سردی عروج پرتھی۔ فیروزپورروڈ، لاہور پر ٹریفک نہ ہونے کے برابرتھی۔ پیدل لوگ بھی کم ہی نظر آرہے تھے۔ گاڑی سے اچانک باہرنظرپڑی تو ایک ریڑھی والا پھل بیچ رہاتھا۔ پرانی سی ریڑھی، اس پرتین چارطرح کے پھل۔ ایک بوسیدہ سی کرسی، جس پروہ ادھیڑ عمرشخص بیٹھاہواتھااورریڑھی کے ساتھ ایک ڈنڈے پر لٹکتی ہوئی لالٹین۔ یہ تھی اس کی دکان اور شائدکُل سرمایہ حیات۔ عجیب سالگا کہ اس وقت تو دور دور تک کوئی دکان یا ریڑھی موجود نہیں ہے۔
جاڑے کی وجہ سے لوگ گھروں میں بند ہیں۔ پھریہ آدمی، ایک میلی سی چادر اوڑھے دکان لگا کرکیوں بیٹھاہواہے؟ شائداسے سردی نہیں لگ رہی یاکوئی اوربات ہو۔ تجسس کی وجہ سے گاڑی روک کراس کے پاس چلاگیا۔ نزدیک آنے پر معلوم ہواکہ وہ اُدھیڑعمرنہیں، بلکہ قدرے جوان ہے۔ چادر میں بھی اسے سردی لگ رہی تھی۔
پھربھی کرسی پر بیٹھاہوا تھا۔ ایک دیسی انگیٹھی پڑی تھی۔ جس میں کوئلے جل رہے تھے۔ بلکہ آخری دموں پر تھے۔ رات کے ساڑھے گیارہ بجے کاوقت تھا۔ پھلوں کی قیمت پوچھنے کے ساتھ ساتھ، اس سے مکالمہ شروع کر دیا۔ آپ اتنی سردی میں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں، دیر تک، ریڑھی لگا کر کیوں اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال رہے ہو۔ پھل فروش کی آنکھوں کے اردگرد حلقے پڑے ہوئے تھے۔ کہنے لگا، باؤجی! اپنی خوشی سے تو اتنی سردی میں یہاں نہیں بیٹھا ہوا"۔ باؤجی! میرے پانچ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ فروٹ بیچنے سے جوتھوڑا کماتاہوں اسی سے گھر کاچولہا جلتاہے۔
بچے سرکاری اسکول میں پڑھنے جاتے ہیں بیوی کو کالا یرقان ہے۔ اکثر بستر پر پڑی رہتی ہے۔ میری بڑی بیٹی جوصرف 9 سال کی ہے، کھانا بناتی ہے۔ بیوی کو سرکاری ڈسپنسری میں علاج کے لیے ہر مہینے لیکر جاتا ہوں۔ وہاں دوائی تو نہیں ملتی مگر دوائیوں کی ایک فہرست ہاتھ میں پکڑادی جاتی ہے۔ دوائیاں کہاں سے خرید سکتاہوں، بس خداکاہی سہارا ہے۔ جو کماتا ہوں، پھر گھر کے اخراجات پورے نہیں پڑتے۔
باؤجی چھوڑئیے۔ ایسے لگا کہ وہ اپنا دکھ سینے میں پال رہا تھا۔ کوئی بندہ چاہیے تھاجواسکی باتیں سن سکے۔ جب گھر جاتا ہوں، تو بیوی بہت لڑتی ہے۔ اگر میں نے سات سوروپے کمائے ہوں، تو کہتی ہے کہ آج سودا سلف کے علاوہ، فلاں فلاں خرچہ اور ہوا ہے۔ بیوی کی باتوں کا بُرا نہیں مانتا، وہ بھی سچ کہتی ہے۔ بھلا، اتنے کم پیسوں میں، 7 آدمیوں کا کنبہ کیسے گزاراکرسکتا ہے۔ میں بھی خوب لڑتا ہوں۔ پھرہم دونوں خاموش ہوجاتے ہیں۔
باؤجی، یقین کرو، سب کچھ برداشت کرتاہوں، غربت، شدید سردی میں ریڑھی پربیٹھنا، اپنے بچوں کی تعلیم میں دلچسپی نہ لینے کوبھی۔ مگرباؤجی، ایک چیزکلیجہ پھاڑتی ہے۔ سب کچھ کرتاہوں۔ جومیرے بس میں ہے، مگرمیری کوئی عزت نہیں کرتا۔ گھرمیں اورنہ باہر۔ کارپوریشن والوں کاٹرک آتاہے، میرا ساراسامان اُٹھاکرلیجاتے ہیں۔ جرمانہ کرتے ہیں۔ تھپڑاورڈنڈے مارتے ہیں۔ گالیاں دیتے ہیں۔
دل چاہتاہے کہ پستول لوں، اوران کوگولیاں مارمارکرختم کرڈالوں۔ ایک آخری گولی اپنے سرمیں اُتاردوں۔ پھربچوں کاخیال آجاتاہے کہ اگرمیں نہ رہا، توان کاسہاراکون بنے گا۔ مجبورہوکرذلت برداشت کرتاہوں، روزمرتاہوں۔ سب مصیبتیں اپنی اولادکے لیے جھیلتاجارہاہوں۔ مگرعذاب یہ بھی ہے کہ جب گھر جاتا ہوں، توبیوی ایسے طعنے دیتی ہے کہ دل چاہتاہے کہ زمین پھٹ جائے اورمیں اس میں دفن ہوجاؤں۔ مگر مجبور ہوں، باؤجی مجبور۔ میں اس کی باتیں غورسے سن رہاتھا۔ بیس منٹ گزرگئے۔ وہ پھر بولا، باؤجی، ویسے مردکی عزت کیوں نہیں ہے؟ ہرجگہ مردہی بے عزت ہوتا ہے۔
پتہ نہیں امیرلوگوں کے کیاحالات ہیں۔ مگر جس بستی میں رہتا ہوں۔ وہاں سارے غریب لوگ ہی رہتے ہیں۔ دیہاڑی دار مزدور، خوانچہ فروش، لنڈے بازارمیں کام کرنے والے افراد، سائیکلوں کوپنکچرلگانے والے محنت کش۔ ہم سب روزکمانے اور کھانے والے لوگ ہیں۔ دن رات کام کرتے ہیں۔ تقریباً تمام کوگھرآکرطعنے ہی سننے کوملتے ہیں۔ اتناکام کرنے کے باوجود، سب پریشان ہی رہتے ہیں۔ میری کیا، ہم سب لوگوں کی نہ باہر عزت ہے اورگھر پر۔ باؤجی، پتہ نہیں، اللہ ہم سے کیوں ناراض ہے۔ آپ بتائیے۔ کیاخریدیں گے۔ میں نے تھوڑا سا پھل خریدا اور واپس آگیا۔ یہ واقعہ فراموش ہوگیا۔
زندگی کے بکھیڑے اتنے ہیں کہ غیراہم معاملات، اہمیت اختیارکرلیتے ہیں اور اہم اُمور، پیچھے رہ جاتے ہیں۔ تقریباً چار برس پہلے، ایک تجارتی بابوسے ملنے گیا۔ وہ اپنے ملازم کوگالیاں دے رہاتھا۔ شائداس غریب سے کوئی غلطی ہوگئی تھی۔ غلطی کیاتھی، صاحب کی چائے میں چینی نہیں ڈالی تھی۔ اس چپڑاسی کی اس قدرذلت ہورہی تھی۔ وہ خاموشی سے کھڑاصرف معافیاں مانگ رہاتھا۔
روروکرکہہ رہاتھاکہ صاحب، مجھے نوکری سے نہ نکالیں۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ آیندہ کبھی غلطی نہیں ہوگی۔ بس معافی دیدیں۔ رحم کریں۔ اَزحدافسوس ہوا۔ بزنس مین دوست کوکہاکہ جانے دو، چینی خودڈال لو۔ کیافرق پڑتا ہے۔ معاف کردو۔ بہرحال معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
گھنٹے بعد باہرنکلاتوچپڑاسی روتے روتے میرے پاس آگیاکہ صاحب، آج آپ نے میری نوکری بچالی۔ میرے بچوں کارزق بچ گیا۔ خدا آپ کواس کااَجردے۔ سارادن صاحب کی خدمت کرتا ہوں۔ مگرمیری کوئی عزت نہیں ہے۔ پورادن گالیاں کھاتاہوں۔ مگربچوں کی شکلیں سامنے آجاتی ہیں۔ خاموش ہوجاتاہوں۔ گھروالوں کوپتہ ہی نہیں کہ میں صرف اورصرف ان کی خاطرروزکتنے بڑے بڑے عذاب جھیلتاہوں۔ خیرصاحب، کبھی تو انصاف ملے گا۔ شائدمرنے کے بعد، اللہ انصاف کر دے۔
یہ دوواقعات ذہن پرنقش ہوچکے ہیں۔ آپ کو گزارش کرنے کا بھی ایک مقصدہے۔ ہمارے ملک میں ہرطرف یکساں خیالات کی ٹریفک لگاتارچل رہی ہے۔ عورت کوعزت دو۔ عورت کے حقوق کہاں ہیں۔ عورت کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ اسے مردکے ساتھ برابری چاہیے۔ مرد، عورت کااستحصال کررہا ہے۔
عورت کوکمترسمجھنے والے مرد حضرات، سخت زیادتی کررہے ہیں۔ یہ معاشرہ عورتوں کے ساتھ زیادتی کررہا ہے۔ اس طرح کے بے شمار نعرے، جملے، باتیں، اشتہار آپ کوہروقت سنائی دیتے ہیں۔ میں ان سے سو فیصد متفق ہوں۔ عورت کی عزت کرنی چاہیے۔ ان کی صلاحیتوں کے مطابق انھیں ترقی کے یکساں مواقعے بھی ملنے چاہئیں۔ ان کااستحصال ہرگزہرگزنہیں ہوناچاہیے۔
یہ سب کچھ درست ہے۔ مگرکیاکبھی کسی نے کہاہے کہ مرد کوبھی عزت دو۔ اس کے ساتھ زیادتی اورظلم نہ کرو۔ اس کی مجبوریوں کاخیال رکھو۔ وہ جس عذاب سے گزرکر اپنے اہل خانہ کاپیٹ پالتاہے، اس جذبے کی قدرکرو۔ دل پرہاتھ رکھ کربتائیے۔
آج تک کسی عالم، دانشور، کسی این جی اوزکے نمائندے، کسی اہم سیاستدان کویہ فرماتے نہیں سنا، کہ ہمارے معاشرے میں مردایک خچرکی طرح زندگی کاتمام بوجھ اُٹھاکر چلتاہے۔ اپنی بچیوں اوربچوں کی ایک مسکراہٹ کے لیے ہردم محنت کرتاہے۔ دفتروں میں جھاڑیں کھاتاہے۔ ویگنوں اوربسوں میں دھکے کھاتا ہے۔ اگرنوجوان ہے، تونوکری حاصل کرنے کے لیے جوتیاں گھسادیتاہے۔
شادی ہوجائے، توبیوی کو خوش رکھنے کے لیے کیاکیاجتن کرتاہے۔ ماں باپ کے طعنے الگ سنتا ہے۔ جومرضی کرلے، جتنی بھی خدمت کرلے۔ کوئی بھی اس سے خوش نہیں ہوتا۔ اگرماں باپ سکھی ہیں، تو بیوی ناراض، اگر اہلیہ خوش ہے، توماں باپ اسے رَن مریدکے طعنے کے سوا کچھ نہیں کہتے۔ اگر اپنے بچوں اوربچیوں کی کفالت اچھے طریقے سے کرنے کی کوشش کرتاہے، توکنبہ کے اکثرلوگ پھر ناراض ہوجاتے ہیں۔ کہ اسے تواپنے بچوں کے سوا کچھ نظرنہیں آتا۔ غرض یہ کہ مردجومرضی جتن کرلے، کوئی بھی اس سے خوش نہیں ہوتا۔ عزت تودورکی بات، کوئی واجبی طورپر بھی اس کی قدرنہیں کرتا۔
امیرگھرانوں میں بھی یہی حالات ہیں۔ بس نوعیت مختلف ہے۔ مگرجوہری نکتہ بالکل یکساں ہے۔ اگربیوی کوئی اچھی نوکری کررہی ہے یامعاشی طورپر اپنے پیروں پرکھڑی ہے، توحرام ہے کہ وہ اپنے خاندان کی چھت، یعنی مردکی ہلکی سی بھی مداح ہو۔ اس کی زبان پر ہر وقت، میرا کمایا ہوا پیسہ، میری گاڑی، میرے کپڑے، میرے بیرونی ٹورز کے سوا کوئی جملے نہیں آتے۔ عجیب بات ہے کہ امیر اور غریب گھرانوں میں مرد کے استحصال کے معاملات بالکل یکساں ہیں۔ کسی قسم کاکوئی فرق نہیں۔
ہمارے جیسے ملک میں مرد، ذلیل ہونے کے لیے پیدا ہواہے۔ خواتین کی عزت ہونی چاہیے، درست بات ہے۔ مگرمردکی عزت اوراحترام کے بارے میں کوئی بات کیوں نہیں ہوتی؟ اس موضوع پرمیں نے کبھی کوئی مثبت بات نہیں سنی۔ گزارش ہے کہ مردکی عزت بھرپورطریقے سے ہونی چاہیے۔ وہ خاندان کی چھت ہے۔ اگرچھت گرجائے توبارش کے پانی سے مضبوط سے مضبوط گھربھی تباہ ہوجاتاہے۔