انیس سو ساٹھ کی دہائی میں ڈویژنل پبلک اسکول بہرحال موجود تھا۔ زرعی یونیورسٹی کے سامنے والی سڑک پر کافی بڑی کوٹھی میں وقوع پذیر تھا۔ اس جگہ کو بڑا تو کہا جا سکتا ہے مگر بہت بڑا کہنا کافی مبالغہ آرائی ہوگی۔
کرائے کی کوٹھی میں بھی ڈسپلن غیر معمولی تھا۔ خواتین ٹیچرز بچوں کی تعلیم و تربیت پر کافی توجہ دیتی تھیں۔ ایک دن گھنٹی بلکہ گھڑیال بجا۔ تمام بچوں کو حکم دیا گیا کہ قطاریں بنا لیں۔ نئے اسکول جانا ہے۔ اس وقت لباس خاکی نیکر اور شاید سفید یا نیلی قمیض ہوا کرتی تھی۔ ہر کلاس کی قطار کے ساتھ، ٹیچر انچارج بھی موجود تھی۔ تھوڑی دیر سیدھے سیدھے پیدل چلے۔ دس منٹ کی طوالت پر اسکول کی نئی بلڈنگ نظر آ گئی۔ میں نے دو تین مرتبہ آنکھیں ملیں۔ ایک بار چٹکی بھی کاٹی کہ کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ اتنی بڑی عمارت، جونیئر اور سینئر سیکشن کا طلسم ہو شربا اور حد درجہ وسیع و عریض کھیلنے کے میدان۔ بالکل یقین نہ آیا کہ ہمارا اپنا اسکول اتنا شاندار اور کشادہ تر ہو چکا ہے۔ ہماری قطار جونیئر سیکشن چلی گئی۔
وہاں پانچویں تک کی کلاسیں تھیں۔ یا شاید چھٹی تک۔ بہرحال عرض کرتا چلوں کہ میں کبھی بھی بچگانہ ذہن کا مالک نہیں تھا۔ ایک مشہور یونانی فلسفی نے کہا تھا کہ "جب میں پیدا ہوا، تو اس وقت بھی کافی بوڑھا تھا۔ " یہ فقرہ مکمل طور پر تو میرے اوپر فٹ نہیں بیٹھتا مگر یہ ضرور تھا کہ میں اوائل عمری میں بھی ایک بچہ نہیں تھا۔ تیسری یا چوتھی کلاس میں ڈائجسٹ پڑھنا شروع کر دیا تھا۔
ساتھ ساتھ جناح کالونی کی آنہ لائبریری سے امیر حمزہ کی تمام کہانیاں بلکہ کتابیں نظر سے گزر چکی تھیں۔ مختلف ناول سیریز بھی پڑھنی شروع کر دی تھیں۔ کئی کتابیں ایسی تھیں جو مکمل طور پر سمجھ میں نہیں آتی تھیں، مگر پڑھتا ضرور تھا۔ گزارش ہے کہ بچپن بلکہ بہت ہی بچپن سے پڑھنے کے عشق نے میری ذہنی عمر کافی زیادہ کر دی تھی۔ یہ قصہ پارینہ ہے۔ اس کو یاد رکھنا بھی مشکل ہے اور بھول جانا بھی ناممکن ہے۔
ڈویژنل پبلک اسکول میں حد درجہ محنتی اور باوقار خواتین ہماری اساتذہ تھیں۔ ایک دن، تیس منٹ کی بریک میں کلاس کے بچے نے مجھے زور سے مکہ مارا۔ میرے دو دانت ٹوٹ گئے۔ کافی خون نکلا، روتا روتا باتھ روم چلا گیا۔ پانی کی کلیاں کرنے سے بھی خون رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ کلاس ٹیچر کو پتہ چلا، تو فوراً اسکول ڈسپنسری لے گئیں۔ وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ ہونٹ بھی پھٹ گیا تھا اور دانت بھی ٹوٹ چکے تھے۔ خیر گھر جا کر کسی کو نہیں بتایا۔ اگلے دن سائیکل پر اسکول پہنچا تو ہیڈ مسٹرس کا پیغام ملا کہ آدھی چھٹی کے وقت دفتر پہنچ جاؤ۔ کافی ڈر لگا کہ مجھے آخر کیوں بلایا گیا ہے۔
جب ان کے دفتر پہنچا تو وہی لڑکا جس نے میرے چہرے پر مکہ مارا تھا۔ دفتر کے باہر کھڑا ہوا تھا۔ میڈم دفتر سے باہر آئیں۔ حکم دیا کہ جس طاقت سے اس طالب علم نے گھونسہ مارا ہے۔ اسی قوت سے اس کے چہرے پر مکہ مار کر اس کے دانت توڑ دوں اور ہونٹ بھی اس طرح پھاڑ دوں۔ میڈم کو گزارش کی کہ میں مکہ نہیں مارونگا۔ مگر وہ خاتون آگے بڑھیں۔
زور سے گھونسہ اس طالب علم کے چہرے پر مارا۔ وہاں سے خون کے فوارے ابل پڑے۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہ زخمی طالب علم کون تھا۔ وہ ہیڈ مسٹرس صاحبہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اپنے بیٹے کو سزا دیتے وقت میڈم کی آنکھوں میں کوئی رحم یا ترس کم از کم مجھے محسوس نہیں ہوا۔ صاحبان خرد، یہ تھا اسکول کا نظم و ضبط اور برابری کا ماحول۔
جونیئر اسکول میں سالانہ ڈراما ہوتا تھا۔ جسے دیکھنے کے لیے والدین، سینئر سیکشن کے طلباء، انتظامیہ کے افسران اور دیگر اہم لوگ آتے تھے۔ میڈم طلعت میری کلاس ٹیچر تھیں۔ اس ڈرامے کا مرکزی کردار ایک بندر تھا۔ میڈم نے مجھے وہ کردار دے دیا۔
بندر کا ہی لباس سلوایا گیا۔ جس کی لمبی دم تھی۔ مجھے ڈائیلاگ رٹا دیے گئے۔ صرف ایک فقرہ یاد رہ گیا ہے جو ہر دو تین منٹ کے بعد ادا کرنا ہوتا تھا۔ "میری بلا سے، تیری بلا سے۔ " پورا فقرہ یاد نہیں آ رہا۔ جس دن سالانہ فنکشن تھا تو میں نے گراؤنڈ میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ بلکہ کبھی کبھی ہاتھ سے دم بھی ہلا دیتا تھا۔ قہقہوں کا ایک طوفان برپا تھا۔ ناظرین میرے ڈائیلاگ اور جملے سن کر ہنس رہے تھے۔ آج یہ لکھ رہا ہوں تو اپنے آنسو روکنے بڑے مشکل ہو گئے ہیں۔ شاید آنکھوں کی جھڑی کو روکنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
بہر حال اس ڈرامہ میں بندر کا کردار کرنے کے بعد اسکول نے انعام میں کچھ کتابیں بھی دی تھیں۔ میڈم طلعت کا چہرہ آج تک ذہن پر نقش ہے۔ اسی طرح میڈم چوہدری، میڈم خان بھی ذہن کے ہر خانے میں نقش ہیں۔ میڈم چوہدری کے دونوں بیٹے اظہر اور عامر آج بھی میرے دوست ہیں۔ اس تعلق کو پچاس برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ میڈم خان بڑے ٹھسے والی خاتون تھیں۔ دراز قد اور اکثرساڑھی زیب تن فرماتی تھیں۔ حد درجہ سخت مزاج مگر اپنے طالب علموں کو شدید محنت کروانے والی عظیم خاتون۔ انھیں دیکھ کر تمام طلباء تتر بتر ہو جاتے تھے۔
مسز خان کے غصے میں بھی صرف اور صرف طلباء کی بہتری کا زاویہ ہوتا تھا۔ آج کل کے اسکولوں کے ماحول کا کچھ نہیں پتا۔ بتایا جاتا ہے کہ بڑی تعلیمی درسگاہوں میں بچے، اساتذہ کو کہتے ہیں کہ ہم آپ کو اسکول فیس، تنخواہ کے طور پر دیتے ہیں۔ آپ کی حیثیت تو ملازم جیسی ہے۔ یہ الفاظ لکھتے ہوئے بھی دل کانپ رہا ہے۔
بلکہ روح لرز رہی ہے کہ کیونکر ایک طالب علم، اپنے علمی والد یا والدہ کے سامنے اتنے ادنیٰ الفاظ ادا کر سکتا ہے۔ استاد تو "اقراء" کی تصویر ہوتا ہے۔ علم کو نئی نسل میں منتقل کرتا ہے۔ اس کا درجہ تو پیدا کرنے والوں سے بھی بلند ہے۔ شاید زمانہ بدل گیا اور میں نہیں بدل پایا۔ یا شاید بدلتے ہوئے ادنیٰ سماج کا حصہ نہیں بن پایا۔
ہاں ایک اور بات۔ آدھی چھٹی کے وقت ہمیں اسکول کے میس میں لے جایا جاتا تھا۔ ہر بچے کو لازمی دودھ پینا ہوتا تھا۔ مجھ سمیت، کئی بچے دودھ پینے سے کتراتے تھے۔ مگر میس کے ملازمین اور ٹیچر، ہمارے سر پر کھڑے ہو کر دودھ پلاتے تھے۔ میں کرتا یہ تھا کہ ناک بند کر کے دودھ کا گلاس غٹا غٹ پی جاتا تھا۔ کسی بھی طالب علم کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ انکار کر سکے۔
بالکل اسی طرح۔ ایک دن اسکول کی ڈسپنسری لے جاتا تھا۔ وہاں مختلف بیماریوں کے متعلق حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب خود ٹیکے لگاتے تھے۔ انتہائی شفیق انسان تھے۔ ڈھلی ڈھالی پتلون کے ساتھ گیلس استعمال کرتے تھے۔ عینک ہر وقت ناک پر براجمان رہتی تھی۔ یاد ہے کہ چیچک کے انجکشن میں آٹھ دس چھوٹی چھوٹی نوکیلی سوئیاں سی ہوتی تھیں۔ جیسے ہی بازو میں لگتی تھیں تو شدید چبھن کا احساس ہوتا تھا۔ کئی بچے رونا شروع کر دیتے تھے۔ میرے بائیں بازو پر آج بھی ان ٹیکوں کے نشان موجود ہیں۔
بہر حال حفاظتی ٹیکوں کی بدولت، اسکول کے کسی بچے کو بھی، کسی قسم کی متعدی بیماری نہیں ہوتی تھی۔ اسکول اپنی ذمے داری سمجھتا تھا کہ طلباء اور طالبات کو مکمل طور پر صحت مند رکھے۔ جونیئر اسکول میں ایک عجیب سا اصول تھا۔ کسی بھی مضمون کا، کسی بھی وقت، کلاس ٹیچر امتحان لے لیتی تھیں۔ اس اصول کی بدولت مجھے ہر وقت پڑھنے اور مضمون تیار کرنے کی عادت پڑ گئی۔ مسلسل مطالعہ کی یہ عادت آج بھی موجود ہے۔ جس ہفتے نئی کتابیں نہ خریدوں، زندگی ادھوری سی لگتی ہے۔ لگتا ہے کچھ اہم ترین کام رہ گیا ہے۔ ویسے اب تو کمال ہے کہ ہر کتاب آن لائن موجود ہے۔
آپ ویب سائٹ پر کتابوں کی فہرست بھجوا دیں۔ دو چار دن میں تمام کتب گھر پہنچ جاتی ہیں۔ پیسے بھی کتابیں ملنے کے بعد ہر کارہ وصول کرتا ہے۔ آن لائن کتب حد درجہ سستی ملتی ہیں۔ عادت کے مطابق ہر ہفتہ مسلسل کتابیں منگواتا رہتا ہوں۔ جتنی مرضی مصروفیت ہو، کم از کم ایک سے دو گھنٹے آج بھی اپنی اسٹڈی میں مطالعہ میں گزرتے ہیں۔ یہ سخت کوش عادت مجھے اسکول سے ہی پڑی ہے۔ بلکہ دیکھا جائے تو گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ میرے دونوں بیٹے، مبارز اور ہمزہ بھی فارغ وقت میں موٹی موٹی انگریزی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں۔ مگر وہ اسے "کنڈل" پر پڑھتے ہیں۔ اور میں ہارڈ کاپی یعنی کاغذ کی کتاب پڑھنے کا عادی ہوں۔
اسکول کا یہ سب کچھ آج سے پچپن بلکہ ساٹھ سالہ پرانا ہے۔ لگتا ہے کہ اس اسکول میں کبھی بھی نہیں گیا۔ بس ایک خواب سا تھا۔ کوئی بھی چیز حقیقی نہیں تھی۔ سب کچھ دھندلا سا لگتا ہے۔ پر نہیں صاحب، یہ سب کچھ ایک سچائی پر مبنی حقیقت تھی جس کا آج کے ماحول میں احاطہ کرنا مشکل نہیں، بلکہ ناممکن سا لگتا ہے۔ امیر حمزہ کی داستان جیسی کوئی کہانی۔ مگر آج جو کچھ بھی ہوں۔ لائل پور کے ڈویژنل پبلک اسکول کی لگائی ہوئی پختہ اینٹ ہوں جس نے پوری عمر مجھے سنبھال کر رکھا ہے، اور کیا لکھوں، بادل تو کھڑکی کے باہر نظر آ رہے ہیں، پر پانی تو آنکھوں سے برس رہا ہے۔