معاملات اس حد تک ابترہو جائیں گے، اس کا اندازہ دوڈھائی برس پہلے بالکل نہیں تھا۔ نہ ریاستی اداروں کو اور نہ ہی ہمارے سیاست دانوں کو۔ آپ مانے یا نہ مانے، ملک میں بے چینی، بے بسی اور غصہ کا ایک ایسا ملغوبہ پک رہا ہے، جو آتش فشاں کو بھی مات کر سکتا ہے۔
خوشحالی بھی اس صورتحال میں معدوم نظر آتی ہے۔ کوئی ایسا سیاسی یا غیر سیاسی رہنما دور دور تک نظر نہیں آتا جو پاکستان کو اس پاتال میں مزید دھنسنے سے روک سکے۔ دلدل سے واپسی کا راستہ تو محض ایک خام خیالی سی ہے یا شاید خواب، جسے شرمندہ تعبیر کرنا ناممکن معلوم پڑ رہا ہے۔ اب صرف ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے کہ دلیل اور ٹھوس زمینی حقائق کے حساب سے ہر معاملہ کو پرکھا جائے۔ پھر اس کا حل نکالنے کی کوشش کریں۔ بھول جائیں کہ اب پیچیدہ مسئلوں کے مقبول حل ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔
دوبارہ عرض کروں گا کہ غیر مقبول ترین تریاق بھی اگر موجودہ زہریلی صورت حال کو بہتر کر سکتا ہے تو ضرور کیجیے۔ یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حساس معاملات کبھی بھی عوامی سطح پر زیر بحث نہیں آتے اور نہ عوام ان کو حل کرنے کی استطاعت ہی رکھتے ہیں۔ ہاں، عام آدمی حالات کی بہتری سے شاداب ہو سکتا ہے۔ شاید آپ کو یہ جملہ مناسب نہ لگے۔ مگر جوہری بات یہی ہے کہ عوامی سطح پر نازک معاملات لانا، کسی بھی ریاست کے لیے غیر موزوں ہوتا ہے۔
ہمارے مسائل کی بنیاد کیا ہے۔ اس میں ایک نہیں، کئی اژدھے اور سانپ کنڈلی جما کر بیٹھے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ہمیں Welfare State سے سیکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ہندوستان سے ہمارے تعلقات حد درجہ کشیدہ ہیں۔ یہ ایک دو برس کی بات نہیں۔ یہ دشمنی سات دہائیو ں پر محیط ہے۔ ہندوستان سے ہماری براہ راست ان گنت جنگیں اور جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ مگر اب انڈیا نے براہ راست محاذ آرائی کے بجائے، ہمارے ملک کے خلاف سرکش افراد اور تنظیموں کو ہر طرح کی امداد دینی شروع کر دی ہے۔ روپیہ، پیسہ، جدید ترین اسلحہ، تربیت اور محفوظ پناہ گاہیں، یہ سب کچھ ہمسایہ ملک کی آشیر آباد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
اب آگے راستہ کیا ہے؟ کیا اس دشمنی کو مزید بھڑھاوا دیا جائے؟ یا ہم اپنی حکمت عملی کو معروضی حالات کے مطابق یکسر تبدیل کر لیں۔ طالب علم کی نظر میں معاملہ فہمی اور فراست کی جانب لوٹنا از حد ضروری ہے۔ ذرا غور فرمائیے۔ صرف پچھلے دس پندرہ دنوں میں، ہمارے ساٹھ جوان اور افسران ارض وطن پر جان قربان کر چکے ہیں۔ دہشت گردوں سے یہ خونی جنگ جاری و ساری ہے۔ مگر سوچیے۔ دنیا کی کوئی عسکری طاقت بھی روز مرہ کی بنیاد پر جنگ میں ملوث نہیں ہو سکتی۔ ہمارے بہادر جوان تو، ایک دہائی سے زیادہ مدت سے دہشت گردی سے برسرپیکار ہیں۔ آج اگر ہمارے ملک کے کچھ حصوں میں سکون ہے، تو صرف اور صرف ہمارے ریاستی اداروں کی قربانیوں کی بدولت ممکن ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں دہشت گردوں سے مذاکرات یا معاملہ فہمی والا معاملہ کرنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ خوارجین کے پیچھے جو طاقتیں ہیں ہمیں ان سے مذاکرات کا ڈول ڈالنا چاہیے۔ دہشت گرد تو ان طاقتوں کی چراہ گاہ ہے۔ بنیاد کی طرف لوٹیے۔ ہمیں ہندوستان سے ہر سطح پر مذاکرات کرنے چاہیں۔ بیک ڈور ڈپلومیسی، مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ دقت ہے کہ ہمارا مقتدر طبقہ، براہ راست ہندوستان سے معاملہ فہمی کی طرف قدم بڑھائے۔ اس کے لیے سب سے پرامن ہتھیار، باہمی تجارت ہے۔ تجارت کو مکمل کھول دیجیے۔ ہماری مصنوعات کی بھارت میں حد درجہ مانگ ہے۔ دوسری جانب، کئی ایسی مصنوعات ہیں جو ہم بھارت سے خرید سکتے ہیں۔ موجودہ کشیدگی کی صورت حال میں برائے نام تجارت، دبئی یا تیسرے ملکوں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ جس سے ہماری معیشت کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ ہمت کیجیے۔ ہمارا تجارتی طبقہ حد درجہ فعال اور ذہین ہے۔
ان پر اعتماد کیجیے اور تجارت کے تمام عوامل کو بھرپور طریقے سے کھول دیجیے۔ دشمنی کو کم کرنے میں پہلا راستہ، باہمی تجارت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، ہندوستان اور پاکستان کے مابین عوامی سطح پر باہمی رسائی کو آسان بنانا بھی ضروری ہے۔ جس ادارے یا حکومت نے کرتار پور کو ہندوستان سے مکمل رسائی دی ہے۔ میری دانست میں یہ حد درجہ دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ اس سے ہندوستان کے سکھوں میں، ہمارے ملک کے متعلق خیر سگالی کے جذبات عود کر آئے ہیں اور یہ بہت بڑی سفارتی فتح ہے۔ بالکل اسی طرز پر، دونوں ملکوں کے عوام کو ویزہ کے معاملات میں نرمی برتیں۔ ہندوستان سے کروڑوں لوگ، پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ان گنت افراد، ہندوستان کے تاریخی اور مذہبی مقامات کے اسیر ہیں۔
آپس میں رابطہ کو اتنا آسان کر دیں کہ اگر دہلی کا ایک خاندان، لاہور کے لذیز کھانوں سے مستفید ہونا چاہتا ہے اور صرف ایک دن کے لیے آنا چاہتا ہے۔ تو ویزہ کے بجائے، راہداری پرمٹ پر آنے کی اجازت دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اپنی گاڑی پر آئیں، کھانا کھائیں، شاپنگ کریں اور رات تک واپس چلے جائیں۔ اس معاملہ فہمی سے حد درجہ بہتری آ سکتی ہے۔ آپ، سوال کر سکتے ہیں، کہ کیا اس سے دہشت گردی کا عفریت کمزور پڑ جائے گا۔ بالکل، جناب۔ اگر آپ بنیادی مسائل کو معمول پر لانے کی کوشش کریں گے تو اس سے جڑے ہوئے معاملات بھی از خود بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔
اس نکتہ پر ایک اور دلیل بھی ہے۔ جنگیں کرکے دیکھ لیں۔ دونوں ملکوں نے پراکسی جنگیں بھی لڑ بھڑ کر اٹھا رکھیں۔ اگر ان مہیب اقدامات سے بات نہیں بنی تو معاملات میں نرمی کی پالیسی اپنا کر دیکھیے۔ چلیے، فرض کیجیے کہ اگر یہ راستہ بھی امن کو بھڑھاوا نہیں دے سکتا تو دیگر سخت گیر اقدامات کرنے کی گنجائش تو موجود ہے۔ وہ توآج بھی جاری و ساری ہیں۔ مگر ان کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا۔ ہاں ایک عرض کرتا چلوں۔ افغانستان کے طالبان بھی بھارت کے طفیلی ہیں۔ اگر ہمارے بڑے ہمسایہ ملک سے معاملات ٹھیک ہو گئے تو طالبان سے سنجیدہ معاملات طے کرنے بالکل آسان ہو جائیں گے۔
اب ذرا داخلی مسائل کی طرف آیئے۔ ریاستی اداروں کا جو بھرپور تعاون موجودہ حکومت کو حاصل ہے وہ بذات خود فقید المثال ہے۔ مگر کیا اس سے ملک میں استحکام آ چکا ہے؟ بالکل نہیں! موجودہ حکومت بوجھ بن چکی ہے۔ موجودہ سیاست دان تو معمولی سے معمولی مسئلہ بھی حل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ پھر میڈیا پر جس طریقے سے ان کی منفی کارکردگی کو حد درجہ مثبت بنا کر پیش کرتے ہیں، وہ بذات خود پسندیدہ نہیں۔
ہر محب وطن شخص نہ صرف پریشان ہے بلکہ نوجوان نسل تو اب ملک سے بھاگنے کے علاوہ کچھ اور نہیں سوچ رہی۔ سینیٹر فیصل واڈا کو آپ جتنا مرضی پسند یا ناپسند کر لیں مگر وہ بالکل درست کہہ رہا ہے کہ موجودہ حکومت، ہر طرح سے بے شعور اور کاہل لوگوں کا ہجوم ہے۔ اب کرنا یہ چاہیے کہ ایک آزادانہ الیکشن ہوں۔
جس میں ووٹ کی بنیاد پر جو بھی جیتتا ہے اس کو حکومت سازی کرنے دی جائے۔ ریاستی اداروں کی طاقت اتنی ہے کہ اب حکمران جماعت بھی کوئی من مانی نہیں کر پائے گی۔ یعنی ایک معقول ہائبرڈ سسٹم کی طرف آیا جائے۔ موجودہ سیاستدانوں سے جان چھڑوائی جائے۔ انھوں نے بھی اپنی تمام فیس وصول کر لی ہے۔ مکمل جمہوریت کے پودے کو پنپنے میں وقت لگے گا۔ اب جو سیاسی بازی گر موجود ہیں انھیں میں سے بہتر افراد کو آگے لانے سے استحکام آنے کا گمان کیا جا سکتا ہے۔
دیکھیئے۔ اس وقت ناموافق حالات ہمارے سامنے بلا بن کر کھڑے ہیں۔ یا تو ہم، ہروقت مرثیہ گوئی کرتے رہے۔ میڈیا پر یک طرفہ ٹریفک کو چلنے دیں۔ مگر یاد رکھیے، کہ اس پالیسی سے ملک کی معیشت، سماج اور عزت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ کوئی غیر منطقی بات نہیں کر رہا۔ ہم سپر پاور نہیں ہیں۔ نہ ہی ہمارے حالات سپر پاور بننے والے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اصل مقتدر طبقہ، اپنی بیرونی اور اندرونی حکمت عملی کو تبدیل کرے۔ موجودہ ابتلاء کو روکے۔ ایک نئی صبح کا آغاز کرے! شاید ہم ترقی کی منزل پر گامزن ہو جائیں؟