ابراہیم لنکن ابتدائی زندگی میں مکمل طورپرناکام انسان تھا۔ جوان عمری میں اس نے بہت سے کاروبار کرنے کی کوشش کی۔ مگرخوش قسمتی اس سے دور ہی رہی۔ معمولی اشیاء کے اسٹورسے لے کرملاح گیری تک کوئی بھی ایساکام نہیں تھاجواسے راس آیاہو۔ قانون کی ڈگری لینے کے باوجودوہ قابل ذکروکیل نہیں تھا۔
سترسے اَسی فیصد لوگوں سے فیس نہیں لیتاتھا۔ اپنے موکلین کوہمیشہ سمجھاتا تھاکہ عدالتوں سے دوررہو۔ یہاں انصاف کے سوا سب کچھ ملتاہے۔ کرتایہ تھاکہ مخالف فریقین کوبٹھا کر تصفیہ کر وادیتاتھا۔ آپ خودسوچیے کہ ایک وکیل جب اپنے مقدمہ کی پیروی کے بجائے صلح صفائی کروانے کی کوشش کرے، اس کی کیاپریکٹس ہوگی۔ ناکامیوں کے باوجود لنکن چندایسی صلاحیتوں کامالک تھا جواسے ہرجگہ نمایاں کر دیتی تھیں۔
ایک توحددرجہ قادر الکلام انسان تھا۔ تقریر کے فن کابادشاہ اوردوسرا، اسے نسلی امتیازسے حددرجہ نفرت تھی۔ سیاہ فام لوگوں کوامریکا میں گوروں کے برابر انسانی حقوق دلوانے کاسہراصرف اور صرف ابراہیم لنکن کو جاتا ہے۔ ابراہیم لنکن اپنی تقریر اس توازن سے کرتا تھاکہ سامعین پرسکتہ طاری ہو جاتا تھا۔ گفتارکی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ شائستگی سے بات کرنا جانتاتھا۔ کڑوی سے کڑوی بات کااس قدرآراستہ جواب تراشتہ تھاکہ طنزکرنے والاشخص بے بس ہوجاتا تھا۔ بلکہ شرمندہ ہوجاتا تھا۔
اپنے اصل موضوع پرلکھنے سے پہلے صرف ایک واقعہ تشریح کے لیے پیش کرتاہوں۔ لنکن جب پارلیمنٹ میں پہلی تقریرکے لیے گیاتوہفتوں تک اس اہم کام کی تیاری کرتارہاتھا۔ یہ وہ نازک دورتھاجب امریکا میں خانہ جنگی ہورہی تھی۔ غلاموں کی خریدوفروخت اس وقت کا سب سے بڑاکاروبارتھا۔ تمام تاجر، دولت مندلوگ اس المناک کاروبارسے منسلک تھے۔ یعنی دولت اور طاقت کا توازن لنکن کے مکمل طورپرخلاف تھا۔
لنکن ایک غریب گھرانے سے وابستہ تھا۔ دیانتداری سے سمجھتا تھا کہ سیاہ فام لوگ جب تک امریکی نظام میں داخل نہیں ہوتے، اس وقت تک ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ سیاستدانوں میں سے اکثریت سیاہ فام لوگوں کو غلام رکھنے کا عزم رکھتی تھی۔ اسی مشکل مناظرمیں لنکن کو صدارتی تقریرکرنی تھی۔
چنانچہ تقریرکی مکمل تیاری کرکے آیاتھا۔ پارلیمنٹ میں داخل ہوکرجب اسٹیج پر پہنچا توایک ایساواقعہ ہوا، جس نے لنکن کی انسان کی برابری والے خیالات کی ٹھوس توثیق کردی۔ تقریرشروع کرنے سے پہلے ایک حددرجہ بااثر پارلیمنٹیرین نے اونچی آوازسے کہاکہ ابراہیم، تمہارا والد تو ایک موچی تھا۔ وہ میرے والداوررشتہ داروں کے جوتے بنایا کرتا تھا۔ تمہارے جیسے عام آدمی کا سیاست سے کیا لینا دینا۔ جاؤ، واپس جاؤ۔ کوئی دوسرا کام کرو۔ لنکن خاموشی سے یہ بات سنتارہا۔ ابھی تقریرباقاعدہ طورپرشروع نہیں کی تھی۔ لوگوں کاخیال تھاکہ اپنے والد کی تحقیرپرلنکن بھڑک اُٹھے گااورغصہ میں آجائیگا۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ابراہیم لنکن نے تاریخی جواب دیا۔"ہاں، میرا والد ایک موچی تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ اس نے آپکے بزرگوں کے جوتے بنائے ہوں۔
مگر ایک بات آپ بھول گئے۔ وہ ایک باوقار، مستند، تجربہ کاراور عظیم موچی تھا۔ میرا والد اپنے فن میں اس قدرمشاق تھاکہ کوئی بھی صارف، اس کے بنے ہوئے جوتے واپس نہیں دینے آیا۔ میں، ابراہیم لنکن بھی جوتے بنانے کافن جانتا ہوں۔ اگرآپ جوتے بنواناچاہیں، تو آپ شوق سے میرے پاس آسکتے ہیں۔ آپکوبے مثال جوتا بنا کردونگا۔ پرانے جوتوں کی مرمت بھی کردونگا۔ اس لیے بھی کہ ہاتھ سے کام کرنے والاہر آدمی اصل میں ایک بے مثال اورعظیم آدمی ہوتا ہے۔ ہرگزہرگز چھوٹا نہیں ہوتا۔ البتہ ان پرتنقیدکرنے والوں کے کردار کے متعلق کچھ بھی کہنامشکل ہوگا"۔ ابراہیم لنکن کا جواب سنکر خاموشی چھاگئی۔ جس سیاستدان نے اس پر طنزکیاتھا، شرمندگی سے پانی پانی ہوگیا۔ پورے ہال نے ابراہیم لنکن کامدلل جواب سنکر بھرپور تالیاں بجائیں۔ دنیا میں اس عظیم شخص نے غلامی کوختم کرکے دکھایا۔
ابراہیم لنکن کاسیاست میں اتناشائستہ جواب، ہمارے موجودہ سیاسی حالات اورگفتگومیں حددرجہ اہم ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی سیاست میں غیرمہذب بیانات کاعروج ہے۔ ابتداء کس نے کی۔ کیسے ہوئی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پرنظرڈالے بغیرہم آج کے تناظرکوسمجھنے میں غلطی کرسکتے ہیں۔
ایوب خان کا دور تو ذہن میں حددرجہ دھندلاہے۔ مگراس کے بعد بھٹو صاحب جیسے ذہین شخص نے اپنی تقاریرمیں ذومعنی الفاظ کوبہت زیادہ استعمال کیا۔ سیاسی مخالفین کے ادنیٰ قسم کے نام رکھے۔ آج بھی میری عمرکے لوگ ان القاب کوجانتے ہیں۔ انھیں ضبطِ تحریرکرنانامناسب بھی ہے اوربدتہذیبی بھی۔ ایک وجہ یہ بھی کہ جودنیاسے چلاگیا، اس کا کیا ذکر کروں۔ واقعاتی طور پر بھٹو ایک دیومالائی سطح کا سیاستدان تھا۔ اپنی خوبیوں اورخامیوں کے ساتھ۔ جنرل ضیاء الحق بھی بھٹوصاحب سے ذہنی طورپرخائف تھا۔ تمام تر کوتاہیوں کے باوجود، ضیاء الحق اپنی گفتگوکے الفاظ پر کافی حدتک حاوی تھا۔
ہرگزہرگزبہترمقررنہیں تھا۔ مگر تقاریرمیں ادنیٰ الفاظ کااستعمال کم سے کم کرتا تھا۔ سیاسی تقاریرمیں اگرآپ نے حددرجہ غلیظ الفاظ، ذومعنی باتیں، احترام سے عاری الفاظ بہتات سے سننے ہیں، تو 1985 سے لے کر1999کادوریادرکھناچاہیے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما بھی غیرذمے دارانہ طریقے سے مخالفین کی کردار کشی کرتے تھے۔ ان کی ذاتی زندگی کے متعلق جو تکلیف دہ جملے فرماتے تھے۔ وہ سب کچھ آج بھی لوگوں کے ذہن پر کندہ ہیں۔ کیمرے کی آنکھ میں سب کچھ محفوظ ہے۔ ایک بات کوجاننا چاہیے۔ بطور وزیراعظم نوازشریف اوربینظیرنے اپنی زبان پر کنٹرول کرنے کی جزوی کوشش ضرورکی۔ مگراس وقت تک حددرجہ نقصان ہوچکاتھا۔
گزشتہ بارہ سال میں سیاستدانوں کے طرزِتکلم پرغورفرمائیے۔ آپکی طبیعت بوجھل ہوجائیگی۔ آصف زرداری کوبطورصدر، محترم میاں صاحبان نے کس کس نام سے پکارا، یہ سب جانتے ہیں۔ اگربات، ٹین پر سنٹ پرہی ختم ہوجاتی، توچلیے پھربھی خیرتھی۔ مگر ہر ادنیٰ استعارے کوزرداری اوریوسف رضاگیلانی کے لیے استعمال کیاگیا۔ مگریہاں میں آصف زرداری کوداددینا چاہتا ہوں کہ اس"مردحر"نے پلٹ کرکبھی گالی نہیں نکالی۔
کبھی ایسی زبان استعمال نہیں کی، جسکے زخم حددرجہ گہرے ہوجائیں۔ ہاں، چھوٹی موٹی زبانی کراس فائرنگ ضرور کرتے رہے۔ اب کیونکہ دونوں پرانے سیاسی متحارب شیروشکرہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ لہٰذاکوئی بھی اس دورکویادنہیں رکھناچاہتا۔ ان تمام نفرتوں کے بازارمیں مزیدزہرگھولنے کے لیے عمران خان صاحب نے سیاسی مخالفین کے متعلق حدرجہ تلخ اورغیرمہذب باتیں کیں۔
مگرقدرت کاایک بے مثال نظام ہے۔ ہر چیز، لفظ، ظلم، اچھائی، نیکی، گناہ، پلٹ کر واپس ضرورآتاہے۔ آج کل بالکل یہی ہورہا ہے۔ سیاسی کرداربدل گئے ہیں۔ مگر زبان وہی ہے جواَسی اور نوے کی دہائی میں استعمال ہوتی تھی۔ اکھاڑے کے پہلوان تبدیل ہوگئے، مگر طرزِ تخاطب اورگفتگوکاادنیٰ پن بعینہ ماضی جیسا ہے۔ ایسے ایسے جملے ہیں جنھیں دہرانا تقریباً ناممکن سا ہے۔ شائد عوام کی اکثریت ان سیاستدانوں سے متاثرہے جوذومعنی جملوں میں آفاقی باتیں کرسکتے ہیں۔ موقع محل کے تناظر کے بغیرہرمخالف کی پگڑی اُچھالنا فرض سمجھتے ہیں۔ گھٹیا تقاریراب ہماری سیاست کامقدربن چکی ہے۔ جوہری نکتہ یہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے جغادری سیاستدان، ریاکاری، منافقت اورریاستی اداروں کی پنیری سے جعلی طور پر پیدا کیے گئے ہیں۔
ہمارے ادنیٰ نظام نے بونوں کوسیاسی جن بنانے کی بھرپورکوشش کی ہے۔ مگریہ صرف بونے ہی رہینگے۔ ان پرلاکھ عظمت کاروغن ملا جائے، ان کی اصلیت وہی رہیگی۔ یہ غیرمہذب گفتگو اوراپنی ذات سے اوپر سوچنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے۔ ان میں ایک بھی ابراہیم لنکن جیسالافانی انسان نہیں، جواپنے مخالف کے موچی والے طنزکوبھرپور طریقے سے سنکر مہذبانہ جواب دے پائے۔ مگراب بڑے قدکاٹھ کے سیاستدان کس کارخانے سے لے کرآئیں؟