانے پینے کا انتظام اور معلوم نہیں کیا کیا آرام کا سامان کار۔ کیا سیاسی جدوجہد کرنے والے لیڈر ایسے ہوتے ہیں۔
کیا وہ ایسے آراستہ پیراستہ نظام میں جدوجہد کرتے ہیں۔ صاحبان کیا عرض کروں اور کیا نہ کروں۔ ایسے لانگ مارچ ایک جلوس تو ہو سکتا ہے۔ مگر ایک عظیم سیاسی جدوجہد نہیں۔ ویسے اگر ماؤ یا چوان لائی، پاکستان کے موجودہ جلسوں اور لانگ مارچ دیکھنے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے واپس آ جائیں تو وہ عظیم لیڈر اپنی سادگی اور پاکستانی سیاستدانوں کی شاطری پر قہقہے لگائیں گے۔