Saturday, 28 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Pakistan Aik Nakam Riyasat Hai?

Pakistan Aik Nakam Riyasat Hai?

Fund for Peace ایک تھنک ٹینک ہے۔ یہ ایک تحقیقی ادارہ ہے جو ملکوں اور ریاستوں کو سائنسی اور منطقی انداز میں ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کامیاب یا ناکام قرار دیتا ہے۔ یہ محنت طلب اور دلیل پر مبنی کام ہے۔ کیونکہ کسی بھی صورت میں، کسی بھی ملک کے متعلق غلط بات کرنا، اپنے آپ کو عذاب میں ڈالنے والی بات ہے۔ چنانچہ، اس ادارے کو بہت زیادہ احتیاط کرنی پڑتی ہے۔

یہ امریکی تھنک ٹینک تحقیق حد درجہ محتاط انداز پر کرتا ہے۔ اس میں جذباتیت یا تعصب نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر سال یہ ادارہ ایک فہرست چھاپتا ہے جس میں مختلف ممالک کی ساخت، کامیابی یا ناکامی کے حساب سے ان کا تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس فہرست کو پہلے Failed State Index کہا جاتا تھا۔ لیکن اب اس کا نام Fragile State Index رکھ دیا گیا ہے۔

مگر مطلب تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔ یعنی کمزور ریاستیں یا جنھیں توڑنا مشکل نہ ہو۔ یہ ادارہ "فارن پالیسی" کے نام سے ایک رسالہ بھی شایع کرتا ہے۔ اس مرتبہ 179ملکوں کا ایک جائزہ لیا گیا ہے۔ ہر ملک کو 120 میں سے نمبر دیتے جاتے ہیں، ملک کے نمبر جتنے کم ہوں گے، وہ اتنا ہی مستحکم ہوگا۔ اس تحقیق کے مطابق فن لینڈ دنیا کا سب سے مستحکم اور بہترین ملک ہے۔

اس کے مجموعی نمبر صرف پندرہ ہیں۔ اس کے علاوہ ناروے، آئس لینڈ، نیوزی لینڈ بھی کم نمبروں کی بدولت استحکام پر مبنی معاشرے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان اس فہرست کے 89۔ 7 ویں نمبر پر ہے، صرف یمن، صومالیہ، ایتھوپیا، عراق، افغانستان اور لیبیا وغیرہ ہم سے نیچے ہیں۔ شمالی کوریا، کینیا اور فلسطین ہم سے کئی گنا بہتر ہیں۔

علم میں نہیں کہ ہمارے ملک میں اس ناکامی اور اس کے اسباب پر کیوں غور نہیں کیا گیا۔ کسی بھی حکومتی یا ریاستی ادارے نے اس رپورٹ کے حقائق کے حساب سے نفی کیوں نہیں کی۔ اس معذوری کی صرف ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے متعلق جو کچھ اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے۔ وہ بالکل درست ہے۔ اور اسے غلط ثابت کرنا حکومتی سطح پر ناممکن ہے۔

اب میں ان نکات کی طرف آتا ہوں جو کہ اس مقالہ کی بنیا د ہیں۔ بنیادی طور پر پانچ ایسے ٹھوس نکات ہیں جو قوموں کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان میں ہر ایک کے آگے مزید نکات بھی شامل ہیں۔ سب سے پہلے ان پانچ نکات کو بیان کرتا ہوں۔

Economic، Cohesion (معاشی)، Political (سیاسی)، Social (سماجی) اور Cross Cutting۔ یہاں میں ایک اہم ترین عنصر کی طرف توجہ مبذول کرواتا ہوں۔ تنزلی کا سفر آہستہ آہستہ طے ہوتا ہے۔ یہ بھی نہیں کہ اس ملک میں صلاحیت کی کمی ہوتی ہے۔ مگر اصل مسئلہ قومی صلاحیت کو بروئے کار نہ لانے کا المیہ ہے۔

تمام ناکارہ ریاستوں میں اشرافیہ، اقتدار اور وسائل پر ناجائز طریقے سے قابض ہو جاتی ہے۔ اور عوام بتدریج غریب سے غریب تر ہوتے جاتے ہیں اور یہ خاموش المیہ، قوموں کو ختم کر دیتا ہے۔ ہاں، ایک اور حد درجہ تلخ سچ جو اس رپورٹ میں درج ہے۔ وہ یہ کہ ریاستی اور حکومتی ادارے بنیادی طور پر Extractiveطرز کے ہوتے ہیں۔ وہ ہر قسم کی جدت کو ختم کرتے ہیں۔ عام لوگوں کے ٹیلنٹ کو برباد کیا جاتا ہے۔ ان پر کامیابی کے تمام راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کے اشرافیہ Extractionکی بدولت زندہ اور توانا رہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ اشرافیہ، تمام جمہوری اداروں کو اپنی طرز پر ڈھال لیتی ہے۔ پورے نظام کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیتی ہے۔ مگر اس رپورٹ کے مطابق ایک بات طے ہے۔ اشرافیہ کی اکثریت، ملک کے ختم یا برباد ہونے کے ساتھ ہی ڈوب جاتی ہے۔ مگر یہ سب کچھ ایک حد درجہ تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ تمام عوامل موجود ہیں۔

چند ممالک کی عملی مثال بھی اس زاویہ کو تقویت دیتی ہے۔ شمالی کوریا، افغانستان، مصر، صومالیہ، کولمبیا، پیرو، بولیویا وغیرہ اس بربادی کی بھرپور مثالیں ہیں۔ مصر کی مثال ہمارے ملک کے قریب ترین ہے۔ مصر میں ریاستی اور حکومتی اداروں کے پاس ملکی معیشت کا پچاس فیصد قبضہ تھا۔ حسنی مبارک کے اقتدار اور اس کے بعد کے عسکری سربراہان نے معیشت کو De-regulateکرنے کی جعلی کوشش کی۔ مگر اس ڈرامے میں اشرافیہ کے چند حلقوں کو تمام وسائل کا مالک بنا دیا گیا۔

حسنی مبارک کا بیٹا جمال، مکمل طور پر صنعتی زار بن گیا۔ تمام صنعت کار جو ریاستی حلقوں کے نزدیک تھے۔ وہ مزید امیر بنا دیے گئے۔ جیسے احمد از کو لوہے کے کارخانے دے دیے گئے، سوارس خاندان، ٹیلی کمیونیکشن کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ اور محمد نصیر کو میڈیا ڈان کر دیا گیا۔

بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے ان لوگوں اور صنعتی گروپوں کو وہیل مچھلی سے تشبیہہ دی۔ جنھوں نے مصر کی معیشت کو ہڑپ کر لیا۔ پاکستان میں بعینہ یہی مماثلت موجود ہے۔ حکومت کی طرف سے بنائی گئی اشرافیہ ملک کے تمام وسائل کو ناجائز طریقے سے ہڑپ کر چکی ہے۔ اور اس ظلم کو روکنے والا کوئی بھی نہیں ہے، نا فرد اور نا ہی کوئی ادارہ۔

ایک کالم میں تو خیر اس Fragile index کا سرسری تذکرہ بھی نہیں ہو سکتا۔ مگر جو پانچ سنجیدہ نکات شروع میں عرض کیے تھے۔ ان کی حد درجہ معمولی سی تفصیل ضرور درج کرنا چاہتا ہوں۔

Cohesion کے عنوان کے نیچے، دفاعی مشین، حصوں میں بٹی ہوئی اشرافیہ اور گروہی رقابتیں شامل کی گئیں ہیں۔ غور سے پرکھیے۔ ہمارا دفاعی نظام، کیا واقعی لوگوں کی حفاظت کر رہاہے۔ اس میں پولیس اور دیگر ریاستی ادارے بھی شامل ہیں۔ کسی بھی ذی شعور کا جواب منفی میں ہوگا۔ اس طرح مختلف حصوں پر قابض اشرافیہ بڑی مہارت سے عوام کے ایک حصے کو دوسرے کے خلاف لڑوا رہی ہے۔ پھر گروہی رقابتیں بھی عروج پر ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے پاس مسلح ملیشیا موجود ہیں۔

جو ایک دوسرے کے مسالک کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ اب ذرا معاشی صورت حال کی طرف آیئے۔ اس میں معاشی تنزلی، غربت، ناہموار ترقی اور ذہین لوگوں کا ملک چھوڑنے کا رجحان شامل ہے۔ جو اب دیجیے۔ کیا یہ تمام عناصر بھرپور طریقے سے ہمارے سماج میں برہنہ ہوکررقص نہیں کر رہے۔

غربت عروج پر ہے۔ صنعت دم توڑ چکی ہے۔ ملک کے کچھ علاقے ترقی یافتہ نظر آتے ہیں۔ چند کلو میٹر کی ترقی کے باہر یک دم آپ کو غربت، جہالت اور پسماندگی کے سمندر نظر آتے ہیں۔ جواب دیجیے۔ کیا کوئی شخص ملک میں رہنے کے لیے تیار ہے۔ ہرگز نہیں، ہماری سیاسی قیادت تک پاکستان رہنے کے لیے تیار نہیں۔ اب ذرا سیاسی معاملات کی طرف نظر دوڑائیے جو کہ اس فہرست میں تیسرا حصہ ہے۔

حکومت کا قانونی جواز، عوامی رعایت کے معاملات، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی، اس کے لازم جزو ہیں۔ اس تیسرے حصے میں کوئی ایک ایسا معاملہ نہیں جس میں ہم لوگ مثبت ڈگر پر چل رہے ہوں۔ سماجی نکتہ میں۔ آبادی کا بڑھنااور مہاجرین کا عنصر شامل ہے۔ آبادی تو خوفناک طریقے سے مسلسل پھیل رہی ہے۔ اور ہر ملک کے مہاجرین بھی ہر جگہ موجود ہیں۔ آخری نکتہ Crosscutting ہے جس میں بیرونی مداخلت شامل ہے۔

اس میں بھی دو رائے نہیں کہ ہم ہر طور پر بیرونی مداخلت بلکہ جنگ کی کیفیت میں ہیں۔ ہماری افغانستان اور ہندوستان بلکہ ایران تک سے بھی لڑائی ہی لڑائی ہے۔

طالب علم نے حد درجہ احتیاط سے کام لے کر پاکستان کا "ناکام اقوام" میں معاملہ دلیل کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ دراصل ہم مکمل طور پر ناکام ریاست بن چکے ہیں۔ ہر ذی شعور کو معلوم ہے۔ مگر حکومتی اور ریاستی سطح پر ہم سے بھرپور طریقے سے جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ سب اچھا تو دور کی بات، کچھ بھی اچھا اور درست سمت میں نہیں ہے۔

ریاستی دروغ گوئی ہمیں اس سطح پر لے آئی ہے۔ کہ غربت، جہالت کے ساتھ ساتھ مسلح جتھے پوری طاقت سے عسکری اداروں سے جنگ کر رہے ہیں۔ کوئی مثبت بات یا خبر بھٹک کر بھی ہمارے سامنے نہیں آتی۔ بین الاقوامی ادارے ہماری اشرافیہ کی ناجائز دولت سے واقف ہیں۔ لہٰذا اب ہمیں کوئی بھی قرض دینے کے لیے تیار نہیں۔ ورلڈ بینک کھل کر کہہ چکا ہے کہ پاکستان ٹیکس اور امداد وصول کرکے اپنی اشرافیہ کو مزید سہولت فراہم کرتا ہے۔ دنیا کا ہر ملک ہمیں منفی انداز میں دیکھتا ہے۔

کسی جگہ پر ہماری کوئی عزت نہیں ہے۔ ہم جھوٹ فریب، ریاکاری، دوغلہ پن، منافقت کا وہ ملغوبہ بن چکے ہیں۔ جس کو دیکھ کر مہذ ب ممالک اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ ہم سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ بڑی ڈھٹائی سے اپنے متعلق کسی منفی عنصر کو خاطر میں نہیں لاتے۔ بلکہ اپنی پہاڑ جیسی غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائے، یہود و ہنود کی سازش کے مفروضہ میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اب شاید پانی سر سے گزر چکا ہے۔ بدقسمتی سے اب ہمارا ملک ایک ناکام ریاست ہے! جس کا کوئی والی وارث نہیں!